خلافت رسولؐ جو یقیناً ایک بہت بڑی تاج پوشی اور ایک زبردست اعزاز تھا ان لوگوں کے لیے کیا چیز تھی جو اس بات پر ایمان لے آئے تھے کہ ہمارا ایک ہی خدا ہے اور… ہمیں ہر اعزاز کا استحقاق ثابت کرنے کے لیے اسی زبردست خدا کے آگے پیش ہونا ہے۔ اس کا کچھ اندازہ اس تاریخی تقریر سے ہوتا ہے جو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد ایک خاص کرب و درد کے عالم میں امت اسلامیہ کے روبرو کی تھی۔ جب لوگ ان کے سر پر خلافت کا تاج رکھ رہے تھے، تو انہوں نے ان کا شکریہ ادا نہیں کیا بلکہ کیسی پرسوز پکار ان کے منہ سے نکلی تھی:
’’اے لوگو! میری خواہش تو یہ تھی کہ کوئی اور شخص اس بوجھ کو اٹھاتا! بات یہ ہے کہ اگر تم مجھ سے اپنے پیغمبرؐ کی سنت کا اتباع چاہوگے تو یہ اتنا بھاری مطالبہ ہے کہ جس کی برداشت کی سکت مجھ میں نہیں۔ کیوں کہ تم لوگ جانتے ہو کہ مجھ میں اور ان میں کیا فرق ہے۔ وہ شیطان سے محفوظ تھے اور ان پر آسمان سے وحی اترا کرتی تھی‘‘۔
اور… یہ خلافت سے بچنے کی خواہش انہیں کس قدر سنجیدگی کے ساتھ تھی۔ اس کا عملی ثبوت بھی انہوں نے پیش کردیا۔ اسلامی قلمرو کی باگ ڈور… سلطنت کے سیاہ و سفید کی طاقت اور عظیم خزانوں کی کنجیاں جن ہاتھوں میں آپہنچی تھیں، وہی ہاتھ محلے کی غریب بچیوں کے کہنے پر ان کی بکریوں کا دودھ دوہتے ہوئے دیکھے گئے۔ خلافت کا اعزاز ملے ہوئے کچھ دیر نہ ہوئی تھی کہ مفلوک الحال بچیوں نے ان کا دامن پکڑ کر بڑے ناز نخرے کے ساتھ احتجاج کیا:
’’اب آپ ہماری بکریاں نہیں دوہتے! بتایئے‘‘۔
’’باپ!‘‘ اب کون انہیں دوہا کرے گا؟‘‘
خلافت کی معرکہ خیز ذمہ داریوں میں سر سے پائوں تک لدے پھندے ہوئے ابوبکر صدیقؓ نے سادہ لوح بچیوں کی یہ شکایت سنی اور شفقت بھری نظروں اور محبت بھرے ہاتھوں سے ان بچیوں کو چمکارتے اور تھپکی دیتے ہوئے فرمایا:
’’میں دوہا کروں گا تمہاری بکریاں… میں! اسی طرح جس طرح اب تک دوہتا آیا ہوں‘‘۔
اپنی خلافت کے عہد زریں میں…
دوسرے خلیفہ رسول حضرت عمر بن خطابؓ ’’خدا کے گھر‘‘ کا طواف کرکے سوئے مدینہ تشریف لے جارہے تھے تو انہیں ان کا بے حد اچھا خدا بہت زیادہ یاد آرہا تھا۔ خانہ کعبہ کے گرد پروانہ وار چکر کاٹتے ہوئے جب وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ’’میں حاضر ہوں اے میرے اللہ! میں حاضر ہوں‘‘۔ تو یہ پرسوز پکار ان کی روح کو خدا کے حضور پہنچنے کی ایک زبردست تڑپ بخش رہی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ آخرت میں اس دنیا کی تمام ذمہ داریوں کا محاسبہ بھی پوری شدت کے ساتھ دیدہ و دل کے سامنے آگیا تھا۔ اس کیفیت میں وہ چلتے چلتے رکے… دھول سے اٹے ہوئے سنگریزے اکٹھے کئے اور اس بستر خاک پر چادر بچھا کر وہ سیدھے لیٹ گئے جن کے پیروں میں قیصر و کسریٰ کے تاج و تخت لوٹ رہے تھے۔ یوں فرش خاک پر عاجزانہ لیٹ کر انہوں نے آسمان کی طرف نمناک آنکھوں سے دیکھا تو بے ساختہ لیٹے لیٹے دعا کے لیے ایک بھکاری کی طرح ہاتھ پھیلاتے ہوئے پکار اٹھے:
’’خداوندا! دیکھ تو میں اب کتنا بوڑھا ہوگیا ہوں۔ میرے قویٰ ضعیف ہوگئے مولا… اور میری رعایا ہر جگہ پھیل گئی۔ پس… اے مالک! مجھے اس حالت میں اٹھا لے کہ میرے اعمال اکارت نہ جائیں اور حد اعتدال سے آگے نہ بڑھوں‘‘۔
اور سچ یہ ہے کہ وہ بہت ہی بڑا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے۔ نالہ نیم شبی سے ہوش آتا تو فوراً یہ فکر ستاتی کہ کہیں تہجد گزار تھک ہار کر سوتے نہ رہ جائیں۔ وہ اٹھتے اور نمازیوں کو نماز فجر کے لیے جگاتے پھرتے تھے۔ وہ کھانا کھانے کے لئے بیٹھتے تو یہ اندیشہ ہاتھ کا نوالہ ہاتھ میں اور منہ کا نوالہ منہ ہی میں روک دیتا کہ کوئی اللہ کا بندہ اس وقت بھوکا نہ پڑا رہ گیا ہو!… اسی لیے نماز عشا کے بعد یہ بھی ان کا معمول تھا کہ مسجد میں پھر پھر کر نمازیوں کے چہرے دیکھتے اور پھر ذرا سا شبہ ہوتا تو گھبرا کر پوچھتے: ’’تم نے روٹی کھالی کہ نہیں؟‘‘… سونے کے لئے بستر ان کی طرف بازو پھیلاتا تو پائوں رکھتے ہی یہ فکر تڑپا کر اٹھا دیتی کہ لوگوں کی جان و مال پر کوئی آنچ نہ آجائے!، بس پھر نیند کہاں! وہ اٹھتے اور سونے والوں کے گھر کا پہرہ دیتے، فوجیں جنگ پر جاتیں تو دل ہمہ وقت ان میں ہی اٹکا رہتا، نہاوند کا واقعہ پیش آیا تو راتیں کروٹیں بدل بدل کر کاٹیں۔ قادسیہ کی جنگ چھڑی تو رہ رہ کر گھر سے نکلتے شہر سے باہر پہنچ جاتے۔ صبح سے دوپہر تک وہیں چکر کاٹتے اور جو کوئی شتر سوار ادھر سے آرہا ہوتا دوڑ دوڑ کر اس کے پاس جاتے اور جنگ کا حال معلوم کرنا چاہتے۔ ایسے ہی موقع پر ایک بار محاذ جنگ کی خبریں لیے ہوئے ایک سوار خلیفہ رسولؐ کی خدمت میں جلد پہنچنے کے لیے سواری کو تیز دوڑاتا جارہا تھا اور خلیفہ رسولؐ بہ نفس نفیس خاک اور دھول میں لت پت اس سوار کے پیچھے پیچھے دوڑ رہا تھا اور جلدی جلدی جنگ کی خبریں معلوم کررہا تھا۔ اس عالم میں اسے اتنی بھی فرصت نہ ملی کہ پیٹھ پھیرے دوڑتے ہوئے سوار کو یہ بتانے کی ضرورت سمجھتا کہ جس شخص کی طرف تو دوڑا جارہا ہے وہی اس وقت تیرے پیچھے دوڑا آرہا ہے!
اس کے باوجود وہ مطمئن نہ تھے کہ خدا کو اپنی ذمہ داریوں کا حساب آسانی سے دے سکیں گے۔ کبھی کبھی یہ تشویش اتنی بڑھتی کہ دل کی تڑپ زبان پر آجاتی۔ ایک بار نہ جانے کس کیفیت میں تھے کہ بے اختیار منہ سے نکلا۔
’’اگر کوئی دوسرا شخص اس بار کو اٹھانے کی سکت رکھتا تو اور میرے لئے یہ کہیں زیادہ آسان ہوتا کہ آگے بڑھ جائوں اور میری گردن اڑا دی جائے‘‘۔
قاتلانہ گھائو لگ چکا ہے۔ شمع زندگی کی لو تھرتھرا رہی ہے۔ سانس، آخری سانس گنے جارہے ہیں۔ مگر حضرت عمرؓ ہیں کہ اس وقت اپنی زندگی کے خون کے آخری قطروں سے لوگوں کی غم ناک سماعت پر ٹھیک ان ہی دو باتوں کی درد بھری وصیت لکھے دے رہے ہیں، جن کا ذکر و فکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک جان کو دم واپسیں لاحق تھا۔ وہی نماز اور خدا کے کمزور بندوں کے حقوق کی فکر، خون بہتے بہتے، نبضیں چھوٹی جارہی تھیں اور ہوش و حواس رہ رہ کر غشی میں ڈوب جانا چاہتے ہیں مگر نماز کا فکر ان کو مرتے مرتے چونکا دیتا ہے اور خلافت کے زیر سایہ بندوں، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے حقوق کی یاد آتی ہے تو اس وقت بھی جھنجھوڑ ڈالتی ہے ، اور وہ اپنی زندگی کی آخری قوت سمیٹ کر حق اور انسانیت کی حفاظت کا حق ادا کررہے ہیں۔ موت کے خطرے کو ن کی طرف تیزی سے بڑھتا ہوا پاکر جب کسی نے ان سے یہ درخواست کی کہ ’’حضرت! اپنے بعد کسی شخص کا انتخاب کرتے جایئے‘‘۔ تو یہ سن کر ان کو جیسے خوف کے مارے پسینہ آگیا۔ اور بڑی ہی درد بھری قابل ترحم کیفیت سے لوگوں کو تکتے ہوئے انہوں نے ٹوٹے پھوٹے مضمحل الفاظ میں کہا: ’’تو… کیا… یہ بوجھ… میں موت اور … زندگی دونوں… حالتوں میں اٹھائوں۔ ارے میری… تو… صرف یہ آرزو ہے… کہ عذاب و ثواب… برابر برابر ہوجائے… اے کاش!…‘‘
خدا کا ڈر ان لوگوں کو اس طرح گھیرے ہوئے تھا کہ حکمراں کی زبردست طاقت کا ایک ذرہ بھی نفس کی لذت کے حصے میں آنا محال ہوچکا تھا۔ کسی دن کا واقعہ ہے کہ حضرت عمرؓ خلافت کے نازک ترین امور کی گتھیاں سلجھانے میں ہمہ تن منہمک تھے کہ اچانک ایک شخص اندر گھس آیا اور آتے ہی حضرت عمرؓ کی عظیم محویت کو درہم برہم کرتے ہوئے پکار اٹھا:
’’اے امیر المومنین!… اے امیرالمومنین!…
مجھ پر فلاں شخص نے ستم ڈھا دیا۔
دین و ملت کے بڑے اہم معاملوں میں حضرت عمرؓ اس وقت جس طرح مصروف تھے۔ اس میں انہیں یہ ناوقت کی دہائی مداخلت فی الدین سے کم محسوس نہ ہوئی۔ سخت غصہ آیا اور آنے والے کے سر پر ایک کوڑا جمادیا۔
’’جب میں مقدمات ہی فیصلے کرنے کے لیے خاص طور سے بیٹھتا ہوں تو تم لوگ آتے نہیں ہو! انہوں نے بگڑ کر کہا… ’’اور جب مسلمانوں کے دوسرے کاموں میں مصروف ہوتا ہوں تو دادرسی کے لئے آموجود ہوتے ہو‘‘۔
آنے والے کی سٹی گم ہوگئی مگر اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ بڑی خفگی اور دل ریشی کے ساتھ واپس مڑ رہا ہے۔ یہ منظر دیکھتے ہی حضرت عمرؓ کا چہرہ خوف خدا سے فق ہوگیا۔ اس کرب کے دفعیہ کی اب محض ایک شکل باقی تھی کہ مسلمانوں کے امیر کے سر پر یہ عام مسلمان کوڑے کے جواب میں کوڑا مارے، اور یہی شکل حضرت عمرؓ کے لیے کس قدر آسان اور جاں نواز تھی۔ سہمی ہوئی آواز میں انہوں نے جانے والے کو پکارا اور اس کے سامنے وہی کوڑا بے تکلف ڈالتے ہوئے اپنے جسم کو اس سخت سزا کے لیے پیش کردیا۔ اس وقت لفظی معافی بھی ان کے دل کا بوجھ ہلکا نہ کرسکتی تھی۔ ’’تم مجھ سے قصاص لے لو‘‘۔ انہوں نے اپنے اس فیصلے پر ایک خاص انداز سے پورا زور ڈالتے ہوئے اس شخص کی ہمت بندھائی۔
’’جی!؟‘‘ وہ شخص حیرت کی شدت سے ہکلانے لگا… یہ… آپ…کیا فرمارہے ہیں!…اچھا… اچھا… میں نے آپ کو خدا کے لیے اور آپ کے لئے معاف کردیا…‘‘
؎’’جی نہیں!‘‘ حضرت عمرؓ نے ایسی معافی قبول کرنے سے انکار کردیا جس کے کچھ الفاظ سے بو آرہی تھی کہ وہ ان کے عہدے کا لحاظ کررہا ہے‘‘۔ صاف کہو کیا کہتے ہو؟ تم نے مجھے خدا کے لئے معاف کیا یا میرے لئے؟‘‘
ایک بار مسجد سے گھر آرہے تھے کہ ایک صحابیہؓ نے ان کو سلام کے فوراً ہی بعد اس طرح آڑے ہاتھوں لیا۔
’’اے عمرؓ! میں نے تمہارا وہ زمانہ دیکھا ہے جب عکاذ کے بازار میں لوگ تمہیں ’’عمیر عمیر‘‘ کہا کرتے تھے۔ پھر کچھ دنوں کے بعد تم ’’عمر‘‘ ہوگئے اور اب… تمہارا لقب امیرالمومنین ہے… پس محکوموں کے معاملے میں خدا سے ڈرو!…‘‘
بوڑھی صحابیہ کی شفقت و نصیحت کا یہ انداز اس قدر تیز و تند تھا کہ حضرت عمرؓ کے ساتھ چلنے والوں کو کھل گیا مگر خود حضرت عمرؓ کچھ نہ بولے:
’’بی بی!‘‘ ایک شخص سے رہا نہ گیا اور کہہ اٹھا: ’’تم نے تو امیر المومنین کو بہت کچھ کہہ ڈالا…‘‘
’’اس بات کو جانے دو!‘‘ حضرت عمرؓ نے اپنے حمایتی کو فوراً روک دیا اور آہ سرد بھرتے ہوئے بولے ’’کیا تم نہیں جانتے کہ یہ خولہ بنت ثعلبہ ہیں اور عبادہؓ بن صامت کے بھائی اوس بن صامت کی اہلیہ ہیں۔ خدا نے تو سات آسمان کے اوپر سے ان کی بات سن لی تھی اور ان کے ہی مسئلے میں سورۂ مجادلہ اتری تھی، تو پھر عمرؓ کو تو اور بھی زیادہ سننا چاہئے‘‘۔
حضرت عثمانؓ غنی نے تو خلافت کی فوجی طاقت کو اپنے لیے اس وقت بھی استعمال نہیں کیا جب فسادیوں کی گستاخ ٹولی ان کی جسم اطہر پر خنجر آزمائی کے لئے ان کے مکان پر چڑھی آرہی تھی۔
’’فسادیوں کی سرکوبی کے لیے آپ فوجوں کو حکم دے دیجئے نا‘‘۔ زبردست خطرے کے وقت دردمند دل پکار اٹھے۔
’’نہیں‘‘۔ حضرت عثمانؓ نے خدا کے خوف سے لرزتے ہوئے کہا ’’اس طرح تو امت کا خون ہوجائے گا… یہ مجھ سے کبھی نہیں ہوگا‘‘۔
اور آخر خلافت کی طاقت و شکوہ کا تاج پہنے ہوئے انہوں نے خون شہادت سے خود کو تر کرلیا۔ خلافت ملنے سے پہلے ان کی زندگی سے ان کی زبردست دولت و ثروت لاکھ جھلکتی ہی ہو، مگر تخت خلافت کو چھوتے ہی وہ محض مشت خاک ہوکر رہ گئے تھے اور ان کے اندر کا فقر باہر کی طرف ابل پڑا تھا۔ اب وہ صحن مسجد میں اس طرح زمین پر کروٹیں لیتے ہوئے دیکھے جاتے تھے کہ سر کے نیچے چادر تہہ کی ہوئی رکھی ہے اور نازو نعم میں پلے ہوئے نازک جسم کی کھال پر سنگ ریزوں اور کنکروں نے جی بھر کے نقش و نگار بنادیئے ہیں۔ اپنی جان کے لیے جس کی یہ کیفیت تھی، وہ دوسروں کے حقوق کی حفاظت میں سراپا تشویش و احتیاط تھا۔ دیکھا گیا کہ مسجد میں نماز کے لئے صفیں درست ہورہی ہیں۔ مؤذن نے اقامت شروع کردی ہے مگر حضرت عثمانؓ خدا کے سامنے اس وقت دست بستہ پیش ہونے سے پہلے بے تاب ہیں کہ بازاروں کے صحیح نرخ کے سلسلہ میں اپنی بات جلدی جلدی پوری کرلیں۔
اپنے دور خلافت میں حضرت علیؓ بازار کی نگرانی اور معائنے پر پھر رہے تھے کہ ایک خورمہ فروش کی دکان پر ایک لونڈی روتی ہوئی دکھائی دی، جلدی سے اس کی طرف دوڑے۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ اس کے پاس جاکر اس کا حال پوچھا۔
’’اس دکاندار نے‘‘ کنیز نے انہیں دیکھ کر سسکتے ہوئے کہا: ایک درہم میں میرے ہاتھ کھجور فروخت کی، لیکن میرے آقا نے اس کو واپس کردیا تو یہ واپس لینے کے لئے تیار نہیں…‘‘۔
’’کیوں بھئی؟‘‘ نرم خفگی کے ساتھ دکان دار کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے حضرت علیؓ نے کہا ’’واپس لونا… اور اس کے دام لوٹا دو‘‘۔
’’کیسی واپسی!!‘‘ دکاندار اس سفارش پر بکھر گیا اور تائو میں آکر حضرت علیؓ کو دھکا دے دیا۔
’’ہائیں! ہائیں!! دیکھنے والے چلائے‘‘۔ پہچانتے نہیں ہو یہ امیر المومنین ہیں!‘‘۔
یہ سننا تھا کہ دکاندار کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ ہڑبڑا کر دام لوٹا اور اس گستاخی پر خوف سزا سے لرز اٹھا۔
’’مجھے معاف کردیجئے… اور… مجھ سے راضی ہوجایئے‘‘۔ بہت ڈرتے ڈرتے اس نے عرض کیا۔
’’اگر تم لوگوں کو حق پورا پورا دوگے‘‘۔ حضرت علیؓ نے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ فرمایا: ’’تو پھر مجھ سے زیادہ اور کون تم سے راضی ہوگا؟‘‘ یہ فرمایا اور پھر چپکے سے آگے بڑھ گئے۔
خدا کی بندگی پر کج کلاہی کی مغرور روایتوں کو بھینٹ چڑھانے کا یہ رقت انگیز اسوہ ان چاروں خلفائے راشدین ہی پر ختم نہیں ہوا بلکہ اس کی ایمان افروز جھلکیاں رہ رہ کر انسانی تاریخ کی آنکھ کو خیرہ کرتی رہی ہیں۔ حضرت امیر معاویہؓ جو ظاہری شان و شوکت اور ایک خاص سیاسی عظمت کی بنا پر دربار فاروقی سے کسرائے عرب کا عظیم خطاب پاچکے تھے۔ ان کی خلعت فاخرہ کے اندر بھی کیسا قلب سادہ دھڑک رہا تھا!۔ ایک بار انہوں نے چند سو درہم کسی انصاری کو بھجوائے۔ ان کو یہ رقم اس خاص موقع کے لحاظ سے بہت حقیر محسوس ہوئی۔ خفا ہوگئے اور اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ ’’جائو اور یہ ان کا تحفہ ان کے ہی منہ پر مار آئو!‘‘ اطاعت شعار بیٹا روانہ ہونے لگا تو غیظ آلود کیفیت میں باپ نے بیٹے کو پکارا:
’’قسم کھائو کہ یہ رقم تم سچ مچ ان کے منہ پر مار کر بھی آئوگے‘‘۔
بیٹا قسم کھانے پر مجبور ہوگیا اور ایک سخت ذہنی کش مکش کے عالم میں دربار معاویہؓ میں کشاں کشاں حاضر ہوا۔ اس کی عقل حیران و سرگردان تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے!، آخر یہی شکل ممکن نظر آئی کہ یہ سارا ماجرا صاف صاف حضرت معاویہؓ کے آگے بیان کر ڈالے۔
’’میرے باپ سخت بدمزاج ہیں‘‘۔ لڑکے نے جاکر کسرائے عرب سے ڈرتے ڈرتے کہا اور انہوں نے مجھے قسم دے کر اور قسم ے کر بھیجا ہے کہ آنجناب کا یہ تحفہ منہ پر مار کر آئوں… خدا کے لیے بتایئے میں باپ کے حکم اور آپ کے احترام کے تقاضے کو کس طرح پورا کروں‘‘۔
یہ باتیں سننے کے بعد حضرت معاویہؓ بگڑنے کے بجائے زیر لب مسکرائے۔
’’اس میں پریشانی کی تو کوئی خاص بات نظر نہیں آتی!‘‘ انہوں نے سر جھکائے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ’’ایسا کیا جائے کہ میں اپنے منہ پر ہاتھ رکھے لیتا ہوں اور تم اطمینان سے اپنی قسم پوری کروا لو!… مگر دیکھنا بہت زور سے نہ مار بیٹھنا! تم دیکھ رہے ہو کہ میں کافی بوڑھا آدمی ہوں‘‘۔
پھر اس کے بعد… اس واقعہ کے بعد جب وہ لڑکا واپس جانے لگا تو حضرت معاویہؓ نے دوگنی رقم بھی ان انصاری کی خدمت میں روانہ کردی۔
خدا ہی جانے یہ لوگ، یہ کشتگان بدن کی کون سی مٹی کے بنے ہوئے تھے کہ جو سونے چاندی کے جگمگاتے ہوئے خزانوں میں بیٹھ کر دنیاکو اس حقیقت کا درد بھرا سبق دے سکتے تھے کہ آدمی سچ مچ مٹی سے بنا ہے اور جلد یا بدیر مٹی ہی میں رل مل جانے والا ہے۔ کتنی بڑی چیز تھا وہ عجز جو نخوت و تکبر کی مخصوص مسندوں پر جلوہ افروز ہوکر یہ حسین راز سمجھا رہا تھا کہ خدائے ذوالجلال کے قدموں میں جس آدمی کی روح کو جگہ مل گئی ہو، اسے تخت شاہی پر بھی پھر قرار نہیں آتا!… یہ تھی وہ مخلوق جو ایمان و یقین کی سب سے بڑی وجد انگیز کیفیت میں جب باقی کو فانی پر ترجیح دیتی تھی تو اس کے دل کو حقیقی قرار آتا تھا۔ یہ تھے وہ لوگ جن کا عظیم نام ’’مسلمان‘‘ تھا لیکن آج ’’مسلمان‘‘ کہتے کسے ہیں؟، آہ! میرے مولا! یہ ایک سوال نہیں روح کا ناسور ہے، جو ذراسی چھیڑ سے رسنے لگتا ہے، ہائے ہم! جو آج مسلمان کہلاتے ہیں اور موت سے صرف اس لیےڈرتے ہیں کہ ہم نے اب تک دنیا کو آباد اور آخرت کو برباد کیا ہے اسی لیے آخرت کی طرح بڑھنے کا تصور ہمیں بستی سے ویرانے کی طرف بڑھتا محسوس ہوتا ہے۔ اے کاش! یہ سوال ہمیں جان کنی سے بھی بڑی بے چینی عطا کرے کہ ’’کیا ہم مسلمان ہیں؟‘‘ اور پھر یہی بے چینی ہمیں وہاں تک پہنچادے جہاں میرے خدا کا کہا ہے کہ نہ کوئی غم ہے اور نہ کوئی