جمال نے بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے سوال کیا کہ آپ ہمیں ایک جگہ بٹھا کر کس مجرم سے ملاقات کرنے گئے تھے اور جو سوالات آپ نے اس ے کئے کیا ہمارے علم میں بھی لا سکتے ہیں۔
وہ مجرم یا اقراری قاتل کون ہے، فی الحال میں اس کے متعلق کچھ بھی بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ اس کا تعلق بہت پڑھے لکھے اور معزز گھرانے سے ہے لیکن جو سوالات کئے ہیں ان ان کا دائرہ زیادہ تر اسی بات کے گرد گھومتا رہا کہ آخر کوئی تو وجہ بتاؤ جس کی وجہ سے تم نے خنجر اٹھایا اور اس کے ٹھیک دل کے مقام پر پوری گہرائی کے ساتھ اتار دیا نیز یہ کہ یہ قتل ٹھیک کس جگہ ہوا، بند کمرے میں ہوا یا کھیتوں میں ہوا، جس وقت مارا گیا وہ تقریباً کتنے بجے کا وقت تھا یا مقتول نے کیسے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے وغیرہ۔ قتل کر دینے کی وجہ غیرت بتائی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ غیرت کی وہ وجہ کیا ہے، اپنی زندگی میں وہ کسی کو بھی کسی حال میں نہیں بتائے گا خواہ کوئی اسے شدید ترین اذیتیں دے یا قتل ہی کردے، ویسے بھی اقرار قتل کے بعد اس کو انجامَ کار پھانسی ہی ہونی ہے۔ وہ موت سے ڈرنے والا نہیں اور اگر ایسا ہوتا تو وہ ہر چھوٹے بڑے آفیسر کے سامنے قتل کا اعتراف ہی کیوں کرتا۔ باقی قتل کس مقام پر ہوا، خنجر اس کے پاس کہا ںسے آیا، مقتول کے کپڑے کس رنگ کے تھے وغیرہ وغیرہ، اس نے سب کچھ درست ہی بتایا۔
آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ قتل کے وقت مقتول نے جس رنگ کا لباس زیبِ تن کیا ہوا تھا، یا اس کو خنجر ہی سے قتل کیا گیا تھا یا یہ کہ خنجر ٹھیک دل کے مقام پر ہی گہرائی تک ترازو کیا تھا۔
قتل کی واردات کے فوراً بعد ہی مجھے موقعہ وادات پر بھیجا گیا تھا۔ میں نے ہی لاش کا معائنہ کرنے کے بعد اسے پوسٹ مارٹم کرنے کےلیے روانہ کروایا تھا، اس لئے مجھے مقتول کا سارا حلیہ یاد رہ گیا تھا۔ ویسے بھی لاش اب بھی ہسپتال کے سرد مردہ خانے میں موجود ہے اور جب چاہے اس کا معائنہ کیا جا سکتا ہے۔
جب آپ نے لاش کا معائنہ کیا تو کیا وہ اسی جگہ پر موجود تھی جہاں اس کو مارا گیا تھا، خنجر اس وقت بھی اس کے دل میں ہی پیوست تھا یا بعد میں آپ کو پیش کیا گیا اور یہ بھی کہ کیا اس پر اسی اقراری مجرم کی انگلیوں کے نشانات موجود ہیں؟۔
ارے تم دونوں تو کسی ماہر جاسوس کی طرح سوالات کئے جا رہے ہو۔ اس طرح تو بہت سارے پہلوؤں پر میں نے بھی اب تک غور نہیں کیا ہے۔ تم دونوں تو میرے دماغ کے پردے پر پردے کھولے جا رہے ہو۔
تم لوگ بالکل ٹھیک انداز میں سوچ رہے ہو کاش میں نے بھی ان سارے پہلوؤں کا جائزہ بر وقت لیا ہوتا تو معاملے کی تہہ تک پہنچنا شاید بہت ہی سہل ہو جاتا۔ اب میں تمہارے کئے گئے سارے سولات کا علی الترتیب جواب دینے کی کوشش کروںگا۔
نہیں لاش واردات کے قریب بنی ایک چھوٹی سے کوٹھڑی میں رکھ دی گئی تھی۔ وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ ایک تو باہر سخت دھوپ تھی دوسرے یہ کہ جہاں قتل ہوا تھا وہاں بیشمار اقسام کی جنگلی حیات پائی جاتی ہے جن میں کچھ خونخوار درندوں کے علاوہ سانپ اور بچھو جیسے موزی بھی بہت پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے زمیندار نے لاش کو کوٹھڑی میں منتقل کیا جانا زیادہ مناسب سمجھا البتہ مجھے وہ جگہ جہاں قتل ہوا تھا، دکھائی گئی، یہ جگہ کوٹھڑی سے قریب ہی تھی جس کو میری ہدایت کے بعد چاروں جانب سے اینٹیں لگا کر اور اس پر ٹین کی چادریں رکھ کر محفوظ کر لیا گیا تھا۔ یہ جگہ ریتیلی تھی اور آس پاس گھنی جھاڑیاں بھی موجود تھیں۔ خنجر اس کے دل میں گہرائی سے اترا ہوا تھا اور اس وقت بھی موجود تھا اور ماہر عملے کی نگرانی میں اسے نکال کر انگلیوں کے نشانات کیلئے بھجوا دیا گیا تھا۔ مقتول کے بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے نشانات اس پر بہت واضح طریقے سے بنے ہوئے ملے ہیں۔
انسپکٹر حیدر علی سنبھل سنبھل کر ایک ایک سوال کا جواب کافی تفصیل سے دیتے رہے۔ واقعے کی تفصیل بتانے کے دوران ہی جمال اور کمال نے محسوس کیا کہ جیسے اب وہ ذہنی دباؤ سے کافی حد تک باہر آ گئے ہوں۔ ویسے بھی کوئی انسان جب کسی کو اپنی پریشانی شیئر کرتا ہے تو آہستہ آہستہ ذہنی تناؤ سے باہر آتا چلا جاتا ہے۔
اگر آپ کو گراں نہ گزرے تو ایک دو سوالات آپ سے اور بھی کرنے ہیں۔
کرو کرو، مجھے تو افسوس ہو رہا ہے کہ کاش میں تم دونوں یا تم دونوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ ہی لے جاتا تو شاید بہت ہی مناسب ہوتا۔ آج اس واقعے کو چار دن ہو چکے ہیں لیکن اب تک کوئی بھی بات درست سمت آگے بڑھتی ہوئی نظر نہیں آ رہی تھی لیکن ان ایسا لگتا ہے کہ تمہارے بتائے ہوئے نکات کو اگر ملحوظ رکھا جائے تو کافی مفید معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔انسپکٹر حیدر علی نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
سوال یہ ہے کہ جو جگہ آپ کو یہ کہہ کر دکھائی گئی تھی کہ قتل ٹھیک اس مقام پر ہوا ہے تو آپ کس نتیجے پر پہنچے کہ کیا یہ وہی جگہ ہو سکتی ہے۔
کیا مطلب؟، بالکل۔ یہ بات اس لیے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وہاں ایک تو ریت پر کافی کشمکش کے نشانات پائے گئے تھے اور دوئم وہاں کافی مقدار میں خون بھی موجود تھا۔
یہ بات سن کر جمال اور کمال نے اپنی چھٹی حس کے ذریعے ایک دوسرے کو دیکھا۔ جمال اور کمال میں یہ صفت کمال درجے کی تھی کہ وہ بنا ایک دوسرے کو دیکھے بھی ایک دوسرے کو جیسے دیکھ لیا کرتے تھے۔ اس صفت کی وجہ سے کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ کسی خاص نقطے پر ایک دوسرے سے یہ کہہ رہے ہوں جیسے یہ بات عجیب ہے اور اس کو ذہن میں نقش کر لیا جائے۔
دوسرا سوال نہیں ہے بلکہ درخواست ہے کہ کیا زمیندار کے ڈیرے میں ہمیں کچھ دنوں کے لیے قیام کی اجازت اس طرح مل سکتی ہے جیسے ہم اس کے کھیتوں اور باغات کی سیر کرنا چاہتے ہوں اور اسکول کی جانب سے ملے ہوئے کسی اسائنمنٹ کی تکمیل مقصود ہو۔ در اصل ہم خود بھی جائے حادثہ کے ساتھ ساتھ ان کے ملازمین پر ایک نظر ڈالنا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ہماری یہ تفریح کیس کیلئے کوئی نئی راہیں کھولنے میں مدد گار ثابت ہو۔(جاری ہے)