عورت اور مرد۔۔۔گاڑی کے دو پہیے

213

اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں کا قوام بنایا ہے۔ قوام کے معنی نگراں، محافظ اور کفیل کے ہیں۔ عورتیں اپنی پیدائش اور فطری ساخت کے اعتبار سے صنفِ نازک کی حیثیت رکھتی ہیں۔ عورت کو اللہ نے رتبۂ عظیم سے نوازا ہے۔ جب یہ ماں ہے تو اس کے قدموں میں اولاد کی جنت ہے۔ جب یہ بیوی ہے تو شوہر کے لیے راحتِ جاں اور اس کی اطاعت سے جنت کی حق دار، اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنے والی اور اس کی اولاد کی پرورش کی ذمے دار ہے۔ بیٹی کی صورت میں باپ کے لیے جنت کے حصول کا ذریعہ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، اُن کو پڑھایا لکھایا اور باعزت طریقے سے ان کی شادی کی وہ جنت کا حق دار ٹھیرا۔ صحابہؓ نے پوچھا جس کی تین بیٹیاں نہ ہوں؟ تو آپؐ نے دو اور ایک کے بارے میں بھی یہی بشارت دی۔

بہن گھر کی لاج اور باپ بھائی کے لیے پگڑی کی شان ہے۔ گویا عورت کے یہ چار کردار ہیں۔ اس کے علاوہ عورت بے توقیر ہے۔ دولت اور عورت اُس وقت تک محفوظ ہیں جب تک وہ پردے میں ہیں۔

مرد و زن گاڑی کے دو پہیّے ہیں۔ دنیا کے تمام کاروبارِ زندگی کا بوجھ مرد پر ہے۔ رزق کی فراہمی سے لے کر زندگی کے تمام شعبوں میں مرد کا کردار مرکزی

حیثیت رکھتا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مرد اُسی وقت احسن طریقے سے یہ کردار ادا کرسکتا ہے جب عورت گھر کی ذمے داری سنبھالے۔ لیکن مغرب کا جدید معاشرہ ’’حقوقِ نسواں‘‘ کے نام پر عورت کو گھر سے باہر نکال کر مرد کے حصے کا کام بھی اس سے لیتا ہے اور کسی درجے اولاد کی پرورش اور گھر کی ذمے داری بھی نبھانے پر مجبور کرتا ہے، اور اس بات کی کھوکھلی دلیل پیش کرتا ہے کہ اس نے عورت کو آزاد کرکے مردوں کے برابر لاکھڑ کیا ہے۔ یہ عورت کے صنفی وجود اور اس کی نسوانیت پر سب سے بڑا ظلم ہے۔ اسلام نے تو عورتوں کو گھر کی ملکہ کا درجہ دیا ہے مگر آج مسلمان عورت مغرب کی اس ظالمانہ تہذیب سے متاثر ہوکر خود کو مرد کے برابر کھڑا کرنے کی دھن میں بازاروں، ملوں، دفتروں، کارخانوں اور ہوٹلوں میں غیر مردوں کی نہ صرف خدمت کرنے پر فخر محسوس کرتی ہے بلکہ ان کی ہوس پرست نگاہوں کا شکار بھی ہوتی ہے اور آئے دن زیادتی کے اسکینڈل بھی اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ سماجی اعتبار سے مردوں کا کردار زندگی کے بہت سارے شعبوں میں محدود ہوتا جارہا ہے مثلاً تعلیم، صحت، دفاتر، گارمنٹس فیکٹریاں وغیرہ۔ یہ کام کرکے گھر کا بوجھ اٹھانے والی خواتین مردوں کی بالادستی کو کسی صورت قبول نہیں کرتیں، لہٰذا ان کے شوہر ان کی تابع داری پر مجبور ہوتے ہیں۔

زن مریدی کی بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:

حقوقِ زوجین سے ناواقفیت:
وقتِ نکاح جن تین آیتوں یعنی سورہ آل عمران، سورہ النساء اور سورۃ احزاب کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے ان میں پانچ مرتبہ تقویٰ کا ذکر آیا ہے۔ گویا تقویٰ ہی زوجین کی خوش گوار اور پُرسکون زندگی کی ضمانت ہے جس سے آج کل کے شادی شدہ جوڑے نہ صرف ناواقف ہیں بلکہ اس کے برخلاف مغربی اور ہندوانہ تہذیب کے زیراثر اپنی زندگی کی خوشیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور نتیجتاً تلخیاں پیدا ہونے کے ساتھ طلاق و خلع کی نوبت آتی ہے، یا پھر مرد مجبور ہوکر اپنے کردارِ قوّامی سے دست بردار ہوجاتا ہے۔

بے جوڑ شادیاں:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے جس معیار کی ہدایت کی وہ ہے حُسن، دولت اور تقویٰ۔ مگر آپؐ نے تقویٰ کو ترجیح دینے کی ہدایت کی۔ آج کے دور میں دولت پہلی اور حُسن دوسری ترجیح ہے، اور مثالی جوڑے ملتے نہیں اور میاں بیوی حقیقی خوشی حاصل کر نہیں پاتے۔ شوہر مالی اعتبار سے کمزور ہو تو وہ لازماً بیوی کے زیراثر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔

زیادہ عمر میں شادیاں:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب لڑکے لڑکیاں بالغ ہوجائیں تو ان کی شادی کردیا کرو۔ زیادہ دنوں تک مجرد زندگی گزارنے سے جسمانی اور اخلاقی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ گرم، مرطوب اور میدانی علاقوں میں لڑکیاں 14 سال تک بالغ ہوجاتی ہیں اور لڑکے 16 سال کی عمر میں سنِ بلوغت کو پہنچ جاتے ہیں۔ آج کے اس دورِ جدید میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع اس عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی جنسی جبلت میں انتشار پیدا کردیتے ہیں جس کی وجہ سے اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں آئے دن جنسی جرائم کے واقعات عام ہیں اور طلبہ وطالبات کے علاوہ اساتذہ بھی ان اخلاقی جرائم سے دریغ نہیں کرتے۔ مگر شادیاں اس لیے نہیں ہوتیں کہ ہر ایک کا فلمی انداز اور ڈراموں میں پیش کردہ آسائش اور ہیرو، ہیروئن کی آئیڈیل زندگی کے خواب آنکھوں میں بسائے وقت گزر جاتا ہے، اور ہر جگہ 18 سال کی عمر سے پہلے شادی قانوناً جرم ہے۔ لہٰذا جب لڑکیاں ماسٹرز اور دیگر فنی تعلیم سے فارغ ہوتی ہیں اور لڑکے روزگار سے منسلک ہوتے ہیں اُس وقت تک پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ لہٰذا نہ آئیڈیل زندگی ملتی ہے اور نہ حقیقی ازدواجی خوشیاں۔

بھاری بھرکم جہیز:
بھاری بھرکم جہیز کے ساتھ دلہن کی سسرال میں آمد بھی زن مریدی کی وجہ ہے۔ جب دولہا سسرال والوں سے قیمتی سامان اور گاڑی کا مطالبہ کرتا ہے تو لازمی طور پر یہ بات مشہور ہوجاتی ہے کہ دولہا بک گیا ہے، اور بکنے والے بازاری مال کی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔

جوائنٹ فیملی سسٹم سے الگ ہو کر زندگی گزارنے کی وجہ سے شوہر کمانے میں مصروف رہتا ہے اور بیوی گھر کے تمام امور انجام دیتی ہے جس کی وجہ سے عملاً شوہر بیوی کی ہر بات کو ماننے پر مجبور ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ ویک اینڈ پر تو گھر پر اہتمام سے ناشتہ وغیرہ بننے کا تصور بھی ختم ہوگیا ہے۔ دوپہر 12 بجے شوہر بے چارہ حلوہ پوری کے لیے دکان پر قطار میں کھڑا نظر آتا ہے۔ ہمارے مشاہدے میں تو یہ بات بھی ہے کہ جو لوگ صبح سویرے دفتر جاتے ہیں اُن کو گھر کا ناشتہ بھی میسر نہیں ہوتا بلکہ وہ ناشتہ ہوٹل سے کرکے جاتے ہیں۔

راقم الحروف چونکہ سماجی ورکر ہے اس وجہ سے میاں بیوی کے تنازعات سے واقف ہے۔ آئیے زبان زدِ عام اس تماشے کو اشعار کی صورت میںدیکھتے ہیں جو کہ آج کل سوشل میڈیا پر من بھاتا ٹک ٹاک ہے۔ مذکورہ ’’شکوہ جواب شکوہ‘‘ نا معلوم شاعر کا ہے جو بے چارہ خود بھی اس آزمائش سے دوچار ہے۔

ازدواجی ’’شکوہ اور جوابِ شکوہ‘‘
کیوں زیاں کار بنوں سودِ فراموش رہوں
زن مریدی ہی کروں اور مدہوش رہوں
طعنے بیگم کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں کوئی بزدل ہوں کہ خاموش رہوں
جرات آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اک زوجہ سے ! خاکم بہ دہن ہے مجھ کو
تجھ کو معلوم ہے لیتا نہ تھا کوئی رشتہ ترا
سر پٹختے ہوئے پھرتا تھا کبھی ابا ترا
کس قدر خوش تھا میں جس دن تیرا ڈولا نکلا
تیرا ڈولا تو مگر موت کا گولا نکلا
تُو جو سوتی ہے تو سالن بھی پکاتا ہوں میں
ٹیپو روتا ہے تو فیڈر بھی بناتا ہوں میں
گڈی جاگے ہے تو جھولا بھی جھلاتا ہوں میں
پپو اٹھ بیٹھے جو راتوں کو کھلاتا ہوں میں
پھر بھی مجھ سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
میں وفادار نہیں تُو بھی تو دلدار نہیں
ہے بجا حلقۂ ازواج میں مشہور ہوں میں
تیرا بیرا، تیرا دھوبی، تیرا مزدور ہوں میں
زن مریدی کا شرف پا کے بھی رنجور ہوں میں
قصۂ درد سناتا ہوں کہ مجبور ہوں میں
میری مخدومہ میرے غم کی حکایت سن لے
ناز بردار سے تھوڑی سی شکایت سن لے
زچہ جن جن کے بجٹ میرا گھٹایا تُو نے
ہر نیا سال نیا گل ہے کھلایا تُو نے
رشتے داروں نے ترے، جان میری کھائی ہے
فوج کی فوج میرے گھر میں جو در آئی ہے
کوئی ماموں، کوئی خالو، کوئی بھائی ہے
بات کہنے کی نہیں تُو بھی تو ہرجائی ہے
کیسے غربت میں، میں پالوں تیرے غم خواروں کو
ان ممولوں کو سنبھالوں یا چڑی ماروں کو
میں وہ شوہر ہوں کہ خود آگ جلائی جس نے
لا کے بستر پہ تجھے چائے پلائی کس نے
تُو ہی کہہ دے تیرا حسن نکھارا کس نے
اس بلیک آؤٹ سے مکھڑے کو سنوارا کس نے
کون تیرے لیے درزی سے غرارا لایا
واسطہ دے کے غریبی کا خدارا لایا
پھر بھی مجھ سے یہ ہے گلہ کہ کماتا کم ہوں
لے کے شاپنگ کے لیے تجھ کو، میں جاتا کم ہوں
نوجوانی میں تجھے عیش کراتا کم ہوں
اور پلازہ میں تجھے فلمیں دکھاتا کم ہوں
کاش نوٹوں سے حکومت میری جیبیں بھر دے
مشکلیں شوہرِ مظلوم کی آساں کر دے
محفلِ شعر و سخن میں تو چمک جاتا ہوں میں
تری سرکار میں پہنچوں تو دبک جاتا ہوں میں
تُو جو بلغم بھی کھنکارے تو ٹھٹک جاتا ہوں میں
گھور کر دیکھے تو پیچھے کو سرک جاتا ہوں میں
پھر بھی مجھ سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
تُو ہے بیکار ترے پاس کوئی کار نہیں

بیوی کا جوابِ شکوہ:

تیری بیوی بھی صنم تجھ پہ نظر رکھتی ہے
چاہے میکے ہی میں ہو، تیری خبر رکھتی ہے
اُس کی سینڈل بھی میاں پر اتنا اثر رکھتی ہے
پَر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
شعر تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک ترا
دل، جگر چیر گیا نالۂ بے باک ترا
آئی آواز ٹھہر تیرا پتا کرتی ہوں
تُو ہے اَپ سیٹ میں ابھی تیری دوا کرتی ہوں
میں تجھے پہلے بھی اکثر یہ کہا کرتی ہوں
ارے کمبخت! بہت تیری حیا کرتی ہوں
اور تُو ہے کہ بڑی نظمیں ہے پڑھتا پھرتا
اپنے یاروں میں بڑا اب ہے اکڑتا پھرتا
میں دکھاتی ہوں ابھی تجھ کو نقشہ تیرا
نہ کوئی قوم ہے تیری نہ ہے شجرہ تیرا
بھائی تیرے ہیں سبھی مجھ کو تو غنڈے لگتے
یہ ترے کان کڑاہی کے ہیں کُنڈے لگتے
اپنی شادی پہ عجب رسم چلائی کس نے؟
نہ کوئی بس نہ کوئی کار کرائی کس نے؟
آٹو رکشے ہی پہ بارات بُلائی کس نے؟
منہ دکھائی کی رقم میری چرائی کس نے؟
کچھ تو اب بول ارے نظمیں سنانے والے!
مولوی سے میرا حقِ مہر چھڑانے والے
صاف کہہ دے مجھے کس کس پہ ہے اب کہ مرتا؟
رات کے پچھلے پہر کس کو ہے کالیں کرتا؟
کس کے نمبر پہ ہے سو سو کا تُو بیلنس بھرتا؟
چل بتا دے مجھے، اب کاہے کو تُو ہے ڈرتا
ورنہ ابّے کو ابھی اپنے بلاتی میں ہوں
آج جوتے سے مزا تجھ کو چکھاتی میں ہوں
اپنی تنخواہ فقط ماں کو تھمائی تُو نے
آج تک مجھ کو کبھی سیر کرائی تُو نے؟
کوئی ساڑھی، کوئی پشواز دلائی تُو نے؟
ایک بھی رسمِ وفا مجھ سے نبھائی تُو نے؟
لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزا جینے میں
کتنے ارمان تڑپتے ہیں مرے سینے میں
بھول ابا سے ہوئی اور سزا مجھ کو ملی
ماں بھی جان گئی کیسی بلا مجھ کو ملی
میں نے چاہی تھی وفا اور جفا مجھ کو ملی
میری تقدیر ہی دراصل خفا مجھ کو ملی
میرے میکے سے جو مہمان کوئی آتا ہے
رنگ ترے چہرے کا اُسی وقت بدل جاتا ہے
سامنے آنے سے ابا کے تُو کتراتا ہے
کتنا سادہ ہے کہتا ہے کہ ’’شرماتا ہے‘‘
تُو ہوا جس کا مخالف وہ تری ساس نہیں؟
میری عزت کا ذرا بھی تجھے احساس نہیں!
ہڈی پسلی میں تری توڑ کے گھر جاؤں گی
ارے گنجے! ترا سر پھوڑ کے گھر جاؤں گی
سریا گردن کا تری موڑ کے گھر جاؤں گی
سارے بچوں کو یہیں چھوڑ کے گھر جاؤں گی
یاد رکھنا! میں کسی سے بھی نہیں ڈرتی ہوں
آخری بار خبردار تجھے کرتی ہوں…!

حصہ