کٹی ہوئی چھائوں

177

قدرت نے ہمارے لیے لاکھوں برس کی میعاد میں جو ماحول تیار کیا تھا اور محفوظ بھی رکھا تھا اُسے ہم نے محض ڈھائی تین سو سال کی مدت میں تباہ کرڈالا ہے۔ قدرت کے نظام کے تحت ہر معاملہ متوازن ہوتا ہے۔ قدرتی ماحول میں جو کچھ بھی ہے وہ ایک خاص توازن، پیمائش اور حساب سے ہے۔ قدرت نے ہمارے لیے جو کچھ بھی خلق کیا ہے وہ چونکہ ایک خاص نظام کے تحت ہے اس لیے لازم ہے کہ اُس نظام کی مبادیات کا خیال رکھا جائے۔

صنعتی انقلاب نے ماحول کو ٹھکانے لگانے کے عمل کی ابتدا کی تھی۔ ابتدائی مرحلے میں ماحول کو صنعتی ترقی سے پہنچنے والا نقصان معمولی نوعیت کا تھا۔ اہلِ نظر نے تب بھی متوجہ اور متنبہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ تب چونکہ نقصان کا دائرہ وسیع نہیں ہوا تھا اس لیے وہ خود بھی معاملات کو بحرانی کیفیت کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھتے تھے اور اپنی بات پر زیادہ زور نہیں دیتے تھے۔

ایک صدی کے دوران سب کچھ الٹ پلٹ گیا ہے۔ دنیا بھر میں صنعتی ترقی کا عمل انتہائی تیز ہوگیا۔ امریکا اور یورپ نے صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے ماحول کو بچانے پر خاصی توجہ دی اور اِس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔

ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک نے صنعتی عمل شروع کیا مگر اُس کے لوازم پورے نہیں کیے۔ صنعتی اداروں کا فضلہ ڈھنگ سے ٹھکانے لگانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے نتیجے میں ماحول میں بگاڑ پیدا ہوا۔ اس بگاڑ نے توازن بگاڑ دیا۔ اب کیفیت یہ ہے کہ بہت سے خطوں میں انتہائی نوعیت کے مسائل نے جنم لیا ہے۔

صنعتی ترقی کے عمل نے دیہات میں رہنے والوں کو شہروں میں آباد ہونے کی تحریک دی۔ شہر ترقی کی علامت ہیں اور دیہات پس ماندگی کی۔ ترقی یافتہ ممالک میں دیہات بھی خاصے ترقی یافتہ ہیں مگر اس کے باوجود شہر پھر شہر ہیں۔ شہروں کی آبادی بڑھتی گئی اور دیہات میں رہنے والوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔ پھیلتے ہوئے شہروں کو زیادہ زمین کی ضرورت پڑی تو اُن سے ملحق دیہی علاقوں کو بھی شہر کا حصہ بنانے کا عمل شروع ہوا۔

شہری کلچر میں صرف چمک دمک کی اہمیت ہے، سادگی کی نہیں۔ شہر کنکریٹ کی عمارتوں سے بنے ہوتے ہیں۔ دیہات میں طرزِ تعمیر سادہ ہوتی ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ قدرتی ماحول زیادہ سے زیادہ حد تک برقرار رہے۔ وسیع و عریض کھیتوں اور میدانوں میں ایسا بہت حد تک ممکن ہوتا ہے۔ شہروں کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔

جب دنیا بھر میں شہروں کی توسیع شروع ہوئی تو قدرتی ماحول کے لیے بُرا وقت شروع ہوا۔ دور کیوں جائیے، کراچی سمیت پاکستان کے بڑے شہروں کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ چار پانچ عشروں میں انسان نے شہروں کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ کراچی میں سبزہ بہت ہوا کرتا تھا۔ باغات بھی تھے اور گھاس کے دیگر قطعات بھی۔ لوگ گھروں میں بھی درخت اور پودے لگاتے تھے۔ ایک دور تھا کہ نیو کراچی، کورنگی، اورنگی اور چند دوسری مضافاتی بستیوں کے بیشتر گھروں میں پھلوں کے درخت ہوا کرتے تھے۔ آم، جامن، پپیتے، شریفے، امرود اور بادام کے درخت عام تھے۔ یہ درخت سایہ بھی دیتے تھے اور پھل بھی۔ یہ تو ظاہری فائدے تھے۔ اِن درختوں کے دم سے شہر کا ماحول خوش گوار رہتا تھا۔ آب و ہوا کو صاف رکھنے میں بھی یہ درخت کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ شہر میں بارش بھی حساب کتاب سے ہوتی تھی۔ شہر بھر میں اِتنا سبزہ تھا کہ ماحول کو غیر متوازن ہونے کا موقع نہیں ملتا تھا۔

پھر یہ ہوا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ مالی فوائد کے لیے سبزے سے دور ہوتے چلے گئے۔ لوگوں نے تجارت اور کاروبار کی دیگر شکلوں کے لیے زمینیں ہتھیانے کا سلسلہ شروع کیا۔ نالوں تک کو نہ بخشا گیا۔ نالوں کے کنارے دکانیں کھڑی کردی گئیں، ٹِھیے لگادیے گئے۔ کھیل کے میدانوں پر بھی قبضہ کرلیا گیا۔ جو چند سرکاری باغات رہ گئے ہیں اُن کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔

گھروں میں آنگن ہوا کرتے تھے اور آنگن میں درخت اور پھولوں کی کیاریاں۔ پھر یہ ہوا کہ لوگوں نے تھوڑی سی اضافی آمدنی کے لیے آنگن ختم کرکے کمرے بنائے اور کرائے پر اٹھادیے۔ اس کے نتیجے میں شہر میں قدرتی ماحول کا توازن بگڑ گیا۔ گاڑیوں کی تعداد بڑھتی رہی اور شہر کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تناسب بڑھتا گیا۔ درخت ہوتے تھے تو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے شدید مضر اثرات کو کنٹرول کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے تھے۔ جب درخت ہی نہ رہے تو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کنٹرول کون کرتا؟

سوال صرف پاکستان کا نہیں، دنیا بھر میں لوگ سبزے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اِس کی واضح ترین شکل ہے جنگلات کے رقبے کا گھٹتے جانا۔ اس وقت ماہرین کے نزدیک ماحول کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ ہے جنگلات کے رقبے کا بہت کم رہ جانا۔ جنگلات دنیا بھر میں تھے اور ہیں، مگر اب وہ پہلی بات نہیں رہی۔ جنگلات کا رقبہ مسلسل گھٹتا جارہا ہے۔ جنگلات کے گھٹتے ہوئے رقبے نے ماحول کو انتہائی نوعیت کے عدم توازن سے دوچار کردیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں بارشوں کا نظام غیر متوازن ہوکر رہ گیا ہے۔ کہیں بہت زیادہ بارش ہورہی ہے اور کہیں بہت کم۔ دنیا بھر کے بڑے شہروں میں بارش سے سیلابی کیفیت کا رونما ہونا عام بات ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔

ایندھن اور فرنیچر کی لکڑی کے حصول کے لیے دنیا بھر میں جنگلات کے درخت بڑے پیمانے پر کاٹے جارہے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں یہ عمل کنٹرولڈ ہے یعنی ممکنہ نتائج کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ کہیں کہیں جنگلات کے اضافی درخت کاٹنا پڑیں تو اس حوالے سے باضابطہ پالیسی ترتیب دی جاتی ہے، جامع حکمت ِ عملی بروئے کار لائی جاتی ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ ماحول کو پہنچنے والا نقصان کم سے کم ہو۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ دنیا میں جنگلات کی کٹائی بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ ٹمبر مافیا کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دن رات درخت گرانے سے جنگلات کا رقبہ کس حد تک گھٹے گا اور اِس کے نتیجے میں ماحول پر کس نوعیت کے اثرات مرتب ہوں گے۔

پس ماندہ ممالک میں لوگ زیادہ سے زیادہ منفعت کا حصول یقینی بنانے کے لیے قدرتی وسائل کو سوچے سمجھے بغیر استعمال کرتے یا بروئے کار لاتے ہیں۔ درخت کاٹ کاٹ کر جنگلات کا رقبہ اس قدر کم کردیا گیا ہے کہ اب ایک طرف تو ماحول میں شدید عدم توازن پیدا ہوگیا ہے اور دوسری طرف جنگلی حیات کے لیے بھی خطرات بڑھ گئے ہیں۔ جنگلی جانوروں کے لیے جب رہائشی علاقے نہیں بچتے تو وہ آبادیوں کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں لوگوں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ چرندوں، پرندوں اور درندوں کو ڈھنگ سے یعنی جو طریقِ زندگی قدرت نے اُن کے لیے طے کیا ہے اُس کے مطابق جینے کے لیے قدرتی ماحول درکار ہوتا ہے۔ گھنے جنگلات میں جانوروں کو موزوں ترین ماحول ملتا ہے۔

پاکستان بھر کے شہروں میں درخت اِتنی بڑی تعداد میں کاٹے گئے ہیں کہ اب پرندوں کو گھونسلے بنانے میں انتہائی مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ چڑیاں، طوطے، کوے اور دیگر پرندے درخت ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اُنہیں انڈے دینے کے لیے محفوظ مقامات درکار ہوتے ہیں۔ اگر گھونسلے نہ بنا پائیں تب بھی وہ انڈے دینے کے لیے موزوں ماحول کی تلاش میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ کراچی میں باغات بھی برائے نام رہ گئے ہیں اور اُن میں سے بھی بیشتر اُجڑے ہوئے ہیں۔

جس طور سمندری آلودگی بڑھنے سے وہاں حیاتیاتی تنوع بُری طرح متاثر ہوتا ہے اور بہت سے جان داروں کی نسلیں معدوم ہوجانے کے خطرے سے دوچار ہوتی ہیں بالکل اُسی طرح بہت بڑے پیمانے پر جنگلات کے کاٹے جانے اور شہروں میں سبزہ اگانے پر زیادہ توجہ نہ دیے جانے سے بہت سے چرند اور پرند اپنی نسل کو برقرار رکھنے میں انتہائی نوعیت کی مشکلات محسوس کرتے ہیں۔

دنیا بھر میں جنگلات اگرچہ آج بھی بہت ہیں اور بہت گھنے بھی ہیں۔ امیزون کا جنگل انتہائی گھنا ہے۔ اس جنگل میں بہت سے جانور ایسے ہیں جنہیں باہر کی دنیا سے رابطہ بھی نہیں رکھنا پڑا۔ ان کے لیے خوراک بھی میسر ہے۔ دوسرے بہت سے خطوں میں بھی جنگلات بڑے پیمانے پر ہیں، تاہم مسئلہ توازن کا ہے۔ کہیں جنگلات برائے نام بھی نہیں اور کہیں بہت زیادہ ہیں۔ اس کے نتیجے میں قدرتی ماحول میں شدید عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ اس عدم توازن کو دور کیے بغیر دنیا کو ماحول کے حوالے سے بحرانی کیفیت سے محفوظ رکھنے میں مدد نہ مل سکے گی۔

آئیے، چند حقائق کا جائزہ لے کر اندازہ لگائیں کہ اس وقت دنیا جنگلات کے حوالے سے کہاں کھڑی ہے۔ 1990ء سے اب تک ہم جنگلات کا 13 لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد رقبہ کھوچکے ہیں۔ یہ رقبہ جنوبی افریقا کے رقبے سے زیادہ ہے۔

1990ء سے 2015ء کے دوران دنیا بھر میں ہر گھنٹے 1000 فٹ بال گرائونڈز کے مساوی رقبہ ہاتھ سے جاتا رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں جنگلات کے حوالے سے لوگوں کی ترجیحات کیا رہی ہیں اور وہ کس حد تک اس اہم معاملے کو نظرانداز کررہے ہیں۔ جنگلات کا رقبہ برقرار رکھنا ہی کافی نہیں بلکہ اُس میں اضافہ بھی لازم ہے۔ ایسے میں کمی؟ یہ تو گویا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہوا۔

بعض خطوں میں جنگلات کا رقبہ بہت تیزی سے کم ہوا ہے۔ لاطینی امریکا بھی اِن خطوں میں شامل ہے، بلکہ نمایاں ہے۔ ربع صدی کے دوران لاطینی امریکا سے 10 فیصد جبکہ صحرائے صحارا کے خطے کے ممالک سے 11 فیصد جنگلات غائب ہوچکے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا ہے کہ انسان نے ایک طرف تو لکڑی کے حصول کے لیے سوچے سمجھے بغیر درخت کاٹے ہیں اور دوسری طرف جنگلات کو صاف کرکے وہاں شہر اور قصبے بسائے جارہے ہیں۔

ربع صدی کے دوران بعض خطوں میں جنگلات کا رقبہ بڑھا بھی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا میں جنگلات کے رقبے میں 16.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جنوبی ایشیا کا معاملہ 5.7 فیصد کی بڑھوتری کا رہا ہے۔ یورپ اور وسطی ایشیا کے جنگلات کے رقبے میں اضافہ 2.3 فیصد رہا ہے۔ مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے میں جنگلات 2.1 فیصد بڑھے ہیں جبکہ شمالی امریکا میں یہ اضافہ ایک فیصد تک رہا ہے۔

جنگلات کے رقبے میں اضافہ کم ہے اور رفتار بھی سست ہے مگر اس کے باوجود حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اضافہ ہورہا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں بالخصوص اور پس ماندہ ممالک میں بالعموم جو معاشی کیفیت پائی جاتی ہے اس کے پیشِ نظر جنگلات کے رقبے میں اضافے کے بارے میں زیادہ خوش اُمید رہنے کی گنجائش بہت کم ہے۔

ایک بڑا اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں دو تہائی جنگلات صرف 10 ممالک میں واقع ہیں۔ 82 لاکھ مربع کلومیٹر کے ساتھ روسی جنگلات پہلے نمبر پر ہیں۔ 49 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے کے ساتھ برازیل کے جنگلات کا نمبر دوسرا ہے۔ 35 لاکھ مربع کلومیٹر جنگلات کے ساتھ کینیڈا تیسرے، 31 لاکھ مربع کلومیٹر جنگلات کے ساتھ امریکا چوتھے، 21 لاکھ مربع کلومیٹر جنگلات کے ساتھ چین پانچویں، 15 لاکھ مربع کلومیٹر جنگلات کے ساتھ افریقا کی جمہوریہ کانگو چھٹے، 13 لاکھ مربع کلومیٹر جنگلات کے ساتھ آسٹریلیا ساتویں، 9 لاکھ مربع کلومیٹر جنگلات کے ساتھ انڈونیشیا آٹھویں اور سات لاکھ مربع کلو میٹر جنگلات کے ساتھ پیرو اور بھارت نویں اور دسویں نمبر پر ہیں۔

یہ تو ہوا دس بڑے ’’جنگلات بردار‘‘ ممالک کا معاملہ، باقی دنیا کے پاس ایک کروڑ 30 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر واقع جنگلات ہیں۔ یہ شدید عدم توازن دنیا بھر میں ماحول کے حوالے سے انتہائی نوعیت کی خرابیوں کی راہ ہموار کرتا جارہا ہے۔ اس حوالے سے تمام حکومتوں کو مل بیٹھ کر جامع حکمتِ عملی ترتیب دینی ہے تاکہ جنگلات پوری دنیا میں ہوں اور کوئی بھی ملک جنگلات سے مکمل محرومی کی حالت میں نہ رہے۔ اس معاملے میں تاخیر کی گنجائش ہے نہ تساہل کی۔ جنگلات کی تباہی روئے ارض کی تباہی ہے۔ جنگلات کے رقبے کا گھٹنا انسانی آبادیوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے کیونکہ موسموں کے پیٹرن میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں آبادیوں کا حلیہ بگاڑ رہی ہیں۔

حصہ