حضرت عمربن الخطاب (شہادت: 26 ذوالحجہ، 23ہجری ، 6نومبر 644ء) کی خلافت ہرپہلو سے مثالی تھی۔ہرمعاملے میں خلیفۂ راشد اپنے آپ کو جواب دہ اور ذمہ دار گردانتے تھے اور رعایا کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے تھے۔ نظمِ حکومت مضبوط بنیادوں پر قائم تھا۔ ادارے منظم تھے۔ مواصلات کا نظام بہترین تھا، راستے محفوظ اور بہترین انداز میں بنائے گئے تھے۔
مصر اور مدینہ کا فاصلہ خاصا طویل تھا مگر حضرت عمرؓ کے دُور اندیش ذہن نے یہ فاصلہ پاٹ دیا۔ وہ اس طرح کہ مصر سے غلہ لانے کے لیے بحری جہاز استعمال کیے۔ جہازوں کے ذریعے غلہ جار کی بندرگاہ تک لایا جاتا تھا۔ وہاں سے پھر اُونٹوں پر لاد کر محفوظ راستے کے ذریعے ایک دن اور ایک رات میں کارواں مدینہ پہنچ جاتا تھا۔ جار، بحراحمر پر بندرگاہ تھی۔ حضرت عمرؓ سے قبل مصر سے حجاز تک سارا سفر صحرا اور خشکی کے ذریعے ہوتا تھا جو بڑا تکلیف دہ اور خطرات سے گھرا رہتا اور اس میں کافی مدت بھی لگتی تھی۔
عزت افزائی اور قدر کا معیار:حاجت مندوں کے لیے حضرت عمرؓ کا دروازہ ہروقت کھلا رہتا تھا۔ جو شخص آتا اس کی دادرسی کی جاتی تھی۔ کسی کو کسی دوسرے پر فضیلت نہ تھی۔ ایک اصول تھاکہ جس سے ہرخاص و عام واقف تھا۔ وہ یہ کہ جو زیادہ نیک اور متقی تھا، وہی زیادہ معزز و محترم تھا۔ جس نے اعمالِ خیر اور جہادِ اسلامی میں زیادہ خدمات سرانجام دی تھیں، وہی دوسروں پر فوقیت رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا معیار نہ تھا، جس سے لوگوں کا مرتبہ متعین کیا جاتا۔
جب حق داروں کو ان کا حق نہ ملے اور صاحب ِ استحقاق کے مقابلے میں بااثر لوگوں کو ترجیح دی جانے لگے تو فساد پھیل جانا فطری امر ہے۔ حکمران اگر یہ اصولِ پیش نظررکھیں کہ جس شخص نے اُمت کے لیے زیادہ قابلِ قدر خدمات سرانجام دی ہیں،اسی کی عزت افزائی اور قدر کی جائے تو اس سے بہت صحت مند رجحان پروان چڑھتا ہے۔ لوگ بھلائی اور خیر کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نیکیاں بُرائیوں پر غالب آجاتی ہیں۔
جرید بن حازم بن حسن سے مروی ہے: ’’کچھ لوگ امیرالمومنین عمرؓبن الخطاب کے دروازے پر آئے۔ ان میں اصحابِ بدر بھی تھے اور شیوخ قریش بھی۔ ان لوگوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ اصحابِ بدر میں سے صہیبؓ،خبابؓ، عمارؓ اور بلالؓ کو اندر آنے کی اجازت مل گئی جب کہ ابوسفیانؓ، حارثؓبن ہشام اور سہیلؓ بن عمرو کو باہر انتظار کرنا پڑا۔یہ سبھی بزرگ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔
اس صورتِ حال کو دیکھ کر ابوسفیانؓ نے کہا ’’آج کے دن سے زیادہ میں نے اپنی بے قدری کبھی نہ دیکھی تھی۔ رؤسائے قریش باہر بیٹھے ہیں اور غلاموں کو اندر بلا لیا گیا ہے‘‘۔ یہ سن کر سہیلؓ بن عمرو نے کہا: ’’اے سردارانِ قریش، میں نے آپ کے چہروں پر ناراضی کے آثار دیکھ لیے ہیں۔ اگر غصہ کرنا ہے تو اپنے آپ پر کریں۔ سارے لوگوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی گئی تھی اور آپ کو بھی مخاطب کیا گیا تھا۔ وہ لوگ جلدی سے آگے بڑھے اور آپ پیچھے رہ گئے۔ آپ کو اس دروازے سے ان کا پہلے داخل ہونا ناگوار گزر رہا ہے۔ خدا کی قسم! یہ تو کوئی بات نہیں۔ وہ تو اپنے درجات کی بلندی میں آپ سے اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ اگر آپ اس کا احساس کریں تو اپنی محرومی پر کفِ افسوس ملتے رہ جائیں‘‘۔
پھر مزید کہا ’’اے لوگو! یہ سب اللہ کی راہ میں جہاد اورسبقت ِ اسلام کی وجہ سے آپ سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ اب آپ کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ تلافی ٔ مافات کرسکیں اور وہ جہاد کا راستہ ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ آپ کو شہادت کا رُتبہ عطا کرکے آپ کے درجات بلند فرما دے‘‘۔
حضرت سہیلؓ اس کے بعد اسلامی لشکروں کے ساتھ شام میں جاشامل ہوئے اور میدانِ جہاد میں شہادت پائی۔ جرید بن حازم بن حسن ان کے بارے میں مندرجہ بالا واقعہ بیان کرنے کے بعد کہا کرتے تھے: ’’اللہ کی قسم! سہیلؓ نے سچ کہا۔ جو بندہ اللہ کی طرف تیزی سے آگے بڑھ جائے، بھلا اس کے برابر دعوت کو ٹھکرا دینے والا کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘
کسی شخص کے قرب اور دُوری اور تقدیم و تاخیر کے لیے یہ معیار قائم ہوجائے تو سمجھیے کہ معاشرہ ٹھیک سمت میں جارہا ہے۔ اگر کسی کا ذاتی جاہ ومال، مادّی قوت اور گروہ بندی ہی امتیاز کی وجہ بن جائے تو یہ کھلے بگاڑ کا راستہ ہے۔ اصل چیز کردار اور اعمالِ صالح ہیں نہ کہ حسب نسب اور ٹھاٹھ باٹ۔ قرآن میں فرمایا گیاہے’’جس کسی نے ذرّہ برابر نیکی کی، وہ اسے دیکھ لےگا اور جس کسی نے ذرہ برابر بُرائی کی، وہ بھی اسے دیکھ لےگا۔‘‘ ۧ ۧ (الزلزال7-8)
فرض کی ادائیگی کا لطف: حضرت عمرؓ بطورِ حاکم اپنے فرائض کی ادائیگی میں سرگرمِ عمل رہتے تھے۔ بہت سے نیک نفس حکمران اور بھی ہیں، جو اپنی جملہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کا اہتمام کرتے تھے۔ آج بھی اگر کوئی حکمران سنجیدگی سے کمر ہمت باندھ لے تو یہ کام کر سکتا ہے۔ مگر حضرت عمرؓ کا اس معاملے میں کمال یہ ہے کہ وہ ان فرائض کی ادائیگی میں لطف محسوس کرتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ عبادت کا حصہ تھا۔ رعایا کے لیے جذباتِ محبت اور نیکی کے کاموں کے لیے ہمیشہ کمربستہ رہناان کی شان تھی۔ انھوں نے خلافت کا بھاری بوجھ اُٹھایا اور اس کا حق اداکردیا۔ اس بوجھ کے باوجود وہ دوسروں کابوجھ کم کرنے اور اپنے اُوپر زیادہ بوجھ لادنے کی فکر میں رہتے تھے۔ حق داروں کوان کے پاس پہنچ کر حق ادا کیا کرتےتھے۔ وہ راتوں کو گلی کوچوں میں گھوم پھر کر لوگوں کے حالات معلوم کرتے اوران کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے کندھوں پر بوجھ اُٹھایا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ خود رجسٹر اُٹھائے بنوخزاعہ کے پاس قدید پہنچے اور ان کے وظیفے انھیں دیتے ہوئےفرمایا: ’’یہ ان کا حق ہے۔ انھیں اپنا یہ حق وصول کرکے اتنی خوشی نہیں ہوئی ہوگی جتنی مجھے اداکرکے ہورہی ہے۔ تم لوگ میری تعریف نہ کرو۔ میں نے کیا تیر مارا ہے، بس اپنا فرض ادا کیا ہے۔
یہ عظمت ِ کردار کہاں مل سکتی ہے؟ سربراہِ مملکت اپنی پشت پر سامان لادے لوگوںتک پہنچتا ہے، مگر نہ کوئی اعلان ہوتاہے، نہ تشہیر، نہ سپاس نامہ اور نہ قصیدہ خوانی۔ وہ اللہ کے سامنے حاضری اور جواب دہی کے احساس سے مالا مال تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ بندوں کے معاملے میں اللہ نے ان پرکیا کچھ واجب کررکھا ہے۔
آج صورتِ حال یہ ہے کہ بے چارے حق دار پوری زندگی اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ اکثر لوگوں کے حصے میں محرومی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ حکومتی اداروں کو چلانےوالوں کے دلوں میں اگر خوفِ خدا پیدا ہوجائے تو ہر حق دار کو اس کا حق مل سکتا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ کیوں؟ اس کاجواب آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ حقیقت واضح ہے کہ خدا کا خوف دلوں میں نہیں ہے،مگر اس کا اظہار کوئی نہیں کرسکتا۔
سختی و نرمی کا امتزاج :حضرت عمرؓ سخت گیر بھی تھے، مگر ساتھ ہی نرم دل بھی تھے۔ جہاں سختی کی ضرورت ہوتی تھی، وہاں سختی کرتے، اور جہاں نرمی کا موقع محل ہوتا، وہاں آپ کی نرم دلی بے مثال ہوا کرتی۔ ایک مرتبہ ایک نوجوان غیرشادی شدہ جوڑا زنا میں پکڑا گیا۔ آپ نے لڑکے اور لڑکی دونوں پر حد ِ تازیانہ جاری کی اوراس میں بالکل نرمی نہ دکھائی۔ حدجاری ہوچکی تو آپ نے ان سے کہا’’آپس میں شادی کرلو‘‘۔ مگر لڑکے نے انکارکر دیا۔ آپ نے اس کے انکار پر بُرا نہ مانا۔ حدود اللہ کا قیام اللہ کا حق ہے جس میں کوئی کمی بیشی قابلِ قبول نہیں اور افراد کی شخصی آزادی ان کا بنیادی حق ہے جس پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔
آج بُرائی پھیل چکی ہے۔ ان حالات میں مسلمان لڑکیوں کو اپنی عزت و عفت کی حفاظت کے لیے خود بیدار اور محتاط رہنا چاہیے۔ شیطان، انسان کے لیے ہرلمحہ ایک حملہ آور وحشی بھیڑیئے کی مانند ہے۔ شیاطین، جنوں اور انسانوں کے غول پھرتے اور یلغار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک کسی کی عزّت اور شرف کا کوئی تقدس اور حرمت نہیں ہے۔ افسوس کہ انسانوں کو یہ بات یاد ہی نہیں رہتی۔ وہ ذاتِ بابرکات، جو ہرشخص کے ہرعمل سے باخبر ہے، اس کے سامنے حاضری کے دن سب کو اپنے اپنے اعمال کا پورا بدلہ مل جائےگا۔
وقت قیمتی اثاثہ : حضرت عمرؓ اپنی رعایا کے ہرمعاملے میں دل چسپی لیتے تھے، جس طرح والدین اپنی اولاد کے جملہ اُمور کی نگرانی کرتے ہیں۔ آپ اس بات کا بھی خیال رکھتے تھے کہ لوگ اپنے وقت کا استعمال کس طرح کرتے ہیں۔ کبھی آپ انھیں پیار سے سمجھاتے اور کبھی سختی سے انھیں تاکید کرتے تھے۔ رات کو دیر تک جاگنا آپ کو ناپسند تھا۔ آپ لوگوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ جلد سونے کی عادت ڈالیں تاکہ جلد اُٹھ سکیں اور اگر توفیق ملے تو تہجد کی سعادت حاصل کریں۔
آپ کی خلافت میں فضول کاموں کی کوئی گنجایش نہ تھی۔ آپ جانتے تھے کہ وقت بہت قیمتی متاع ہے اور کام بے شمار ہیں جن کی تکمیل کے لیے وقت کا ایک ایک لمحہ احتیاط سے استعمال میں لانا چاہیے۔ اگر لوگ عشاء کی نماز کے بعد قصے کہانی سننے سنانے کے لیے بیٹھ جاتے تو حضرت عمرؓ انھیں سرزنش فرماتے اور کہتے: ’’پہلی رات کہانی قصوں کی نذر کر دیتے ہو اور پچھلی رات لمبی تان کر سو جاتے ہو، عشاء کے بعد کراماًکاتبین کو بھی ذرا آرام کرنے دیا کرو‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات میں بڑی حکمت ملحوظ رکھی ہے۔ وہ بندوں کے نفع و نقصان کو خوب جانتا ہے۔ اس نےدن کو کام کاج اور تلاش معاش کے لیے اور رات کو آرام و راحت کے لیے پیدا کیا ہے۔ رات کوجلدی سو جانے والا شخص اگلے دن اپنے کاموں میں پوری چستی اور نشاط کے ساتھ صبح سویرے مشغول ہوجاتا ہے۔ راتوں کو لمبی محفلیں جماکر بیٹھے رہنا، انسان کے لیے ہرلحاظ سے نقصان دہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپؐ عشاء کی نماز سے قبل سونے اور عشاء کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند فرمایا کرتے تھے۔حضرت عمرؓ نے جب لوگوں کو یہ حکم دیا کہ ’’رات کو جلد سو جایا کریں‘‘ تو آپؓ کے پیش نظر یہی حدیث ِ رسولؐ اور حکمِ ربانی ہوگا ’’بے شک (پچھلی) رات کو اُٹھنا اور (عبادت میں مصروف ہو جانا) نفسِ امارہ کو کچلنے اور صحیح اور سچی بات کہنے کی عادت ڈالنے کے لیے مفید ہے۔‘‘ (المزمل73:6)
رات کی خاموشی اور تنہائی میں اللہ کی اطاعت و عبادت کا جو لطف آتا ہےوہ ناقابلِ بیان ہے۔ سکونِ قلب حاصل ہوتاہے۔ خاموش فضا میں دل و دماغ، آنکھیں اور کان، سوچ اور دھڑکن ہرچیز اللہ کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ رات کی سیاہ زُلفیں خشوع و خضوع سے دل کی دُنیا بھر دیتی ہیں اوررکوع و سجود، قیام وقعود، دُعاو مناجات ہرمرحلہ کیف و سُرور سےمالامال کردیتا ہے۔
حضرت عمرؓ نوجوانوں کے اندر قوت، صحت اور مردانگی کے آثار دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان نوجوان ظاہر و باطن ہرلحاظ سے اسلام کی شوکت و قوت کا مظہر بن جائیں۔ ایک نوجوان کو مریل چال چلتے ہوئے دیکھا تو پوچھا: ’’کیا تم بیمار ہو؟‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں امیرالمومنین، میں بالکل تندرست ہوں‘‘۔ اس پر آپ نے درہ لہرایا اور فرمایا: ’’پھر یہ مردنی تم پر کیوں چھائی ہوئی ہے؟ جواںمردوں کی طرح چلو‘‘۔
حضرت عمر ؓ اپنی رعایا کے ہرخاص و عام کو تذکیر ونصیحت کرتے رہتے تھے۔ اُمہات المومنینؓ کا مقام و مرتبہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ حضرت عمرؓ نے نماز پڑھاتے ہوئے سورئہ احزاب کی تلاوت کی اور ان آیات پر پہنچے، جن میں ربّ العزت نے اَزواجِ مطہراتؓ کو یا النساء النبی کہہ کر خطاب کیا ہے تو آواز بلندہوگئی۔ نماز کے بعد لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو بتایا: ’’اُمہات المومنینؓ کو وہ عہد یاد دلانا مقصود تھا، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے خصوصی طور پر نازل فرمایا تھا‘‘۔ سچی بات یہ ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں تذکیر اور یاد دہانی سےبے نیاز نہیں ہوسکتے۔ ارشاد ربانی ہے ’’نصیحت کیا کرو، بے شک نصیحت سے اہلِ ایمان کو نفع پہنچتا ہے۔‘‘ (الذاریات 51:55)
میاں بیوی کا جھگڑا:ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک اَزدواجی جھگڑا پیش کیا گیا۔ ایک عورت نے اپنے خاوند سے سرکشی کا معاملہ کیا۔ وہ اپنے خاوند کے ساتھ جانے کے لیے آمادہ نہ تھی اور علیحدگی کا مطالبہ کررہی تھی۔ آپ نے حکم دیا کہ عورت کو کسی ویران گھر میں بند کر دیا جائے۔ اگلی صبح آپ نے اسے بلا بھیجا اور پوچھا: ’’تم نے رات کیسے گزاری؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’جب سے میں اس شخص کے گھر گئی ہوں، آج پہلی رات ہے جو میں نے راحت اور سکون سے بسر کی ہے‘‘۔ یہ سن کر آپ نے مرد کو حکم دیا کہ اس عورت کو طلاق دے دے اگرچہ اس کے بدلے میں عورت کان کی ایک بالی ہی پیش کرے (خلع کی صورت میں عورت کو حق مہر واپس کرنا ہوتا ہے)۔
حضرت عمرؓ نے معمولی سی تفتیش اور سوال و جواب سے حقیقت پالی تھی۔ آپ نے محسوس کیا کہ اتنی شدید نفرت کے ساتھ میاں بیوی کا اکٹھےرہنا اخلاقی، دینی، سماجی، معاشرتی کسی بھی لحاظ سے مناسب نہ تھا۔ دین اسلام نے طلاق کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے، مگر جہاں میاں بیوی کا نباہ کسی صورت نہ ہوسکے، وہاں آخری چارئہ کار کے طور پر علیحدگی کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔
آپؓ مسجد میں آتے تھے تو ہرجانب نظر ڈالتے تھے۔ نمازیوں کو بھی دیکھتے اور مسجد کی صفائی پربھی توجہ فرماتے تھے۔ مسجد میں نماز ادا کرتے اور لوگوں کی تربیت کا اہتمام کرتے تھے۔ ایک دن مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حجاج بن ایمنؓ آئے۔ حضرت عمرؓ نے حجاج کو نماز پڑھتے دیکھا اور نماز کےبعد فرمایا: ’’اپنی نماز لوٹائو‘‘۔پھر انھیں نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ سمجھایا۔ نماز دین کا ستون ہے۔ اگر اسے درست نہ کیا جائے تودین کی عمارت کیسے ٹھیک اور مضبوط ہوگی؟
رعایا کی خبرگیری: حضرت عمر فاروقؓ دن بھر کی مصروفیات اور ذمہ داریوں سے تھک جاتے۔ رات کے پہلے حصے میں ذرا سا آرام کرتے اور پھر لوگوں کے احوال معلوم کرنے اور مصیبت زدگان کی دادرسی کے لیے مدینہ کی گلیوں اور مدینہ سے باہر کی آبادیوں کا چکّر لگایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ تاجروں کا ایک قافلہ مسجد نبویؐ کے باہر آکررُکا۔ رات کو امیرالمومنین نے عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو ساتھ لیا اور فرمایا: ’’آئو، ان تاجروں کے مالِ تجارت کی حفاظت کےلیے آج رات پہرہ دیں‘‘۔ چنانچہ دونوں جلیل القدر صحابی، تاجروں کے مال کے پاس رات بھر نوافل پڑھنے اور ذکروتلاوت میں مشغول رہے۔ حضرت عمرؓ چاہتے تو پولیس کے پہرے داروں کو بھی حکم دے سکتے تھے، مگر آپؓ نے دُنیا کےحکمرانوں کے لیے یہ اعلیٰ ترین مثال قائم کی۔ تاجروں کو علم بھی نہیں تھا کہ امیرالمومنینؓ خود ان کے مالِ تجارت کا پہرہ دے رہے ہیں۔
اللہ اور رسولؐ کے احکام کی پابندی :حضرت عمرؓ لوگوں کے حقوق، آرام اور راحت کا خیال رکھتے مگرحدود اللہ کی خلاف ورزی پر کبھی نرم رویہ نہ برتتے۔ ایک مرتبہ ایک عورت نے جاہلیت کے طرز پر نوحہ شروع کیا اورمنع کرنے پربھی نہ رُکی تو حضرت عمرؓ نے سختی کی۔ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ کے ایک بیٹے کی وفات پر حضرت ابوبکرؓ کی ایک بیٹی نے بین شروع کر دیا۔ عمربن خطابؓ، حضرت ابوبکرؓ اور ان کے خاندان کی بہت تکریم کرتے تھے ،مگر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کیے ہوئے کام کی کسی صورت میں، کسی شخص کو اجازت دینے کے روادار نہ تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کی اس بیٹی کو فوراً حکم دیا کہ نوحہ بند کردو ورنہ تمھیں باہر نکال دیا جائے گا۔
حضرت عمرؓکی ترجیحات میں سرفہرست قرآنی احکامات اور نبوی ارشادات کا احترام و اِتباع تھا۔ اس معاملے میں وہ کبھی سُستی یا مداہنت نہ برتتے تھے۔ ایک شخص غیلان بن ابی سلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے کر اپنا سارا مال اپنے بیٹوں کے درمیان تقسیم کر دیا۔ حضرت عمرؓ کو یہ اطلاع ملی تو فوراً غیلان کے پاس پہنچے اور فرمایا: ’’خدا کی قسم! میرا خیال ہے کہ تمھاری اجل قریب آگئی ہے اور شیطان مُردود نے تیرے دل میں یہ بات ڈالی ہے۔ یہ کام جو تُو نے کیا ہے، شیطانی کام ہے۔ خدا کی قسم! تمھیں یہ فیصلہ بدلنا ہوگا۔ مال کی غیراسلامی تقسیم کا فیصلہ منسوخ کرو۔ اوراگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تمھارا مال اسلامی قانونِ وراثت کے مطابق حق داروں میں تقسیم کروں گا اور ابورغال کی طرح تمھاری قبر پر پتھر برسائوں گا۔‘‘ یاد رہے ابورغال وہ شخص تھاجسے بنوثقیف نے اَبرہہ کے لشکر کے ساتھ راستہ بتانے کے لیے مکہ بھیجا تھا۔ عرب اس کی قبر پر مدتوں سنگ باری کرتے رہے۔
نمازِ تراویح کا باجماعت اہتمام: حضرت عمرؓ ، اُمت مسلمہ کی وحدت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ دین اسلام اتحادِ ملّت کا پیغام ہے۔ جو قومیں اپنی صفوں میں اتحاد برقرار نہ رکھ سکیں ان کا وجود بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ نوفل بن ایاس ہذلی سےمروی ہے: ’’حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہم لوگ رات کو مسجد نبویؐ میں مختلف گروپوں کی صورت میں عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ جس قاری کی آواز زیادہ دل کش ہوتی تھی، اس کے گرد زیادہ لوگوں کا حلقہ بن جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے دیکھا تو کہا: ’’ان لوگوں نے قرآنِ مجید کو بھی راگنی کا ذریعہ بنارکھا ہے۔ بخدامیں اس صورتِ حال کو بدل کے رہوں گا‘‘۔
اس کے بعد تین راتیں گزریں تو آپ نےحضرت ابیؓ بن کعب کو حکم دیا کہ وہ نمازِ تراویح کی امامت کرائیں۔ حضرت ابیؓ کی اقتدا میں صفیں بن گئیں اور حضرت عمرؓ سب سے آخری صف میں کھڑے ہوئے۔ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ابیؓ خوش الحانی اورترتیل سے قرآنِ مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اس موقعے پر فرمایا :’’اگرچہ یہ ایک نئی چیز ہے مگر یہ نئی چیز بہت اچھی ہے‘‘۔
فضلا صحابہ کرامؓ اُمت کی وحدت کا بڑا اہتمام کرتے تھے۔حضرت عمرؓ کی طرح وہ سب اس بات کے حریص تھے کہ اُمت میں انتشار نہ پیدا ہو۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ،منیٰ میں نمازِ قصر کے حق میں تھے،مگر ا نھوں نے وہاں نمازِ ظہر پڑھائی تو چار رکعت پوری کیں۔ ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: ’’اختلاف بُری چیز ہے۔ حضرت عثمانؓ، منیٰ میں قصر نہیں پڑھتے، اس لیے مَیں نے پوری نماز پڑھائی ہے۔ ویسے میرا خیال یہی ہے کہ یہاں پر قصر افضل ہےمگر اتحادِ اُمت اس سے اولیٰ ہے‘‘۔
فوری اصلاح: حضرت عمرؓ اپنی رعایا کے جملہ اُمور سے دل چسپی رکھتے تھے اور ان کی رفاہ اور بھلائی کا خاص خیال فرماتے تھے۔ لوگوں کی تکالیف کا ازالہ کرنا، ان کے نزدیک خلیفۂ راشد کا بنیادی فرض تھا۔ کہیں کوئی نازیبا حرکت دیکھتے تو فوراً اس کی اصلاح کی فکرکرتے کہ وہ ناسور نہ بن جائے۔ یقینا بیماری کا فوراً نوٹس لیا جائے اور اس کا علاج کیا جائے تو خرابی سے بچاجاسکتا ہے۔
ایک غلام نے ایک مرتبہ کچھ اشعار کہے، جن میں اس بات کا احتمال موجود تھا کہ اس نے کسی کنیز پر تہمت لگائی ہے اور اس پرقذف کی حد جاری ہوسکتی تھی۔ آپ نے معاملے کی تحقیق کی اور صاحب ِنظر حضرات کی رائے پوچھی۔ تحقیق سے پتا چلا کہ قذف کا ارتکاب نہیں ہوا، تو آپ نے حد جاری کرنے سے منع فرما دیا، مگر اس غلام کو آیندہ محتاط رہنے کی تلقین کی۔
شعروشاعری کی حدود: شعروشاعری فنون لطیفہ میں اعلیٰ درجے کا فن ہے۔ حضرت عمرؓ نے شعروشاعری کو ممنوع قرار نہیں دیا، مگر اسے پاکیزہ اور صاف ستھرا رکھنے کے لیے حدودمقرر فرمائے۔ اگر اس صنف ِ ادب کو کھلی چھٹی دے دی جائے تو بسااوقات بندگانِ حرص و ہوس اس کاایسا غلط استعمال کرتے ہیں کہ شعر حکمت اور جذبۂ ایمان پیدا کرنے کے بجائے فحاشی، عریانی اور اخلاق باختگی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ کسی قوم کاادب اور شعر اس قوم کی اخلاقی حالت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ایک ذمہ دار حکمران اس معاملے میں بے اعتنائی نہیں برت سکتا۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ہمارے شعرا و ادبا اورفنکار و ہدایت کار، کم و بیش سبھی لہوولعب اور عریانی و بے حیائی کے سوا کوئی فن پیش ہی نہیں کرتے۔ انھی لوگوں کا صحافت اور ابلاغِ عامہ پر قبضہ ہے۔ ریڈیو،ٹیلی ویژن،سنیما اور تھیٹر ہرجگہ انھی کا طوطی بولتا ہے۔ تہذیب کے نام پر بدتہذیبی کرتے اور ثقافت کے نام پر اخلاق سوز حرکات کو سند ِ جواز پیش کرتے ہیں۔ ہمارے ممالک کے ذمہ داران کو کیا ہوگیا ہے؟ بُرائی اور سیہ کاری کا دور دورہ ہے۔ جہاں نیکیوں کی فصلِ بہار پروان چڑھ سکتی ہے وہاں بُرائیوں کے جھاڑ جھنکاڑ کا ایک جنگل اُگ رہا ہے۔ جو وسائل تقویٰ کا پیغام عام کرسکتے ہیں، وہ بُرائی کے علَم بردار بن چکے ہیں۔
ہمہ صفت خلیفہ: حضرت عمرؓ کا اپنی رعایا کے ساتھ محض حاکم ومحکوم کا معاملہ نہ تھا۔ آپ نے محض اپنے جسم کو لوگوں کی خدمت کا خوگر نہ بنا رکھا تھا بلکہ آپ کے قلبی جذبات اور ہمدردی و محبت کے احساسات ہرلمحے آپ کو رعایا کی خدمت اور بھلائی کے لیے سرگرم رکھتے تھے۔ ان کے دُکھ بانٹتے اور مصائب پر انھیں تسلی دے کر صبر کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ بیماروں کی عیادت اور مصیبت زدوں کی اعانت کے لیے ان کے گھروں میں حاضری دیا کرتے تھے۔ کسی فرد کو کوئی حادثہ پیش آجاتا تو سب سے پہلے اس سے اظہارِ ہمدردی کے لیے آنے والا خود خلیفۂ وقت ہوا کرتا تھا۔
سعیدؓ بن یربوع کی بینائی ختم ہوگئی تو حضرت عمرؓ ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ اظہارِ ہمدردی بھی کیا اور محبت کے ساتھ نصیحت فرمائی: ’’نمازِ جمعہ اور پانچ وقت کی باجماعت نماز مسجدنبویؐ میں ادا کرنے کی کوشش کرنا‘‘۔انھوں نے عرض کیا:’’امیرالمومنین، میری بھی یہی خواہش ہے، مگر مجھے مسجد تک لےجانے والا کوئی نہیں ہے‘‘۔ حضرت عمرؓ نے اس خدمت کے لیے ایک غلام مقرر کر دیا۔
راستہ چلتے ہوئے بھی آپ ہر چیز پر نظر رکھتے اور ہرآواز پر کان دھرتے تھے۔ کہیں کوئی فساد دیکھا یا ٹیڑھ پن پایا، تو فوراً اس کی اصلاح فرما دی۔ اپنے آرام کے لیے بھی وقت مقرر تھا مگر وہ بڑا محدود اور مختصر تھا۔ دن رات کا زیادہ حصہ فرائض کی ادائیگی میں صرف ہوجاتا تھا۔ فارغ بیٹھنا ان کے نزدیک وقت کا ضیاع تھا۔ ایک مرتبہ کسی راستے سے گزرےوہاں کچھ نوجوان تیراندازی کی مشق کررہے تھے۔ ان میں سے ایک کا نشانہ خطا ہوا تو اس نے کہا: ’’اسیت‘‘۔دراصل وہ کہنا چاہتا تھا: ’’اسات‘‘۔ حضرت عمرؓ نے اس کا لفظ سن کر فوراً ٹوکا اور فرمایا: ’’تیراندازی میں چوک ہوجانے سے زبان کی چوک زیادہ بُری اور خطرناک ہے‘‘۔ پھر اس کے لفظ کی تصحیح فرمائی۔