میرا غرور

187

سواری کے انتظار میں گاڑی میں بیٹھے نہ جانے کتنے گھنٹے گزرچکے تھے۔ شام ہوچکی تھی۔ بس چند لمحوں میں اندھیرا چھا جائے گا، اسی خیال نے اس کے اندر بے چینی پیدا کردی تھی۔گڈو اور گڑیا اکیلے ڈر رہے ہوں گے۔ میں نے کتنا چاہا تھا کہ سب کے ساتھ مل کر رہوں لیکن بھائی کے الفاظ آج بھی ذہن میں گونجتے ہیں:

’’اگر تم نے ڈرائیونگ کی تو اپنا کوئی اور ٹھکانہ کرلو۔‘‘
میں کیا کرتی، امجد کے انتقال کے بعد اپنے بچوں کو دوسروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی تھی، اس لیے امجد کی جگہ خود ٹیکسی چلانا سیکھی تاکہ میرے بچے خودترسی کی زندگی نہ گزاریں، ان کی خواہشیں ایسے ہی پوری ہوں جیسے امجد کی حیات میں ہوتی تھی، اتنی سی خواہش تھی بس… لیکن بھائی نے اسے اپنی اَنا کا مسئلہ بنا لیا کہ ’’عورتیں ڈرائیونگ کرتی اچھی لگتی ہیں؟‘‘

’’بھائی! مجھے جوکام آئے گا وہی کروں گی۔ تعلیم میری ناکافی ہے۔‘‘
بھائی کو منانے کی کتنی کوشش کی، امی بھی بھائی کے آگے بے بس۔ انہوں نے اپنی بیوہ بیٹی اور نواسوں کو دربدر کردیا۔ آخر ساری جمع پونجی اور زیورات اور امی کی کمیٹی سے دو کمروں کا فلیٹ لے لیا۔ اُف کتنا کٹھن ہوتا ہے اپنوں سے جدا ہونے کا دکھ۔

’’ایکسکیوز می مس…!‘‘ میک اَپ سے اَٹے چہرے والی ایک عورت جمیلہ کو خیالات کی دنیا سے باہر لے آئی۔ جمیلہ نے مسکراتے ہوئے اسے اس خوش فہمی میں دیکھا کہ شاید کوئی سواری آگئی ہے۔
’’جی فرمائیے، کہاں جائیں گی؟‘‘
’’نہیں، مجھے کہیں نہیں جانا۔‘‘
’’کیا مطلب؟ پھر آپ کو مجھ سے کیا کام ہے؟‘‘
’’وہ… شاید آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔‘‘
جمیلہ نے ذہن پر زور ڈالا لیکن وہ اسے پہچان نہیں پائی۔
’’نہیں میں نہیں پہچانا…‘‘
’’دراصل میں مارننگ شو میں میزبان ہوں۔‘‘
’’اچھا، میں دیکھتی نہیں ہوں۔‘‘

’’مجھے آپ کا ڈرائیونگ کرنا اچھا لگا۔ خواتیں کا اس طرف آنا بہت مشکل ہے۔ آپ نے یہ فیصلہ مشکل حالات میں ہی کیا ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے شو میں دوسری مجبور خواتیں کے لیے حوصلہ بن کر آئیں… یہ لیں ہمارا کارڈ، اس میں ایڈریس اور فون نمبر لکھا ہے۔ آپ کل صبح اس پتے پر آجائیں۔ آپ کا انٹرویو دوسروں کے لیے تقویت کا باعث بنے گا۔‘‘ اس خاتون میزبان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’وہ تو ٹھیک ہے، لیکن میں ٹیکسی چلاتی ہوں، میرے روزگار کا وقت ہے۔‘‘
’’ارے آپ اس کی فکر نہ کریں، اس شو کے آپ کو 50 ہزار ملیں گے۔‘‘
’’اچھا… تو ٹھیک ہے میں آجاؤں گی۔‘‘
جمیلہ دوسرے دن دیے گئے پتے پر پہنچی۔ نہایت خوب صورت اسٹوڈیو، چمکتے دمکتے چہرے، سب اپنے آپ میں مگن، شو کی تیاریاں کررہے تھے۔ پروگرام کی میزبان نے فوراً پہچان لیا۔

’’جی آپ ہی کا انتظار تھا…آئیے بیٹھیے۔‘‘میزبان نے آگے بڑھ کر جمیلہ کا خیرمقدم کیا۔
’’یہ لیں… اس کو پڑھیں اور یاد کرلیں، آپ کو یہی بولنا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ جمیلہ نے ناسمجھی سے کہا۔

’’مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے پروگرام کو اپنے طریقے سے لے کر چلتے ہیں۔ کچھ رولز فالو کرنے پڑتے ہیں۔‘‘

جمیلہ نے پڑھا، اس میں لکھا تھا کہ ’’میں جمیلہ ہوں، میرے گھر والوں نے مجھ پر بہت ظلم کیا۔ مجھ سے میری آزادی چھین لی، میں شوہر کے بعد اپنے پاؤں پر کھڑی ہونا چاہتی تھی لیکن میرے بھائی اور ماں نے مجھ پر پابندیاں لگا کر مجھے گھر بٹھا دیا۔ میں اپنے بچوں کا سہارا بننا چاہتی تھی، اس لیے میں نے اپنے بھائی کے خلاف جا کر ٹیکسی چلائی اور مجھے فخر ہے کہ میں باعزت روزی کما رہی ہوں، میں ان مجبور عورتوں سے کہوں گی کہ وہ کبھی ان رشتوں کو آڑے نہ آنے دیں جو آپ سے جینے کا حق چھین لیں۔‘‘

جمیلہ یہ سب پڑھ کر آگ بگولہ ہوگئی ’’یہ سب غلط ہے۔ مجھے اپنے بھائی اور ماں سے کوئی شکایت نہیں، انہوں نے میری محبت و احساس میں مجھے اس کام سے روکا، میں رک بھی جاتی اگر میرے ساتھ میرے بچے نہ ہوتے۔ میں نے یہ قدم صرف اپنے بچوں کے لیے اٹھایا تھا کیوں کہ میں دیکھ رہی تھی کہ بھائی اپنی فیملی کے ساتھ میرے بچوں کا خرچا نہیں اٹھا پارہے تھے، اُن کا احساس کرتے ہوئے میں نے یہ فیصلہ کیا، مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں۔ آپ کے پروگرام کے ڈائیلاگ غلط ہیں، میں اپنے معاشرے کی عورتوں کو گھر کے تحفظ سے باہر نکلنے کے لیے نہیں اکسا سکتی۔‘‘جمیلہ نے پیپر میزبان کے آگے رکھتے ہوئے کہا۔

’’میں تو اس لیے آئی تھی کہ مجبور عورتوں کو حوصلہ دوں گی، لیکن یہ ڈائیلاگ تو بغاوت کے حامی لگتے ہیں۔ میرے بھائی اور والدہ نے ہر موقع پر میرا ساتھ دیا۔ صرف ایک وجہ سے میں احسان فراموش نہیں بن سکتی، کیوں کہ مجھے امید ہے زندگی کے کسی موڑ پر میرا بھائی مجھ سے ضرور ملے گا۔ یہ خون کے رشتے ہوتے ہیں، ان سے انسان باغی نہیں ہوسکتا۔‘‘جمیلہ نے اپنے بہتے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’بھئی مس جمیلہ! اس طرح ہماری ریٹنگ آتی ہے، ہمیں تھوڑا جھوٹ شامل کرنا پڑتا ہے۔ ہم بھی تو آپ کو پیسے دے رہے ہیں۔‘‘ میزبان نے لالچ دیتے ہوئے اکسایا۔

’’سوری…! میں کل کو اپنے بھائی اور بچوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتی۔ اپنی رقم آپ اپنے پاس رکھیں۔‘‘ یہ کہہ کر جمیلہ باہر نکل گئی۔

حصہ