آخر شب کے ہم سفر

117

وہ خاموش رہا۔ سرچ لائٹ دریا پر روشنی کا ایک اور دریا بہا رہی تھی۔

’’آپ کتنے دن رہیں گے؟‘‘۔

’’پتہ نہیں۔ جتنے دن بھی لگ جائیں۔ معاملات کافی گنجلک ہیں۔ مسلم لیگ عوامی تحریک بن چکی ہے، اس کی نئی طاقت کو نظر انداز کرنا حماقت ہوگی‘‘۔

بوڑھے ناخدا نے کان کھڑے کئے۔ اور ذرا نزدیک ہو کر دلچسپی سے بات سننے لگا۔ اور یک دفعہ مڑ کر نوجوان کو دیکھا۔ نوجوان نے مسکرا کر اسے ’’سلام علیکم‘‘ کہا اور بات جاری رکھی۔ ’’بنگال مسلم اکثریت کا صوبہ ہے۔ یہاں کی مسلم جنتا پروگریسو لیڈر شپ کی منتظر ہے…‘‘

’’نواب لوگ تو پروگریسو لیڈر شپ نہیں ہیں‘‘۔

’’پروگریسو لیڈر شپ ہماری ہوگی۔ ہمیں لیگ کے قریب آنا ہوگا۔ یہ پیش گوئی میں آج اگست 42ء کی اس رات کررہا ہوں۔ گرہ میں باندھ لو!‘‘

نواب قمر الزماں… یہ ارجمند منزل جائے گا۔ ارجمند منزل جائے گا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ ریلنگ پر جھک کر نیچے لہروں کو تاکنے لگی۔ پچھلے سال جولائی کی اس رات، سری سدن میں جو وعدہ میں نے آپ سے کیا تھا اس پر قائم نہ رہی۔ اسے چکر سا آگیا۔ اس نے جنگلا مضبوطی سے پکڑ لیا۔ جنگلے کا لوہا بالکل یخ تھا۔ میں نے ساری رات اس سے باتیں کرنے میں گزار دی۔ اب نہیں۔ اب کچھ نہیں۔ اب آئندہ بالکل پہچان کر نہ دوں گی۔ آخر سال بھر تک کس مضبوطی اور بے جگری سے اپنے وعدے پر قائم رہی ہوں کہ نہیں۔ ایک سال گزر گیا۔ اس طرح باقی عمر بھی گزر جائے گی۔ اب نہیں۔ یہ آخری ملاقات ہے۔ دیکھ لینا۔

بوڑھا پہیئے پر جھک چکا تھا۔ اسٹیمر تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔

’’ڈھاکے میں آپ کہاں ٹھہرے ہیں‘‘۔ لڑکی نے بالکل نارمل آواز میں دریافت کیا۔

’’اُدما کے ہاں‘‘۔ وہ ہنسا۔ ’’ایک زمانہ تھا کہ وُوڈ لینڈ میں ہمارے فرشتے تک نہ بھٹک سکتے تھے… نہیں خیر۔ ہمارا ایک فرشتہ تو پھٹکا تھا‘‘۔ اس نے پیار سے لڑکی کے بالوں کو چھوا۔ وہ جھنجھلا کر پرے سرک گئی۔ وہ کہتا رہا۔

’’اب ہم مزے سے عین سر پر ہی توش رائے کے گیسٹ روم میں ڈٹے ہوئے ہیں۔! اُدما سے تم کب نہیں ملیں؟‘‘

’’مدتیں ہوگئیں‘‘۔

’’آنا ان سے ملنے۔ وہ دلّی سے میرے ساتھ ہی آئی ہیں۔ آج کل ان کے والدین کلکتے گئے ہوئے ہیں۔ اس لیے سارے دوستوں کا اڈہ بے فکری سے وہیں ہوتا ہے‘‘۔

’’دلّی میں آپ امپیریل ہوٹل میں ٹھہرے تھے؟‘‘

’’ہم…؟ نہیں تو۔ اُدما وہاں مقیم تھیں۔ ہم ایک دوست کے یہاں تھے۔ کیوں؟ تم کو کیسے معلوم ہوا؟‘‘

’’آکاش بانی آئی تھی…‘‘لڑکی نے خشکی سے جواب دیا۔ نوجوان نے اسے غور سے دیکھا۔

’’تم واقعی بدل گئی ہو… ایک سال میں بدل گئی ہو۔ تم میں تلخی آگئی ہے۔ تم اتنی سیدھی، اتنی بھولی تھیں، تمہیں کیا ہوگیا، کون تمہاری اس تبدیلی کا ذمے دار ہے؟ اس نے لجاجت سے کہا۔

ماں۔ مجھے مضبوط بنا۔ مجھے فولاد کی طرح مضبوط بنا۔ لڑکی آنکھیں میچ کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔ لیکن ہر سمت دریا کا دھندلکا طاری تھا۔

’’تم دن بھر گھر پر رہتی ہو؟‘‘
’’جی ہاں‘‘۔
’’میں کسی وقت تمہارے ہاں آسکتا ہوں؟‘‘
’’کسی وقت نہیں‘‘۔
’’کیوں؟‘‘
’’ایسے ہی۔ میری مرضی‘‘۔
’’اچھا‘‘۔

اسٹیمر اب دریا کے موڑ سے گزر چکا تھا۔ ملاح نے پہیہ گھمانا ختم کردیا۔ سامنے روشنی کا راستہ بے حد وسیع ہوگیا۔ وہ دونوں جنگلے پر جھکے دریا کی منور لہروں کو تکتے رہے۔ گہرا متلاطم دریا۔ منور پانی، حد نظر تک روشن، چاروں کھونٹ پانی، ابتدا میں خلا تھا، اور تاریکی، اور خدا کی روح پانیوں پر ڈولتی تھی۔ یہ تخلیق کائنات کی رات تھی۔ اور خدا نے کہا روشنی اور روشنی ہوگئی۔ اور خدا نے دیکھا کہ روشنی اچھی ہے۔ اور خدا نے روشنی کو تاریکی سے جدا کیا۔

اور آدم و حوّا کو بنایا۔ اور ایک دوسرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ آدم و حوّا، اسٹیمر کے جنگلے پر جھکے کھڑے ہیں، استعارے کو اور آگے لے جائوں تو یہ بزرگ کپتان حضرت نوح ہیں۔ جو ہم دونوں کو نہ جانے کون سے ارارات کی سمت لئے جارہے ہیں۔ نوجوان زیر لب مسکرایا۔

روشنی اور تاریکی، موت و حیات، دکھ اور سکھ، فراق اور وصال، جنوں اور خرد… سنگم تو گوالندوگھاٹ سے پرے، بہت دور رہ گیا۔ گنگا اور برہم پُتر کی لہروں سے بنا یہ دریا… اس کے پانیوں میں گنگا کون سی ہے اور برہم پتر کون ہے؟

لڑکی کو زور کی چھینک آئی۔ وہ اس کی طرف مڑا وہ سُوں سُوں کررہی تھی۔

’’تمہیں سردی لگ جائے گی۔ چلو اندر چلیں‘‘۔ نوجوان نے متفکر ہو کر کہا۔

’’نہیں۔ میں تو یہیں کھڑی رہوں گی‘‘۔ لڑکی نے ضد سے جواب دیا۔ پھر وہ ایک دم کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔ پھر فوراً سنجیدہ ہوگئی۔ وہ اسے ہنستا دیکھ کر مسرور ہوا۔ اور خود بھی قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔ پھر اس نے آہستہ سے ریلنگ پر رکھے ہوئے لڑکی کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔

لڑکی نے اپنا ہاتھ نہیں ہٹایا۔

ساحلی بتیاں دھندلکے میں ٹمٹما کر گزر چکی تھیں۔ نرائن گنج کی روشیاں قریب آتی گئیں۔ اسٹیمر مصروف بندرگاہ کے اُجالے میں داخل ہوا۔ نرائن گنج سامنے جگمگا رہا تھا۔ نرائن گنج… اس کی گلیوں کی نہروں میں چلتی کشتیاں، جوٹ اسٹیشن، گہما گہمی، باہر اندھیرے میں چھپی کچی سڑکیں، نیم شکستہ مغل پُل، کھیت، طویل اندھیری شاہراہ جس کے سرے پر ڈھاکہ ہمیشہ کی طرح منتظر ملے گا۔ شفیق، محفوظ، مامون شہر۔

دُنیا متزلزل ہوچکی تھی۔ مگر شاید موجود تھی۔ مسرت کا وجود بھی تھا۔ ملنا ممکن تھا۔ آخر دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہوں گے جنہیں چین اور خوشی میسر ہے؟ اور مسرت کے حصول میں خود غرضی گناہ ہے؟

لڑکی نے ہوا سے بچنے کے لئے کھادی سلک کی دوہری چادر مضبوطی سے اپنے شانوں کے گرد لپیٹ لی۔

(24)
چارلس بارلو، بنگال سویلین
نغمات ہند ازالف چیم
پیارے بیٹے جم کے لیے، انیسویں سالگرہ پر
تمہارا ڈیڈ
میمن سنگھ 1888ء
چارلس بارلو نے بیئرکا مگ تپائی پر رکھ کر سنہری مجلد کتاب کا احتیاط سے ورق الٹا، یہ بڑی کتاب تھی جو خود مصنف نے جو ’’الف، چیم‘‘ کے قلمی نام سے ہندوستان کی برطانوی سوسائٹی نیٹو لائف کے متعلق بے حد پر لطف اور طنزیہ نظمیں لکھتا تھا۔ گرینڈ ڈیڈ کو دی تھی۔ یہ اپنے زمانہ کا مقبول الف چیم دراصل حصار کا کیپٹن یلڈھیم تھا۔ گرینڈ ڈیڈ کا جگری دوست، گرینڈ ڈیڈ ان دنوں بنگال میں ڈویژنل کمشنر تھے۔ انہوں نے ڈیڈ کو یہ کتاب ان کی سالگرہ پر دی تھی۔ ڈیڈ آکسفرڈ سے سے چھٹیوں پر اپنے والدین سے ملنے بنگال آئے ہوئے تھے، اور بہت جلد خود بھی اپنے والد کی مانند بنگال سویلین بننے والے تھے۔

ماضی کی وہ افسانوی ہستی… بنگال سویلین۔

چارلس بارلو نے اداس، زیر لب تبسم کے ساتھ پہل نظم پر نظر ڈالی، اس مجموعے میں وہ سارے کردار موجود تھے جو ماضی کے بنگال سویلین کی زندگی کا لازمی جزو رہ چکے تھے۔

پہلی نظم ’’ریورنڈمک فرسن کا خیال تھا کہ ’’انڈین ناچ‘‘ شیطانی گورکھ دھندا ہے۔ ایک روز راجہ نے ساری چھائونی کو ناچ کے لیے مدعو کیا۔ باغ قمقموں سے سجایا گیا۔جس میں صاحبوں کے لیے خیمے لگے۔ بڑھیا شرابیں، پلائو، عطر گلاب، سارا اسٹیشن مدعو تھا۔ ’’تماشا شاندہ بوٹ اچھا‘‘ تھا۔ راجہ جھک جھک کر صاحب لوگ کو سلام کرتا۔ عجیب عجیب زیورناک میں پہنے ناچ گرلز آئیں۔ اور ٹوم ٹوم کی جنگلی تال پر تھرکیں۔ سازندوں کے وحشیانہ ساز چیخے۔ ان کو چوبدار عوددان اور مشعلیں سنبھالے پیچھے کھڑے تھے۔ چیف رقاصہ راما راما کہہ کر ناچنے لگی۔ ریورنڈمک فرس کو یہ معلوم نہ تھا کہ راما ایک دیوتاہے۔ ورنہ انہیں تعجب نہ ہوتا کہ شیطان کی چیلی ایک دیوتا کو پکارتی ہے۔ ان معاملات سے جو ان کے چرچ سے متعلق نہ تھے، ریورنڈمک فرسن لاعلم تھے‘‘۔

آج بھدرا لوگ کی لڑکیاں کلکتہ اور شانتی نکیتن کے اسٹیج پر ناچ رہی ہیں۔ بے چارے الف چیم! تم مجھے اپنے بیرڈ روم، چرٹ، بسمارک اور فرانکو جرمن دار کی باتیں کرنے والے فوجی افسروں، اپ کنٹری، مفصل، بینڈ اسٹینڈ، گزٹ، پائینر، ٹفن اور چھوٹا حاضری کی حکایات سنائے جائو۔ کہ اس گم شدہ دنیا کے تذکرے سے ہی مجھے تقویت حاصل ہوتی ہے۔

دوسری نظم ’’چاندنی رات، جب دور سے نیٹوز کے ٹوم ٹوم کی بھیانک آواز سنائی دیتی ہے، بازار کی مکھیوں ایسی بھنبھناہٹ، چوکرا سگار لائو۔ میں برآمدے میں آرام کرسی پر بیٹھا ہوں باہر سرو کے درختوں کے یچھے سے چاند نکل رہا ہے۔ چوکرا شراب انڈیلتا ہے، اوہ انڈیا! سہانی شاموں کی سرزمین، پتوں پر لرزاں تیری چاندنی، تیری واحد دیوانگی نہیں!‘‘

چارلس بارلو نے پل کی پل کو آنکھیں بند کرلیں۔ پھر بیئر کا مگ اٹھا کر ایک صفحہ اور پلٹا۔

’’میرا چالاک منشی محمد دین، روزانہ مجھے اردو پڑھانے آتا۔ گپی، وہ انگریزی بولتا، نیٹو بات‘‘۔ بہت کم ہوتی۔ سرکنڈے کے قلم خرید کر لاتا اور روز چار آنے چرا لیتا۔ مجھے کتنی نفرت تھی اس درس و تدریس سے، منشی گپیں ہانکتا اور میں چپ چاپ بیٹھا چرٹ پیا کرتا۔ مگر جب میں نے امتحان پاس کیا تو ایسی اردو بولی کے کوئی سالار جنگ بھی کیا بولے گا‘‘۔

ایک اور نظم ’’راجہ کرشما ہائوڈی ڈو۔ ہند کے اس خطے میں جہاں تلیگو بولی جاتی ہے۔ راجہ کرشما ہائوڈی ڈو رہتا تھا۔ جو اس سال افسوس کہ پر لوک سدھارا، راجہ ان نیٹوز میں سے تھا، اگر جن کا رنگ صاف ہوتا تو وہ سیدھے سیدھے انگریز بن جاتے۔ اس کی عادتیں صاف ستھری تھیں۔ نہ بھنگ پیتا تھا، نہ مرچیں کھاتا تھا نہ پان۔ تلیگو لہجے میں انگریزی خاص بول لیتا تھا۔ ’’کالے پانی‘‘ پار ولایت ہو آیا تھا۔ بلیرڈ کھیلتا تھا، اور اپنے ساتھ ولایت سے تصویریں اور (نقلی) بالوں کے بنڈل لایا تھا، جو ان احمق عورتوں نے اسے دیئے تھے جو ایک دولت مند اور نٹیل کو دیکھ کر خواہ مخوا جذباتی ہوجاتی ہیں۔ راجہ پولکا ناچتا تھا۔ چپل کے بجائے بوٹ اور ٹوئیڈ کا سوٹ، اس کا راج بھی مثالی تھا۔ اپنی ریاست کو متمدن کرچکا تھا۔ ہیلتھ کمیشن، ویکسی نیشن، ایڈمنسٹریشن، ریلوے، زنانہ تعلیم، یہ اور وہ، اس کی ریاست اتنی عمدہ ہوگئی تھی کہ ہم نے اس سے کہا تھا کہ ہم کبھی اس کا الحق نہ کریں گے۔ لارڈ وائسرائے نے اس سے کہاکہ وہ ہمارا بہترین فرزند دلبند ہے اور ایک سوستّر توپوں کی سلامی کا اسے حق دار بنایا۔

’’راجہ گو اتنا مغربی ہوچکا تھا۔ مگر دل سے اصلیت میں ایک دم بلیک نیٹو تھا۔ دھوم دھرکے کا رسیا، ہزاروں خوشامدی، حوالی موالی، ناچ گرلز، سازشی مصاحب، بھکاری، پروہت، گھوڑے ہاتھی اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ گوفلیوٹ بجانا سیکھ چکا تھا۔ مگر اپنے ملک کے وحشیانہ ڈھول اور بانسری کو ترجیح دیتا تھا۔ پلم پڈنگ کا مداح تھا، مگر کری اینڈ رائس پر مرتا تھا۔ ان خصائل سے اس کے کردار کی مضبوطی ظاہر ہوتی ہے کہ راجہ کرشنما ہائوڈی ڈو دراصل مرتے دم تک اپنے وطن اور اپنے دستور کا وفادار رہا‘‘۔

اتوار کی صبح تھی، چارلس بارلو نے گھڑی پر نظرڈالی اور آرام کرسی پر دراز اطمینان سے اگلا صفحہ پلٹا۔ کتاب اسے بے حد دلچسپ معلوم ہورہی تھی۔

ایک اور نظم ’’اولڈ ٹائمز لکھتا ہے: فرانس کو معلوم ہونا چاہئے کہ مشرق اولڈ انگلینڈ کی ذمہ داری ہے کہ فرانس کے لیے چندرنگر اور پانڈیچری ہی کافی ہیں۔ ناقابل یقین! کہ فرانس اور زیادہ کی لالچ کرے‘‘۔

پانچ چھ صفحات کے بعد ایک نظم نے چارلس بارلو کو متوجہ کیا۔ ’’صبح کی شہ سواری، جب گائوں کے مرغے بانگ دیتے اور گائیں ڈکراتیں۔ کاہل رواہے سو رہے ہوتے۔ تب میں اور سمتھ مونسون کی ہوا کی طرح جنگل میں سے گھوڑا دوڑاتے نکل جاتے، مندر، ناقوس پھونکتے برہمن، وحشانہ جنگ دجدل کی یادگار قلعوں کے کھنڈر، گاڑی بانوں کے ہجوم، بیلوں کی گھنٹیاں، پنگھٹ، کسی نیٹو رئیس کی گاڑی، لکڑہارے، برابر سے گزر جاتے، گھنٹی بجاتا ڈاک کا ہر کارہ چمڑے کے تھیلے میں داک لیے پاس سے گزرتا تو معلوم ہوجاتا کہ اسٹیشن قریب آرہا ہے، صبح کی بندوق دغتی، منڈی، نیٹو، ہجوم، رنگین پردوں والی بہلی میں سے جھانکتی ناچ گرلز صاحب لوگوں کو دیکھ کر بے باک قہقہے لگاتیں۔ پھر ایک صاحب اور اس کی لیڈی گھوڑوں پر گزرتے، دور سے آبادی نظر آتی۔ ندی، مسجد کے مینار، گنجان نیٹو شہر دھندلکا، حسین مناظر، اور اسمتھ جو اورینٹل معاملات میں جذباتی نہ تھا کہتا… یہ غلیظ نیٹو شہر تم کو حسین نظارہ معلوم ہوتا ہوگا، مجھے تو…‘‘(جاری ہے)

wub ka 166

حصہ