جنک فوڈ، بچوں کی صحت کے لیے ایک سنجیدہ اور بڑا خطرہ ہے۔ بچوں کو جنک فوڈ کی طرف راغب کرنے والے اشتہارات، اس کے ذائقے، اور آسان دستیابی جیسے عوامل ہیں جو والدین کو اسے بچوں کو کھلانے پر مجبور کرتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق جنک فوڈ بچوں کی صحت پر منفی اثرات ڈالتی ہے، جن میں مٹاپا، دل کی بیماریاں اور ذیابیطس شامل ہیں۔
اہم اور خطرناک بات یہ ہے کہ محققین کی ایک رپورٹ کے مطابق جنک فوڈز نکوٹین اور ہیروئن کی مانند نشہ آور خصوصیات رکھتی ہیں اور ان سے عادت چھڑانا مشکل کام ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں فوڈ سیفٹی کا نظام بہت کمزور ہے۔ رشوت ستانی عام ہے اور فوڈ سیفٹی اتھارٹیز اکثر غیر صحت مند اشیاء رشوت کے عوض مارکیٹ میں فروخت ہونے دیتی ہیں۔ دنیا بھر میں فوڈ سیفٹی کے حوالے سے سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ ہر فوڈ پروڈکٹ کو مختلف مراحل میں جانچنے کے بعد ہی مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔ اگر کسی پروڈکٹ میں مضر صحت مواد پایا جاتا ہے تو اسے فوری طور پر واپس مارکٹ سے اٹھا لیا جاتا ہے اور کمپنی کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ مضر صحت چیزیں جن پر پابندی حال میں لگائی گئی ہے، برسوں سے فروخت ہورہی ہیں۔ جب رجسٹریشن کے لیے کوئی کمپنی فوڈ اتھارٹی سے رابطہ کرتی ہے تو وہ دعویٰ کرتی ہے کہ ٹیسٹ کرانے پر معلوم ہوا کہ یہ پروڈکٹ صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ مارکیٹ میں موجود باقی ہزاروں مضر صحت پروڈکٹس پر سندھ کی فوڈ اتھارٹی کیا کررہی ہے؟ سندھ فوڈ اتھارٹی کی کولسن کے خلاف حالیہ کارروائی ایک مثال ہے، اس کے پیچھے وجوہات کچھ اور بھی ہوسکتی ہیں لیکن ایک ’’کھلا راز‘‘ باقاعدہ حکومتی ادارے کی طرف سے سامنے آیا ہے جو ایک بڑا انکشاف ہے۔ اس حوالے سے بی بی سی نے جو رپورٹ کیا ہے اس کے مطابق کولسن کمپنی کی جانب سے اپنی گیارہ پراڈکٹس کے سیمپلز کو رجسٹریشن کی غرض سے سندھ فوڈ اتھارٹی کے پاس رواں برس 18 مارچ کو جمع کروایا گیا تھا۔
ان پراڈکٹس میں سلانٹی ویجیٹیبل، سنیکرز ہاٹ مسالہ، سنیکرز پیزا، ٹوئچ کلاسک، پوٹیٹو اسٹکس، چیز بال مسالہ، چیز بالز چیز، کائی کوریئن ہاٹ، کائی اسپائسی مالا، کائی مالا ووک اور کائی کوریئن کمچی شامل ہیں۔
19 اپریل کو ٹیسٹ رپورٹس سے معلوم ہوا تھا کہ یہ پراڈکٹس کوالٹی اور تحفظ سے متعلق معیارات پر پوری نہیں اترتیں اس لیے یہ انسانوں کے کھانے کے لیے موزوں نہیں ہیں اور ان کے باعث عوام کی صحت کو ممکنہ طور پر نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اور یہ موجودہ قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے کی گئی خلاف ورزیاں اس نوعیت کی ہیں کہ تین روز کے اندر مذکورہ پراڈکٹس کی مارکیٹ سے واپسی ضروری ہے۔
جس کے بعد کمپنی کو کہا گیا ہے کہ
عوام کو کسی بھی قسم کے صحت کے نقصان سے بچانے کے لیے فوری طور پر ان مصنوعات کو مارکیٹ سے ہٹایا جائے۔
ان مصنوعات کی پیداوار اور ان کی فروخت کو فوری طور پر بند کیا جائے۔
موجودہ متاثرہ اسٹاک کس جگہ موجود ہے اور اس کی تعداد کتنی ہے، اس حوالے سے تین روز کے اندر رپورٹ کیا جائے۔
اس سلسلے میں مذکورہ کمپنی کے پاس اپیل کا حق موجود ہے اور وہ سندھ فوڈ اتھارٹی سے سات روز کے اندر اس بارے میں اپیل کرسکتی ہے۔
ان مصنوعات میں کولیفارم، سٹیفیلوکوکس آریئس، اینٹروبیکٹریاکے، بیکیلس سیریئس نامی مائیکرو آرگنازمز طے کردہ معیار سے زیادہ شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان مصنوعات میں ان کی ایک حد سے زیادہ موجودگی دراصل ان کو بناتے وقت صفائی کا خیال نہ رکھنے سمیت متعدد وجوہات کے باعث ہوسکتی ہے۔
مصنوعات کی ٹیسٹنگ کرنے والے ماہر ڈاکٹر غفران نے جو عوامی شعور اجاگر کرنے کا کام بھی کررہے ہیں، مائیکروبیالوجی ٹیسٹنگ پر بی بی سی کو ان پروڈکٹس کے پس منظر میں بتایا کہ ’’ان کی مثال ایسی ہے کہ جیسے پانی آلودہ ہوجاتا ہے تو اس کے باعث آپ کا پیٹ خراب ہوسکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس میں خطرناک بیکٹیریا آجاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ان پراڈکٹس کی ٹیسٹنگ کے دوران بھی ہوا اور ان میں مختلف مائیکرو آرگنزمز معیار سے زیادہ مقدار میں پائے گئے۔‘‘
یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ کولسن کمپنی نے خود رجسٹریشن کے لیے رابطہ کیا تو یہ انکشاف ہوا کہ یہ تو زہر بیچ رہے ہیں، جب کہ اس وقت سندھ سمیت پورے ملک کے گلی محلوں میں ہزاروں ایسے ملکی و غیر ملکی برانڈز موجود ہیں جن کو مارکیٹ میں نہیں ہونا چاہیے اور وہ کینسر سمیت کئی بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں۔ دنیا بھر میں فوڈ سیفٹی کے حوالے سے سخت قوانین اور نگرانی کا نظام موجود ہے۔ امریکا، یورپ، اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہر فوڈ پروڈکٹ کو مختلف مراحل میں جانچنے کے بعد ہی مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اگر کسی پروڈکٹ میں مضر صحت مواد پایا جاتا ہے تو اسے فوری طور پر واپس مارکیٹ سے اٹھا لیا جاتا ہے اور کمپنی کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ یہ طریقہ کار صارفین کی صحت کو تحفظ فراہم کرتا اور فوڈ انڈسٹری میں معیار کو بلند رکھتا ہے۔ ہمارے یہاں فوڈ سیفٹی کا حال اس کے برعکس ہے۔ یہاں فوڈ سیفٹی اتھارٹیز کا نظام نہایت کمزور اور رشوت کا نظام بہت مضبوط ہے۔ غیر صحت مند اشیاء کو بغیر کسی معقول جانچ کے مارکیٹ میں فروخت ہونے دیا جاتا ہے، جس سے عوام کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔پاکستان میں جنک فوڈ اور دیگر غیر صحت مند اشیاء برسوں سے مارکیٹ میں فروخت ہو رہی ہیں اور ان پر پابندی کے باوجود خاطر خواہ کارروائی نہیں ہوتی۔ کولسن کے خلاف حالیہ کارروائی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جب کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو کارروائی ہوتی ہے، مگر یہ معاملے اکثر سیاسی یا دیگر وجوہات کی بنا پر دب جاتے ہیں۔یہ صحت اور انسانی زندگی کا معاملہ ہے جس پر این جی اوز بھی کام کرسکتی ہیں۔ میڈیا، سیاست دانوں اور فوڈ سیفٹی اتھارٹیز کو اس مسئلے پر مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ پاکستان میں فوڈ سیفٹی کے معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔
عوام کو بھی اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ غیر صحت مند اشیاء کے استعمال سے بچ سکیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو جنک فوڈ سے دور رکھنے کی کوشش کریں اور انہیں صحت مند غذا کی طرف راغب کریں۔ گھر میں تازہ پھل، سبزیاں، اور صحت مند غذا کا ہی انتخاب کریں تاکہ بچوں کی صحت بہتر ہوسکے۔
صحت کے لیے سخت قوانین اور ان پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی بھی بہت ضروری ہے۔ جنک فوڈ کے اشتہارات پر پابندی لگنی چاہیے، جس طرح سگریٹ صحت کے لیے خطرہ ہے، جنک فوڈ بچوں کی صحت کے لیے اس سے بھی بڑا خطرہ ہے۔