یہ پریس کلب کا ہال تھا جو خاتون صحافیوں سے جگمگا رہا تھا۔ کوئی بھی یہاں ڈسکشن فورم کے لیے مدعو نہ تھا، نہ ہی کسی مسئلے کو قلم اور کیمرے کی آنکھ میں بند کرنے میں سرگرداں تھا، بلکہ تمام تر صحافیانہ ذمہ داریوں سے آزادی کے کچھ لمحے کشید کرنے کے لیے خواتین صحافی یہاں موجود تھیں۔ خواتین صحافیوں کا گل دستہ مسکراہٹوں کے تبادلے سے مہک رہا تھا، ہر چہرے پہ مسرت عیاں تھی۔کوئی بغل گیر تھی تو کوئی محوِ گفتگو۔ صحافیوں کے لیے خوشیوں بھرے ان لمحات کو کشید کرنے کا سہرا جماعت اسلامی حلقہ خواتین کے شعبۂ نشر و اشاعت کو جاتا تھا جنہوں نے روایت برقرار رکھتے ہوئے رواں برس بھی عید ملن کی شکل میں مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا۔
مختلف اداروں کی سینئر و جونیئر خاتون صحافیوں نے اس دعوت پہ لبیک کہا اور بخوشی شرکت کی۔ ہال الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا سے وابستہ خاتون صحافیوں سے مزین تھا۔ میزبان خواتین خوب صورت، چمکیلے اور رنگارنگ کپڑوں میں ملبوس مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑی تھیں۔ خوشی کے اس موقع پر اہلِ غزہ کو یاد نہ رکھا جائے، یہ کیسے ممکن تھا! اس لیے مہمان خواتین کو فلسطینی پرچم پہ بنے رومال اوڑھائے جارہے تھے۔ تلاوتِ قرآن پاک کے بعد پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا گیا اور تذکیری گفتگو کے لیے محترمہ ثمینہ قمر کو دعوت دی گئی۔
’’عید تو نام ہی عید ملن کا ہے‘‘۔ انہوں نے اس خوب صورت نکتے سے گفتگو کی ابتدا کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کے اس دور میں جب زندگی گزارنا قدرے مشکل ہے، ایسے میں بہ حیثیت مسلمان عیدین کے بعد زندگی بسر کرنے کا ہمیں سبق ملتا ہے۔ قرآن ہمیں زندگی کے اصل مقاصد اور کامیابیوں کو بیان کرچکا ہے اور درست سمت کی نشاندہی بھی کرچکا ہے۔ ضرورت صرف مستقل مزاجی اور کاوشوں کی ہے۔
تذکیری گفتگو کے بعد اسریٰ غوری صاحبہ نے جزوقتی نظامت سنبھالی اور اپنے شرارتی اور مزیدار سوالات سے سماں باندھ دیا۔ ہر جانب سے ہنسی کے فوارے چھوٹ رہے تھے۔ سیر پہ سوا سیر، شرارتی سوالات کے چلبلے جوابات موصول ہوئے تو گویا ہر عورت کے اندر چھوٹی سی بیٹھی بچی اچھل کر باہر آنے کو مچلنے لگی۔ جوانی کی تلخ و شیریں یادیں انگڑائی لینے کو بے تاب ہونے لگیں، پھر نہ کوئی سینئر رہا، نہ جونیئر۔
چند لمحوں کے لیے ایسا لگا جیسے کوئی استانی طالبات سے ہنسی مذاق کررہی ہو اور بچیاں بے چینی سے اپنے تجربات بیان کرنے کی منتظر ہوں۔ کوئی بچپن میں کھیلے گئے کھیل بتارہا تھا، کسی کو سسرال میں گزاری پہلی عید کی روداد سنانے میں دل چسپی تھی، تو کوئی اپنی ساس کی نصیحتیں یاد کرتے اپنی نادانیوں پر مسکرا رہا تھا۔ غرض ہر کسی کی خوشی دیدنی تھی۔ اس مسحور کن ماحول میں سب ہی مزید ساعتیں گزارنے کے مشتاق تھے، مگر وقت کی کمی آڑے آنے لگی تو گفتگو کا سلسلہ سنجیدہ موضوع اور سلگتے فلسطین کی جانب موڑ لیا گیا۔ اسریٰ غوری صاحبہ نے اہلِ غزہ کی ہمت اور حوصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ موت تو ہر صورت میں آنی ہے مگر اہلِ غزہ نے اس زندگی کی وقعت بیان کردی اور بتادیا کہ اصل زندگی تو اللہ کے یہاں ہی ملے گی۔
عید کے رنگوں میں یک جہتیِ فلسطین کے رنگ بھی نمایاں نظر آئے، اور گاہے بگاہے فلسطینی ترانے بھی لگائے جاتے رہے۔ عید ملن اور خواتین کی دل چسپی کی مناسبت سے رنگارنگ تحائف کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ مہمان خواتین کو فلسطین کے جھنڈے کے رنگوں سے مزین چوڑیاں اور دیگر تحائف پیش کیے گئے۔
اختتام سے قبل مہمانِ خصوصی ناظمہ جماعت اسلامی حلقہ خواتین کراچی محترمہ جاوداں فہیم کو گفتگو کی دعوت دی گئی۔ صحافیوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صحافت کا شعبہ بہت معزز اور ذمہ داری کا حامل ہے، یہ پیشہ سچ کا متقاضی ہے۔ چاہے زمانے کا چلن جو بھی ہو قلم کا سچ ہی اٹھنا اور پھیلنا چاہیے۔
آخر میں دعا کے بعد ظہرانے کا اہتمام کیا گیا اور یادگاری تصویر کے ساتھ الوداعی لمحات کی گھڑی آن پہنچی۔