کسی جنگل میں ایک لومڑی غذا کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی تھی اچانک وہ ایک درخت کے قریب پہنچی جس کے ساتھ ایک ڈھول بندھا ہوا لٹک رہا تھا۔ جب جب ہوا چلتی تھی درخت کی ایک لمبی سی شاخ ہل کر اس ڈھول پر پڑتی تھی اور اس سے ایک زور دار آواز نکلتی تھی۔ اتفاق سے اسی درخت کے نیچے ایک پالتو مرغا زمین میں کرید کرید کردانہ چگ رہا تھا۔ لومڑی نے چھپ کر اس پر جھپٹا مارنا چاہا لیکن اسی وقت ہوا چلی اور شاخ ہل کر ڈھول سے ٹکرائی اور ایک زور دار آواز لومڑی کے کانوں میں پہنچی۔ اس نے نظر اٹھائی تو اسے ایک موٹی تازی بھاری بھرکم چیز دکھائی دی جس سے یہ آواز آرہی تھی ڈھول کو دیکھتے ہی اس کے منہ میں پانی ابھر آیا اور اس نے دل میں سوچا:
’’اس چھوٹے سے مرغے سے کیا ہو گا۔ ہر وہ چیز جو بھاری بھرکم ہوتی ہے، آواز دیتی ہے اور زیادہ دنوں تک چلتی ہے۔‘‘
اس خیال کے آتے ہی وہ ڈھول کی طرف بڑھی۔ آہٹ پا کر مرغا چونکا اور تیزی سے وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ لومڑی بڑی مشکل سے درخت پر چڑھی اور جلدی جلدی ڈھول پر منہ مارا اور ہاتھ پائوں چلانے لگی۔ مگر سوائے چمڑے اور لکڑی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔نا چار درخت سے نیچے آئی۔ مرغے کو تلاش کیا مگر وہ جا چکا تھا۔ افسوس اور ندامت سے اس کی آنکھوں سے آنسورواں ہوگئے۔ دل ہی دل میں بے حد پچھتائی اور کہنے لگی:
’’اس موٹے تازے مگر کھو کھلے ڈھول کے لالچ میں جس میں سوائے ہوا کے اور کچھ نہ تھا، میرا اچھا خاص شکار ہاتھ سے جاتا رہا۔ واقعی کسی نے سچ کہا ہے۔ آدھی چھوڑ ساری کو دوڑے، آدھی رہے نہ ساری پائے۔‘‘