آخر شب کے ہم سفر

117

(23)
گنگا اور برہمپُتر

ڈیک چیر پر ذرا آگے جھکا ہوا نوجوان مضطرب سرگوشی میں کہہ رہا تھا…’’ہم نے روپوشی سے باہر آنے کے بعد تم کو اتنے خط لکھے۔ ہر تیسرے روز، ہر ہفتے، ہر پتے پر، اتنے تار دیئے، اتنے سندیسے بھجوائے، تم نے ایک خط کا جواب نہ دیا۔ ہماری شدید پریشانی کا بھی تمہیں خیال نہ آیا۔ ہمیں طرح طرح کے اندیشوں نے بدحواس کردیا تھا۔ شاید تم پکڑی گئی ہو۔ شاید بنوئے بابو نے تمہیں گائوں بھیج دیا ہو۔ شاید زبردستی تمہاری شادی کردی گئی ہو، پھر اونیل کے ذریعے معلوم ہوا کہ تم خیریت سے ہو۔ اس کے بعد تمہارے چپ سادھ لینے کی وجہ بالکل سمجھ میں نہیں آئی۔

’’ہماری عقل حیران ہے کہ تم نے یہ رویہ کیوں اختیار کیا۔ ناراض ہو تو صرف دو سطرں میں ناراضگی کی وجہ ہی بتلادیتیں۔ ہم نے بار بار تمہیں لکھا، کسی وجہ سے خفا ہوگئی ہو تو بتلادو۔ اور معاف کردو۔ آخر یہ تم کو ہوا کیا؟‘‘

نیم تاریک اور سنسان ڈیک کے سرے پر صرف سگریٹ کی روشنی چمکتی رہی۔ ڈیک کا فرش بھیگا ہوا تھا۔ کچھ دور پر ایک خلاصی ایک بنچ پر محوِ خواب تھا۔

’’ہم شروع شروع میں تفصیل سے تمہیں کچھ نہیں لکھ سکتے تھے‘‘۔ سگریٹ ایک جھٹکے سے پدما میں جاگرا۔

’’پچھلی جولائی سے… کھلنا کی اس اندھیری رات سے لے کر نومبر دسمبر تک ہم اِدھر اُدھر روپوش رہے۔ سندر بن میں تم سے ملاقات کے اس خطرناک ایڈونچر کے بعد ہم بہت محتاط ہوگئے تھے۔ اس لیے تمہیں کوئی دو حرفی پیغام بھی نہ بھجوا سکے۔ اور اتنے مصروف رہے کہ غم جاناں کے متعلق سوچنے کی مہلت ہی نہ ملی۔ دیولی والوں کو دسمبر میں رہائی حاصل ہوئی اور ہم … کدھر دیکھ رہی ہو، کیا ہماری آواز بھی ناگوار ہے؟‘‘

دیا سلائی کا مختصر سا شعلہ لپکا۔ دوسرا سگریٹ، زیادہ مضطرب، آرزدہ لہجہ۔ ’’کیا تم اس لیے خفا تھیں کہ ہم دسمبر کے بعد تم سے ملنے بنگال نہ آسکے؟ ہمیں معلوم نہ تھا واللہ تم اس قدر دیوانی لڑکی ہو…‘‘

دوسرا سگریٹ بھی تین چارکش کے بعد اندھیرے مہیب دریا میں جاگرا۔

’’اگر ہمیں ایک ضروری کام سے اچانک یہاں نہ بھیجا گیا ہوتا تو شاید اب بھی نہ آسکتے۔ کیا تم دوسرے گروپ سے جاملی ہو؟‘‘

جہاز نرم ردی سے آگے بڑھتا رہا۔

’’کیا مجھے تم سے خفا نہیں ہونا چاہیے؟ میرے ساتھ یہ رویہ اختیار کرنے کی آخر… اوہ ڈیم یُو…‘‘

تیسرے سگریٹ کے لیے ماچس جلانے کی کوشش، مگر ماچس سیلی ہوئی تھی۔

’’کیا تم کو… کسی اور سے… کسی اور… کوئی اور…‘‘ ذرا کانپتے ہوئے ہاتھ۔ ماچس کی ڈبیا بھی دریا برد ہوئی۔

’’شٹ اپ‘‘۔ دوسری ڈیک چیئر پر بیٹھی ہوئی لڑکی نے یک لخت تلملا کر جواب دیا۔

وہ اور آگے جھکا۔ لڑکی کی شکل دھیان سے دیکھی اور آہستہ سے مسکرایا۔ ’’شکر ہے‘‘۔

’’کیا شکر ہے؟‘‘ وہ بلّی کی طرح غرائی۔

دریا پر تیز ہوا چل رہی تھی۔ لڑکی نے سردی کی وجہ سے کندھے سکیڑ کر ساری کا آنچل مہم سے اچھی طرح لپیٹا۔ نوجوان نے کھادی ریشم کی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ اس نے چادر اُتار کر لڑکی کے کندھوں پر ڈالی۔ لحظے بھر کے توقف کے بعد بڑی نرمی اور احتیاط سے لپیٹ دی۔ لڑکی ذرا سا کپکپائی۔

بے چاری بے وقوف، نالائق بچی۔

’’آپ کو… آپ کو سردی لگ جائے گی‘‘۔ لڑکی نے دھیرے سے کہا۔

’’تم سے مطلب؟ مر گئے تو شہید محبت کہلائیں گے، قسم خدا کی تین ساڑھے تین سال سے کیا تھیٹریکل عشق چل رہا ہے۔ لاحول ولاقوۃ‘‘۔

کُروک، چار سو بیس، دھوکے باز۔

’’بی، اے پاس کرلیا؟‘‘ نوجوان نے پھر بات کی۔

’’کرلیا‘‘۔

’’فرسٹ ڈویژن؟‘‘

’’جی‘‘۔

’’ارے واہ شاباش۔ مبارک ہو۔ تو اب گویا تمہاری شادی کا اشتہار اخباروں میں دیا جاسکتا ہے‘‘۔ اس نے کھنکار کر کہا۔ ’’بی اے پاس، امور خانہ داری میں ماہر، رابندر سنگیت کی استاد، کائستھ کیا… لڑکا برسر روزگار ہونا ضروری ہے۔ کم از کم پی سی ایس کو ترجیح دی جائے گی‘‘۔

کمینہ، بے ہودہ، لوفر۔

وہ اُٹھنے لگی، نوجوان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے پھر کرسی پر بٹھا دیا۔ ’’آپ اب کہیں بھاگ کر نہیں جاسکتیں۔

’’آپ کا دماغ خراب ہے‘‘۔ لڑکی نے آہستہ سے کہا۔ اور پھر اُٹھنے لگی۔

’’یہ تم بھاگی کہاں جارہی ہو؟‘‘

’’عبدالقادر جالی کے ادھر چوکنے بیٹھے ہیں، اگر آپ کی اس… کیا کہنا چاہئے۔ بے تکلفی پر ان کی نظر پڑ گئی‘‘۔

’’پچھلے سال لگ بھگ اسی موسم میں آپ کہاں تشریف رکھتی تھیں، غالباً یاد ہو‘‘۔

’’ایک مرتبہ حماقت کی تھی، اب دوبارہ نہیں ہوگی۔ گڈ گریشس… خیال آیا ہے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں…‘‘

’’تم واقعی بدل گئی ہو‘‘۔
’’جی ہاں‘‘۔
اب وہ خاموش ہوگیا۔

شاید قصہ واقعی ختم ہوچکا ہے۔ ایک سال بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ یا شاید محبت ختم ہونے کی کوئی منطقی وجہ نہیں ہوتی۔ میں بے کار اس لڑکی کا تعاقب کررہا ہوں، یہ وہ لڑکی ہی نہیں ہے۔

کئی منٹ گزر گئے۔ اچانک وہ بولی۔ ’’آپ… آپ کو کس طرح معلوم ہوا کہ… آپ نے آخر اس جہاز پر مجھے کیسے پکڑلیا…‘‘

وہ خوش ہوگیا، نہیں۔ یہ وہی لڑکی ہے، ابھی کچھ نہیں بدلا۔

’’کس طرح پکڑ لیا…؟‘‘ اس نے بشاش لہجے میں جواب دیا۔ ’’اس طرح کہ میں ڈھاکے میں سیدھا آپ کے گھر پہنچا۔ جو سنسان پڑا تھا۔ چکر کاٹ کر شاگرد پیشے کی طرف گیا، وہاں آپ کی ریاست کے منیجر مولوی عبدالقادر کی اہلیہ نے ضروری معلومات فراہم کیں کہ بچے کوئی مترا بابو ہیں ان کے ہاں گئے ہوئے ہیں۔ آپ کسی خاندانی شادی کے لیے عبدالقادر کے ہمراہ فرید پور تشریف لے گئی ہیں اور فلاں تاریخ کو عبدالقادر کے ساتھ ہی واپس آجائیں گی۔ کھوکھو کی بیماری کی وجہ سے۔ چنانچہ میں نے فی الفور فرید پور کا ٹکٹ کٹایا۔ میں فرید پور… فرید پور کے لوگوں سے واقف ہوں۔ آپ کی پشی ماں کے گھر والوں کو بھی جانتا ہوں۔ یہاں چپکے سے پتہ لگانا بہت آسان تھا۔ کہ آپ کس روز، کس وقت نرائن گنج کے لیے روانہ ہورہی ہیں۔ چنانچہ اسی جہاز کا ٹکٹ اس ناچیز نے بھی خرید لیا۔ باقی حالات آپ نے پردہ یہ میں پر خود ملاحظہ فرمائے‘‘۔

’’آپ ڈھاکے میں میرا انتظار کرسکتے تھے‘‘۔

’’نہیں کرسکتے تھے۔ آپ کے سلسلے میں ہم منطقی نہیں ہیں‘‘۔

دونوں دھندلے سائے ساکت بیٹھے رہے۔ چاروں طرف بادل اور دریا ایک ہوگئے تھے۔ ڈیک چیرز سے کچھ دور لمبی سفید داڑھی والا مسلمان بوڑھا کپتان اپنے کھلے کیبن کے سامنے جنگلے پر جھکا کھڑا تھا، اس کے نزدیک لگی ہوئی بے حد طاقتور سرچ لائٹ نے دریا کو حد نظر تک روشن کر رکھا تھا۔

’’روزی کیسی ہے؟‘‘ کچھ دیر بعد نوجوان نے دریافت کیا۔

’’روزی… محمود دا… یہ سب لوگ… آپ کو نہیں معلوم…؟‘‘

’’ہاں۔ سربندر نے ڈھاکے میں مجھے بتایا… ان لوگوں کو کچھ سمجھایا نہیں جاسکتا…‘‘ اس نے گہری سانس لی۔ ’’اچھا کہیں سے ماچس لے کر آئو‘‘۔

کس مزے سے حکم چلاتے ہیں، میں کنیز ہوں ان کی۔ زر خرید۔ چرنوں کی داسی کتنے ہی کامریڈ بن جائیں اصلیت میں رہیں گے وہی نہ خالص ہندوستانی لارڈ اینڈ ماسٹر… میں نہیں لاتی ماچس واچس۔

’’ارے بھائی ذرا بھاگ کر ایک ماچس لے آئو نا کہیں سے… عبدالقادر میاں سے مانگ لو۔ وہ ضرور بیڑی پیتے ہوں گے‘‘۔

’’میں ان سے جا کر کہوں کہ ذرا دیا سلائی دینا جو میرے ایک عزیز دوست کو چاہئے جو مجھے بھاگ لے جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں‘‘۔

’’جب تم (عنقریب ان شاء اللہ) بھاگو گی تو بنوئے بابو لامحالہ یہی شبہ کریں گے کہ ان کے ذریعہ ہی تم ایک میاں بھائی کے ساتھ اُڑنچھو ہوئیں‘‘۔

’’اس خیال میں بھی نہ رہئے گا۔ عبدالقادر میاں میں انتہائی فیوڈل وفاداری ہے۔ وہ آپ کے مولوی ابوالہاشم نہیں ہیں…‘‘ دفعتاً وہ چپ ہوگئی۔

’’وہ… وہ ہم نے ایک سہانا… ناقابلِ یقین خواب دیکھا تھا نا…‘‘
’’ہاں…‘‘لڑکی نے آہستہ سے کہا۔
کچھ دور پر فوجیوں سے لدا نیم تاریک اسٹیمر گزر رہا تھا۔

’’عجیب بات ہے‘‘۔ لڑکی نے پھر جلدی سے موضوع تبدیل کیا۔ ’’جب کامریڈ رندھیوے کا بیان چھپا پہلی بار کہ یہ جنگ اب عوامی جنگ ہے… تو یہ قوم پرست اتنی شدت سے پارٹی کے خلاف کیوں ہوگئے۔ خصوصاً روزی… وہ تو بہت ہی ایمیچیور نکلی۔ میں نے اسے کئی بار۔ کئی بار سمجھایا … کہ… آپ نے ایک بار لکھا تھا نا خط میں کہ کمیونسٹ انٹرنیشنل اس بے جگری سے ناتسیت اور فاشزم کا مقابلہ…‘‘

’’بہت خوب، آپ کا جواب نہیں۔ ہمارے عریفوں کے ذریعے آپ اپنے دوستوں کو ایجوکیٹ کرتی ہیں۔ مگر ہمیں دو سطریں لکھنے کی آپ نے زحمت گوارا نہ کی۔ اب بھائی ہمیں یقین ہوگیا کہ تمہارے دماغ کی ایک چول ضرور ڈھیلی ہے‘‘۔

’’کمال ہے…‘‘ لڑکی نے مزید گڑبڑا کر بے حد سنجیدگی سے سیاسی گفتگو جاری رکھی۔

’’۸ تاریخ کو کانگریس بھی سی، پی، آئی سے علیحدہ ہوگئی۔ حالانکہ… حالانکہ… پنڈت نہرو ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے فاشزم کے خطرے کو پہچانا تھا…‘‘ لڑکی نے اس انداز میں بات ختم کی گویا اخبار کا ایڈیٹوریل پڑھ رہی تھی۔ پھر اس نے چہرہ پھیر کر بے نیازی سے دریا کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔

’’جی ہاں… آپ بالکل صحیح فرماتی ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ آپ کی سیاسی سوجھ بوجھ اور بالغ نظری ترقی پر ہے‘‘۔

دریا کی متلاطم لہریں اسٹیمر سے ٹکرایا کیں۔ کبھی کبھی پانی کی چھینٹیں اُڑ کر اُوپر آجاتی تھیں۔ لڑکی کے بال بھیگ گئے۔ رات تیزی سے ختم ہورہی تھی۔ نوجوان نے گھبرا کر گھڑی پر نظر ڈالی۔

دفعتاً لڑکی نے سوال کیا۔ ’’آپ یہاں کس کام سے آئے ہیں؟ یا… راز کی بات ہے؟‘‘

’’نہیں، کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ ہمیں پرونشل مسلم لیگ کے لیڈروں سے بات چیت کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے‘‘۔

مسلم لیگ… نواب قمرالزماں چودھری… ارجم… جہاں آ…

جہاز دریا کی گدلی موجوں پر ڈولنے لگا۔ اس کے انجن کی آواز ایک دم اونچی ہوگئی۔ ہاتھ پائوں ٹھنڈے پڑ گئے۔

’’جیوتی دا، روزی محمود دا، یہ سب بھی مجھ سے بے حد خفا تھے، روزی نے تو مجھے غدار اور ٹوڈی کہا… حد ہے…‘‘

’’تم نے ان کا ساتھ کیوں نہ دیا…؟ تم تو دینیش بابو کی بھتیجی ہو…‘‘

’’آپ نے جو اتنی سختی سے منع کردیا تھا‘‘۔

’’کب؟‘‘

’’اپنے پچھلے خط میں‘‘۔

’’مائی گڈنس‘‘۔

لڑکی نے اور زیادہ ہڑبڑا کر سر جھکالیا۔ ’’حالانکہ مجھے اتنی شرمندگی سی تھی کہ میں کاکاکو LET DOWN کررہی ہوں‘‘۔

’’مائی گڈنس…‘‘نوجوان نے دہرایا۔ پھر اس نے آگے جھک کر پوچھا۔ ’’کیوں خفا تھیں۔ ہمارے خطوں کا جواب کیوں نہیں دیتی تھیں؟‘‘

وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ نوجوان بھی اُٹھا۔ اور چاروں طرف نظر ڈالی۔ ’’اس پُرسکون جہاز کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ اس وقت سارے دیس میں آگ لگ رہی ہے‘‘۔ اس نے ملول آواز میں کہا۔

لڑکی جا کر سرچ لائٹ کے نزدیک کھڑی ہوگئی۔ وہ بھی اس کے برابر آگیا۔

’’شاید میں بزدل ہوگئی ہوں‘‘۔ لڑکی نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

(جاری ہے)

حصہ