امریکہ مستقبل کا منظر نامہ

149

ایسا لگتا ہے امریکی سیاست انتہائی غیر متوقع طور پر بند گلی میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ چند ماہ کے دوران امریکی سیاست میں عجیب و غریب واقعات رونما ہوئے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات صرف اور صرف پیچیدگیوں کی طرف جارہے ہیں۔ پالیسیوں میں عدم توازن نمایاں ہوچلا ہے۔ حکمتِ عملی کی سطح پر بھی الجھنیں ایسی نہیں کہ دکھائی نہ دیں اور سمجھ میں نہ آسکیں۔

غیر یقینی کیفیت تو بہت سے ممالک کی سیاست میں ہے۔ فرانس میں کیا سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے؟ بالکل نہیں۔ برطانیہ میں کیا کوئی گڑبڑ نہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ اٹلی، جرمنی، یونان، اسپین … کہیں بھی سب کچھ اچھا نہیں چل رہا ہے۔ سرکاری اور نجی دونوں ہی میڈیا آؤٹ لیٹ صاف صاف بتارہے ہیں کہ خرابیاں ہیں اور بڑھتی ہی جارہی ہیں۔

فرانس، جرمنی اور چند دوسرے بڑے یورپی ممالک میں انتہائی دائیں بازو، یعنی خالص قوم پرستانہ نظریے کی تنگ نظری والی سیاست تیزی سے ابھر رہی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں سبھی اپنے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی کوششوں میں جُتے ہوئے ہیں۔ یورپ مجموعی طور پر الگ تھلگ سا ہوگیا ہے۔ امریکا کا ساتھ نبھاتے نبھاتے وہ دنیا بھر میں اپنے دشمنوں کی تعداد میں پریشان کن حد تک اضافہ کرچکا ہے۔ یورپی قائدین پہلے مرحلے میں تو امریکا سے الگ ہوکر چلنے کی کوشش کررہے ہیں اور دوسرے مرحلے میں وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے ہاں افریقا، ایشیا، مشرقِ بعید اور جنوبی امریکا وغیرہ سے زیادہ لوگ یعنی تارکینِ وطن نہ آئیں۔ اس کے لیے پالیسیاں بھی تبدیل کی جارہی ہیں اور حکمتِ عملی میں بھی کچھ الگ سے اقدامات ڈالے جارہے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ یورپ کی الجھن سمجھی نہ جاسکے۔ روس نے یوکرین پر جنگ مسلط کرکے پورے یورپ کی نیند حرام کر رکھی ہے۔ فرانس، برطانیہ اور جرمنی میں اس حوالے سے اختلافِ رائے نمایاں ہے۔ یورپی ممالک یوکرین کی مدد ضرور کرتے آئے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ یوکرین ٹِک نہیں پارہا اور روس دم لینے کو تیار نہیں۔ یوکرین کہتا ہے کہ وہ جنگ ہار گیا تو پورا یورپ داؤ پر لگ جائے گا۔ یوکرین اپنے آپ کو یورپ کی دفاعی لائن قرار دے رہا ہے اور بہت حد تک ایسا ہے بھی۔ دوسری طرف امریکا ہے کہ یوکرین کے معاملے میں اب تک ذہن واضح نہیں کر پارہا۔ یورپ کے بیشتر قائدین کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ اگر انہوں نے یوکرین کی امداد روک دی یا بہت زیادہ کم کردی تو معاملات تیزی سے خرابی کی طرف جائیں گے کیونکہ ایسا کرنے سے روس کی حوصلہ افزائی ہوگی، اُس کی افواج غیر معمولی مورال کے ساتھ آگے بڑھیں گی اور یوکرین کو روندتی ہوئی مین لینڈ یورپ کی طرف بڑھنے اور اُسے ہڑپ کرنے کا سوچیں گی۔ اگر ایسا ہوا تو تیسری عالمی جنگ کے چھڑنے کا امکان بڑھ جائے گا۔ جرمن حکومت نے 2025ء میں یوکرین کے لیے فوجی امداد میں 50 فیصد کٹوتی کردی ہے۔ اب جرمنی کی طرف سے یوکرین کو 8 کے بجائے 4 ارب یورو کی فوجی امداد ملے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یوکرین کے فوجیوں کا مورال مزید گرے گا۔

امریکا اِس وقت بہت نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ یورپ بہت حد تک اپنی راہیں الگ کرچکا ہے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے اب تک عالمی سیاسی و معاشی نظام چلایا ہے۔ اس وقت دنیا میں جو مالیاتی نظام رُو بہ عمل ہے وہ بھی امریکا اور یورپ ہی کا وضع کردہ ہے اور دونوں اِس پر متصرف بھی ہیں۔

امریکا اور یورپ کی مشترکہ مشکل یہ ہے کہ چین، روس اور بھارت غیر معمولی حد تک مستحکم ہوچکے ہیں۔ روس اگر مستحکم نہ ہوتا تو یوکرین پر جنگ مسلط کرنے کی حماقت ہرگز نہ کرتا۔ نیٹو کا پھیلاؤ روکنے کے نام پر اُس نے یوکرین کو سبق سکھانے کی ٹھانی تو اُس کے حمایتی ایک طرف ہوگئے۔ امریکا نے سوا دو سال کے دوران روس کو کئی بار انتہائی نوعیت کی دھمکیاں دی ہیں اور یورپ بھی دھمکانے کے معاملے میں پیچھے نہیں رہا، مگر ہوا کیا؟ ٹائیں ٹائیں فِش! اگر امریکا اور یورپ نے یوکرین کے معاملے کو واقعی اپنی ذمہ داری گردانا ہوتا تو روس کی مجال نہ ہوتی کہ آگے بڑھ کر یوکرین کو ہڑپنے کی کوشش کرتا۔

یورپ پَر سمیٹ کر اپنے آشیانے میں سِمٹا ہوا ہے۔ وہ سہما ہوا بھی ہے۔ سیدھی سی بات ہے، یورپ کی حیثیت شیشے کے گھر کی ہے۔ وہ بھلا کیوں چاہے گا کہ اُس کا شیشے کا گھر جنگ کے پتھروں سے کِرچی کِرچی ہوجائے! رُوس اور چین دونوں ہی دنیا کو مسخر کرنے نکلے ہیں۔ طریقے البتہ مختلف ہیں۔ چین معاشی اور مالیاتی قوت کے بل پر آگے بڑھ رہا ہے۔ اُس نے ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی قدم جمالیے ہیں۔ روس معاشی استحکام اور ٹیکنالوجیز یعنی نرم قوت سے کہیں بڑھ کر سخت قوت یعنی فوجی طاقت کے ذریعے اپنے آپ کو منوانا چاہتا ہے۔ روس اور چین کے طریقِ کار میں فرق ہے مگر مقاصد دونوں کے ایک ہیں اور اِسی لیے وہ ایک پلیٹ فارم پر رہتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اُن کے درمیان اشتراکِ عمل تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ بات امریکا اور یورپ کے ساتھ ساتھ بھارت کے لیے بھی بہت پریشان کن اور تشویش ناک ہے، کیونکہ بھارت اِن میں سے کسی کا بھی نہیں اور ہونا چاہتا بھی نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ امریکا اور یورپ کو بھی آنکھیں دکھانے پر تُلا ہوا ہے۔ بھارتی قیادت کے ذہن میں بیرونِ ملک کام کرنے والے بھارتی باشندوں کے ذریعے بہت کچھ حاصل کرنے اور دُنیا کو اُلٹنے، پلٹنے کا خنّاس سمایا ہوا ہے۔ وہ علاقائی اور عالمی سیاست و معیشت میں اپنے لیے بڑا کردار چاہتا ہے، اور خواہش مند ہے کہ اُس کی برتر حیثیت کو تسلیم کیا جائے۔ مشکل یہ ہے کہ بھارتی قیادت صرف لینا چاہتی اور جانتی ہے، کچھ دینے کی روادار نہیں۔

امریکا کی مشکل یہ ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اُس نے یورپ سے مل کر جو سیاسی، معاشی، مالیاتی اور اسٹرے ٹیجک نظام تیار کیا وہ اب کمزور پڑچکا ہے۔ سیاسی اور اسٹرے ٹیجک امور کے دنیا بھرکے ماہرین اس بات کو سمجھتے ہیں کہ امریکا تنِ تنہا تو کیا، یورپ کے ساتھ مل کر بھی موجودہ عالمی نظام نہیں چلا سکتا۔ لازم ہے کہ نیا عالمی نظام لایا جائے جس میں یورپ اور امریکا کے ساتھ ساتھ چین، روس، بھارت، برازیل، جنوبی افریقا، ترکی اور چند دیگر مسلم ممالک کے لیے بھی کچھ ہو، تاکہ توازن برقرار رہے۔ سرد جنگ کے خاتمے پر دنیا یک قطبی رہ گئی تھی یعنی امریکا واحد سپر پاور تھا اور ہے، مگر یہ بات اب سبھی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ واحد سپر پاور کی اصل طاقت کتنی رہ گئی ہے۔ امریکا نے چونکہ موجودہ تھکے ہارے اور فرسودہ عالمی نظام میں بہت زیادہ پنجے گاڑے ہوئے ہیں اِس لیے وہ معاملات کا فائدہ اٹھا رہا ہے، تاہم درحقیقت اُس کی حیثیت اُس بدمعاش کی سی رہ گئی ہے جس کی طاقت تو بہت گھٹ چکی ہو مگر نام چل رہا ہو، بھرم باقی ہو۔ امریکی قیادت بھی اچھی طرح جانتی اور سمجھتی ہے کہ اس وقت جو کچھ بھی ہاتھ لگ رہا ہے وہ صرف بھرم کی مہربانی سے ہے۔ طاقت نہیں رہی مگر ٹھہکا باقی ہے، اِس لیے ٹھہکے کی مشین میں معاملات کو گَنّے کی طرح نچوڑا جارہا ہے۔ امریکا اور یورپ دونوں ہی خطوں کے قائدین جانتے ہیں کہ اُن کی برتری کے دن تھوڑے ہیں، اِس لیے جتنا کچھ بھی سمیٹا جاسکتا ہو، سمیٹ لیا جائے۔

امریکا کے لیے یہ بہت نازک وقت ہے۔ برطانیہ اس وقت یورپی یونین سے الگ کھڑا ہے۔ اِدھر امریکا بھی الگ تھلگ سا ہے کیونکہ برطانیہ اور یورپی یونین کے ارکان دونوں ہی اُس پر مکمل بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ برطانیہ اور یورپی یونین کی کسی بھی خطے میں کوئی نئی عسکری مُہم جوئی شروع کرنے کی نیت ہے نہ طاقت۔ یوکرین کے ذریعے روس نے ویسی ہی وختا ڈالا ہوا ہے۔ ایسے میں مزید کون سی عسکری مُہم جوئی کا سوچا جائے؟

امریکی قیادت پر غیر معمولی دباؤ ہے۔ یوکرین پر روس کی مسلط کردہ جنگ نے یورپ کے لیے خطرات بڑھادیے ہیں۔ روس نے اگر یوکرین کو واضح شکست دے دی تو مین لینڈ یورپ اور برطانیہ کا دباؤ میں آنا فطری امر ہوگا۔ روس کی فتح امریکا کے لیے بھی خاصی حوصلہ شکن ہوگی۔ امریکی قانون سازوں اور پالیسی سازوں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ امریکا ایک ٹیلی فون کال پر کسی بھی خطے میں اپنی مرضی کے فیصلے منوائے اور اپنی مرضی سے کچھ بھی کرتا پھرے۔

دنیا بہت بدل چکی ہے۔ جنوبی ایشیا کے سیاسی، معاشی اور اسٹرے ٹیجک محرکات بہت بدل گئے ہیں۔ چین اور روس کی شکل میں ایشیائی ممالک کے لیے وہ بڑے سُتون موجود ہیں جن پر اپنی مرضی کی چھت ڈالی جاسکتی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک اگرچہ اپنی مرضی سے فیصلے نہیں کر پاتے مگر پھر بھی اُنہیں اب بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنا امریکا کے لیے ممکن رہا ہے نہ یورپی طاقتوں کے لیے۔ مارکیٹ میں مسابقت بڑھ گئی ہے۔ امریکا اور یورپ زیادہ دباؤ ڈالیں گے تو بازار میں چین اور روس کی شکل میں دو بڑے سُپر اسٹور موجود ہیں، پس ماندہ ممالک اُن سے خریداری شروع کردیں گے!

امریکا کی سیاست کا الجھ جانا انتہائی پریشان کن، بلکہ خطرناک ہے۔ دنیا کو نئے سیاسی و معاشی نظام کی ضرورت ہے۔ اسٹرے ٹیجک حرکیات میں توازن اور نظم و ضبط پیدا کرنے کے لیے لازم ہے کہ امریکا میں سیاسی قیادت مضبوط اور بالغ نظر ہو۔ کیا ایسا ہے؟ لگتا تو نہیں۔ امریکی پالیسی ساز اور حقیقی فیصلہ ساز چاہے جیسے بھی ہوں، جو چہرہ سامنے ہے وہ تو انتہائی مایوس کن ہے۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے چند ماہ کے دوران ایسا بہت کچھ کیا ہے جو معاملات کو الجھانے کا باعث بنا ہے۔ وہ 81 سال کے ہیں، اور اُن کے مدِمقابل یعنی ری پبلکن صدارتی امیدوار بھی کم و بیش اِتنی ہی عمر کے ہیں۔ امریکی ووٹرز خود کو بہت ہی نازک مقام پر پارہے ہیں۔ اُن کے لیے ایک طرف پہاڑ ہے اور دوسری طرف کھائی۔ اب کریں تو کیا کریں؟ کسے ووٹ دیں، کسے مسترد کردیں؟ اگر چھوٹی اور بڑی بُرائی کا معاملہ ہو تو دل کو یہ سوچ کر سکون مل جاتا ہے کہ چلو، چھوٹی بُرائی کو گلے لگالو۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ دونوں طرف بڑی بُرائی ہے۔

صدر بائیڈن کی جسمانی و ذہنی صحت جواب دے چکی ہے۔ وہ بیٹھے بیٹھے سو جاتے ہیں۔ خطاب کے دوران بنیادی حقائق بھول جاتے ہیں۔ کسی کو متعارف کراتے وقت کچھ کا کچھ کہہ جاتے ہیں۔ اُن کی زبان کے پھسلنے کے اِتنے واقعات رونما ہوچکے ہیں کہ ہالی وُڈ والے چاہیں تو فلم نہیں بلکہ سیکیوئلز بناسکتے ہیں۔

صدر بائیڈن کی صحت کے حوالے سے اب اِتنا کچھ سامنے آچکا ہے کہ کسی کے ذہن میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا۔ کچھ دن پہلے یہ خبر آئی کہ صدر بائیڈن کی رعشہ یعنی کانپنے، لرزنے کی بیماری کے علاج کے لیے ایک معروف نیورو سرجن آٹھ ماہ کے دوران باقاعدگی سے امریکی ایوانِ صدر آتا رہا ہے۔

پہلے صدارتی مباحثے کے دوران صدر بائیڈن کی کارکردگی اِس قدر ناقص رہی کہ ڈیموکریٹس اب تک منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ اس مباحثے میں صدر بائیڈن نے بہت سے بنیادی حقائق غلط بیان کیے۔ اُنہوں نے بعض دعوے بھی غلط کیے۔ غلط بیانی تو خیر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کی، تاہم سب جانتے ہیں کہ وہ بدنیتی کا معاملہ تھا۔ صدر بائیڈن تو ذہنی کمزوری کے باعث مباحثے میں عمدگی کا مظاہرہ نہ کر پائے۔

صدر بائیڈن پر ڈیڑھ دو ماہ سے شدید نکتہ چینی کی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی اُن کی صحت کے حوالے سے بہت کچھ آرہا ہے۔ حد یہ ہے کہ اب ڈیموکریٹس بھی اُن سے کہہ رہے ہیں کہ انتخابی دوڑ سے الگ ہوجائیں۔ صدر بائیڈن پر انتخابی دوڑ سے الگ ہونے کے لیے مجموعی دباؤ کم و بیش 6 ماہ سے برقرار ہے۔ اب اِس میں شدت آگئی ہے۔ صدر بائیڈن نے کئی مواقع پر خاصے جارحانہ انداز سے، بلکہ مشتعل ہوکر اپنے مخالفین اور ناقدین سے کہا کہ وہ انتخابی دوڑ سے الگ نہیں ہوں گے۔

ایک ہفتے کے دوران البتہ امریکی صدر کا لہجہ تبدیل ہوا ہے۔ وہ بڑھک مارتے آرہے تھے کہ وہ کسی بھی صورتِ حال کا سامنا کرسکتے ہیں، مذاکرات کی میز پر دنیا کے کسی بھی لیڈر سے ڈٹ کر بات کرسکتے ہیں۔ کئی انٹرویوز میں اُن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنی کمزور جسمانی و ذہنی کیفیت کے باوجود عالمی سیاست و معیشت کا دباؤ جھیل پائیں گے؟ تو اُن کا کہنا تھا کہ میں اب بھی پوری طرح فِٹ ہوں اور کسی بھی صورتِ حال سے اچھی طرح نپٹ سکتا ہوں۔

اب بائیڈن کہہ رہے ہیں کہ امریکا کی نائب صدر کملا ہیرس ملک کے صدر کے منصب پر بیٹھنے کی پوری اہل ہیں۔ اُن کے اس بیان کو امریکی اور یورپی میڈیا نے بہت اہم قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ خبر بھی آئی ہے کہ صدر بائیڈن کورونا وائرس کی زد میں آگئے ہیں۔ معاملہ اگرچہ بہت پریشان کن نہیں یعنی اُن کی حالت زیادہ خراب نہیں، مگر اِتنا تو طے ہے کہ وہ کچھ دنوں کے لیے غیر متحرک ہوجائیں گے۔ اُنہیں آرام کرنا ہی پڑے گا۔ اگر وہ دس پندرہ دن بھی زیادہ متحرک نہ رہے، الگ تھلگ رہے تو انتخابی مہم میں ڈیموکریٹس کی پوزیشن مزید کمزور پڑے گی۔ صدر بائیڈن نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر طبی پیچیدگیاں بڑھ گئیں تو وہ انتخابی دوڑ سے الگ بھی ہوسکتے ہں۔ یوں بھی امریکا بھر میں 32 فیصد سے زیادہ ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ صدر بائیڈن کو اب انتخابی دوڑ سے الگ ہوجانا چاہیے۔

امریکا میں انتخابی دوڑ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوا چاہتی ہے۔ اب اعصاب کا امتحان ہے۔ صدر بائیڈن اگر اِس مرحلے پر انتخابی دوڑ سے الگ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں تو بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا کملا ہیرس محض چار ماہ کے دوران اپنے آپ کو منوانے اور امریکی ووٹرز کی اکثریت کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو پائیں گی؟ وہ بائیڈن کے مقابلے میں خاصی کم عمر ہیں اور ذہنی طور پر خاصی توانا بھی، مگر اِس کے باوجود یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ وہ خاتون ہیں اور ووٹرز کے لیے فیصلہ بہت مشکل ہوگا۔

نیو یارک ٹائمز نے گزشتہ ہفتے یعنی ری پبلکن صدارتی امیدوار ٹرمپ پر حملے سے قبل لکھا تھا کہ امریکی ووٹرز انتہائی نوعیت کے مخمصے کا شکار ہیں کیونکہ ایک صدارتی امیدوار جسمانی و ذہنی طور پر بہت کمزور ہے اور دوسرا انتہائی خطرناک۔ نیویارک ٹائمز نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنیت اور پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اپنے پہلے دورِ حکومت میں بھی انہوں نے بعض انتہائی پریشان کن اقدامات کیے تھے، چین سے تجارتی جنگ کی داغ بیل ڈالی تھی اور امریکی معیشت کے لیے انتہائی نوعیت کی مشکلات پیدا کی تھیں۔ اب بھی وہ تارکینِ وطن کے خلاف جانے کی بات کررہے ہیں۔ وہ صاف کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو تمام غیر قانونی تارکینِ وطن کو نکال باہر کریں گے اور اس کام میں اُنہیں فوج سے بھی مدد لینا پڑی تو ایسا کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔

ایک اور پریشان کن بات یہ ہے کہ ٹرمپ چونکہ خود انتہائی مالدار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے انہوں نے اُس طبقے کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے اپنی سوچ بھی ظاہر کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دوبارہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں وہ انتہائی مالدار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ کم کردیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا چلتا رکھنے کا سارا بوجھ غریب اور متوسط طبقے کے امریکی برداشت کریں گے اور بالخصوص تنخواہ دار طبقے کو سب سے زیادہ بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔

تارکینِ وطن کے خلاف کارروائیوں اور غریب و متوسط طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کی ذہنیت ہی کے حوالے سے نیویارک ٹائمز نے ٹرمپ کو خطرناک قرار دیا ہے۔ امریکی ووٹرز کے سامنے اگر صدر بائیڈن اور ٹرمپ میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا معاملہ ہوا تو اُن کے ذہن بُری طرح منتشر ہوں گے۔ ایک بیمار ہے اور دوسرا خطرناک

خداوندا! یہ تیرے سادہ دل بندے کِدھر جائیں؟
امریکی صدارتی انتخاب کے ماحول کو دیکھ کر بہت عجیب سے محسوسات ابھر رہے ہیں۔ کیا امریکی سیاست میں اب یہی دو چہرے رہ گئے ہیں؟ کیا اِن میں سے کوئی بھی اس قابل ہے کہ اُسے ایک بار پھر امریکا کی کمان پورے چار سال کے لیے سونپ دی جائے؟ قاتلانہ حملے کے بعد ٹرمپ سے ہمدردی کی ایک لہر اٹھی ہے جس پر سوار ہوکر وہ بہت آگے نکلنے کی تیاری کررہے ہیں۔ ٹرمپ کے لیے امکانات روشن ہیں مگر کیا امریکا کے لیے بھی امکانات روشن ہیں؟ اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو امریکی پالیسیوں اور فیصلوںکا کیا ہوگا؟ کیا وہ اِس نازک مرحلے پر عالمی امور میں امریکا کی پوزیشن کا معقول طریقے سے دفاع کرسکیں گے؟ امریکا اور یورپ کو مل کر چار پانچ سال کے اندر کسی نئے عالمی نظام کی راہ ہموار کرنی ہے۔ وہ چین، روس اور بھارت کو نظر انداز کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ مسلم دنیا کو بھی اب سرد خانے میں رکھنا ممکن نہیں۔ اگر مسلم ممالک نے امریکا اور یورپ سے بیزار ہوکر تھوڑی سی ہمت دکھاتے ہوئے اپنے آپ کو چین اور روس کی طرف جھکا دیا تو کیا ہوگا؟ بہت کچھ بدل جائے گا۔ ایسے میں امریکی قیادت کسی ایسی شخصیت کے ہاتھ میں ہونی چاہیے جو معقول انداز سے سوچ سکے اور ڈھنگ کے فیصلے کرسکے، اپنی بات کُھل کر بیان کرسکے، اپنا مؤقف ڈھنگ سے منوا سکے۔ صدر بائیڈن تو اِس پوزیشن میں اب رہے نہیں، اور ٹرمپ کے مزاج کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہے کہ وہ عالمی امور میں امریکا کی برتری برقرار رکھنے کے چکر میں بہت کچھ داؤ پر لگاسکتے ہیں۔

امریکا میں اگلے دس پندرہ دن بہت اہم ہیں۔ اگر صدر بائیڈن انتخابی دوڑ سے الگ ہوئے تو اُن پر اس حوالے سے بھی تنقید ہوگی کہ اُنہوں نے اس فیصلے میں اتنا وقت کیوں ضائع کیا۔ صدر بائیڈن کی ہٹ دھرمی نے ڈیموکریٹس کو دیوار سے لگادیا ہے۔ کملا ہیرس کے لیے اپنے آپ کو منوانا آسان نہ ہوگا۔ ٹرمپ نے اپنے پتّے اچھی طرح کھیلے ہیں۔ بہت سوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ پنسلوانیا کے شہر بٹلر میں قاتلانہ حملہ بھی کہیں ٹرمپ کی طرف سے کھیلا جانے والا ایک اچھا پتّا تو نہیں؟ اُنہیں عوام کی ہمدردیاں درکار تھیں جو مل گئیں۔ اور اِس سے بڑی بات یہ ہوئی ہے کہ اُن پر تنقید کرنے والوں کے منہ بند ہوگئے ہیں۔ میڈیا بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ فی الحال اُن پر زیادہ نکتہ چینی کرسکے۔

صدر بائیڈن کے کورونا وائرس کی زد میں آنے سے کملا ہیرس کے ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار مقرر کیے جانے کا امکان قوی ہوگیا ہے۔ یہ محض نام اور شخصیت کی تبدیلی نہیں ہوگی بلکہ امریکی سیاست میں اور بھی بہت کچھ بدل جائے گا۔ جب بارک اوباما کو صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا تھا تب یہ سوال اٹھا تھا کہ وہ خود تو مسیحی ہیں مگر اُن کا پس منظر مسلم ہے یعنی اُن کا ددھیال مسلم ہے۔ اب کیا کملا ہیرس کی نامزدگی پر ایسا کوئی سوال نہیں اٹھے گا جبکہ اُن کی ماں شیاملا گوپالن کا تعلق بھارت کے شہر چِنئی (مدراس) سے تھا اور والد ڈونلڈ ہیرس جزائرِ غرب الہند کے علاقے جمیکا کے تھے۔ ڈونلڈ ہیرس اور شیاملا گوپالن نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ایک دوسرے کو پسند کیا اور شادی کی۔

کملا کے نام کا مطلب ہے کنول کا پھول۔ اور یہی ہندوؤں کی دیوی لکشمی کا متبادل نام بھی ہے۔ ایسے میں یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ اگر وہ صدر منتخب ہوئیں تو امریکا میں آباد ہندوؤں کے علاوہ خود بھارت بھی قدرے موافق پوزیشن میں ہوگا۔

امریکا کو اگلے چار سال کے لیے موزوں ترین امیدوار درکار ہے۔ دونوں موجودہ امیدوار موزوں ترین نہیں۔ امیدوار یا امیدواروں کی تبدیلی بھی امریکی سیاست کے بحران کو ختم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے گی۔ ایسے میں دنیا کو اگلے چار برس کے دوران امریکا کی طرف سے انتہائی نوعیت کی سوچ اور قدرے غیر عاقلانہ فیصلوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

حصہ