زندگی اور زندگی کی لاشیں۔۔۔

220

اپنی لمبائی اور دکھ بھری مسافتوں کے باوجود…
کیا ہی سہانی رات ہے تو… اے رات!

یہی وہ رات ہے جب مجھے کفرستان سے گلو خلاصی ملی!
دور افتادہ یمن سے مدینے کی طرف اور پھر مدینے سے خیبر کی سمت یمن کے قبیلہ دوس کے اسی (80) خاندان اسلام قبول کرنے کے لیے کشاں کشاں چلے آرہے تھے اور ان سب کے آگے آگے اس قافلے کے ایک نوجوان کے ہونٹوں پر لرزتا ہوا یہ نغمہ انسانی سینوں اور کائنات کی فضائوں میں ارتعاش پیدا کرتا جارہا تھا:

’’اپنی لمبائی اور دکھ بھری مسافتوں کے باوجود…
کیا ہی سہانی رات ہے تو…! اے رات!

یہی تو وہ رات ہے جس میں میں نے کفرستان سے نجات پائی‘‘۔

جس دن قبیلہ دوس میں اس قبیلے کے ایک فرد حضرت طفیل بن عمرو دوسی اسلام قبول کرکے آئے تھے اور انہوں نے بتایا تھا کہ محمدؐ کون ہیں؟ اور کیا کہتے ہیں۔ تو اسی دن ابوہریرہؓ کے سینے میں جذبہ شوق کی چنگاری بھڑک اٹھی تھی… ’’خدا کے سوا کوئی اور خدا نہیں‘‘ کے کلمہ حق نے حق پسندوں کے کانوں پر دستک دی تو مدتوں سے بند پڑے ہوئے تیرہ و تار سینوں کے زنگ آلود کو اڑ کھلنے لگے… غیرت بندگی کا اتھاہ جذبہ جاگ اٹھا… جیتے جاگتے انسانوں نے پتھر کے بے جان ’’خدائوں‘‘ کی طرف نفرت کے ساتھ منہ پھیرلیا اور… والہانہ بے تابانہ خدائے واحد کے آخری رسولؐ کی جانب اپنے اپنے گھروں سے چل کر کھرے ہوئے وہ لوگ اپنے پیچھے اپنے گھر، اپنے اموال، اپنے اعزہ، اپنے خاندان، اپنے دوست اور اپنے احباب کو چھوڑ کر آرہے تھے… لیکن ان سب حسین اور لذیذ چیزوں سے ان کے دلوں کو وحشت ہورہی تھی۔ وہاں رہ کر انہوں نے اب تک سب کچھ پایا تھا مگر اپنے خدا… سچے خدا… کو کھودیا تھا… وہاں ان کی دنیا ضرور آباد تھی مگر ان کی آخرت ویران اور اجاڑ ہورہی تھی… وہاں ان کی آنکھیں ضرور روشن تھیں مگر روح و دل کو کفر و شرک کی تاریکیوں نے اندھا کر چھوڑا تھا اور آج اگرچہ وہ ایک ایسی اجنبی، انجانی بستی کی طرف کوچ کررہے تھے جہاں کے رہنے والوں کو انہوں نے دیکھا تک نہ تھا لیکن یہ احساس ان کے قلب و روح کو سارے جہان سے بے نیاز کئے دے رہا تھا کہ آج وہ اپنے ’’خدا‘‘ کو پانے والے ہیں… ’’خدا‘‘ جس کو پانے کی آرزو تاریخ کے ہر ہر دور میں انسانوں نے اپنا سب کچھ دائو پر لگایا ہے جس کے لطف و کرم کی ایک نظر حاصل کرنے کے لئے لوگوں نے بے جھجک اپنی جانیں نثار کی ہیں ’’خدا‘‘ جس کو دل کی گہرائی میں ایک بار بسا لینے کے بعد آدمی ہمیشہ کے لئے صرف اسی کا ہوکر رہ گیا… ہاں اسی خدا کو پانے کا احساس قبیلہ دوس کے اس قافلہ کو دنیا کی اس عظیم ترین کامیابی سے ہم کنار کئے ہوئے تھا جس کو شرح صدر کہتے ہیں۔ روح کی یہی خوشی تھی جس کے آگے جسم کے تمام احساسات گرد ہوکر رہ گئے تھے۔ زندگی کے تمام شب و روز بیچ کر انہوں نے ہنسی خوشی یہ ایک رات خریدی تھی… آہ وہ ایک رات جو ان کی زندگی کو کفر جیسی غلیظ ترین لعنت سے پاک کرکے ان کے سینوں میں خدا کی یاد کا چراغاں کرتی جاتی تھی۔ جس رات کے بعد ایک سورج آسمان پر اور ایک اس سے بھی روشن سورج دیدۂ دل کے افق پر طلوع ہونے والا تھا… کفر سے اسلام کی طرف اٹھتا ہوا ہر قدم ان کو ظلمت سے ایک بلند ترین روشنی کی طرف لئے جارہا تھا۔ کتنی قیمتی تھیں اس سفر کی تکلیفیں اور کس قدر عزیز بھی!… ریت کے اونچے نیچے ویران ٹیلوں کے درمیان ٹھوکریں کھانے میں بھی کیسا روحانی کیف تھا!… تپتی ہوئی دوپہر اس قافلے کے اوپر آگ برساتی ہوئی آئی اور گزر گئی۔ مگر یہ قافلہ آگے بڑھتا رہا۔ برف میں ڈوبی ہوئی ریگستانی رات نے ان کو اپنی برفانی گرفت میں لینا چاہا مگر دل کی آنچ کچھ اور تیز ہوگئی۔ زندگی کے تمام سرد و گرم دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے اور حضرت ابوہریرہؓ کا بے قرار نغمہ اس قافلے کے قدموں میں دل کی بے تابیاں دوڑاتا چلا گیا۔

ابوہریرہؓ یمن کے کفرستان میں ایک عورت کی چاکری کرتے تھے۔ آج وہ خدا کی غلامی کا قلادہ اپنی گردن میں ڈالنے کے لئے بڑھے جارہے تھے تو انسانی غلامیوں کی زنجیریں ان کے سوز ایمانی سے پگھلتی جارہی تھی۔ اب تو تیزی سے وہ وقت قریب آرہا تھا جب کہ وہی عورت جو ان کی مالکہ تھی بہت جلد ان کی بیوی میں تبدیل ہوجانے والی تھی۔

مدینے میں پہنچ کر پتا چلا کہ خدا کا رسولؐ اس وقت خیبر میں جہاد و عزیمت کی گھاٹیاں طے کررہا ہے۔ یہ قافلہ خیبر کی طرف چل کھڑا ہوا اور ابوہریرہؓ کے نغمہ حق پسندی نے نغمے سے روحانی ہوک کی شکل اختیار کرلی… سینے جذبات کی شدت سے لرزنے لگے۔ کائنات کی فضائوں میں ارتعاش سا پیدا ہوگیا… نغمے کی والہانہ گونج فرش سے اٹھ کر عرش کو چھو رہی تھی۔ خدا خود ابوہریرہؓ کا گیت سن رہا تھا۔ ملائکہ گوش بر آواز تھے۔ مدینے کی ہوائوں میں سانس لیتے ہوئے ابوہریرہؓ کی روح پکار اٹھی تھی:

’’اپنی لمبائیوں اور دیکھ بھری مسافتوں کے باوجود…
کیسی سہانی رات ہے تو!… اے رات!!
اس رات تو میں نے دارالکفر سے نجات پائی ہے‘‘۔

یمن میں حضورؐ کا ذکر سن کر جو شخص دیکھنے کے لئے تڑپ اٹھا تھا آخر اس نے خیبر میں حضورؐ کی کھلی ہوئی آنکھوں سے دیکھ ہی لیا۔ وہ انسانؐ ان کی نظروں کے سامنے تھا جس کو دیکھ کر لوگ نادیدہ خدا پر ایمان لارہے تھے… ایمان لارہے تھے اور اس ایمان پر جانیں لٹا رہے تھے۔ وہ دامن رسالت سے اس طرح لپٹے کہ پھر دنیا کی کوئی چیز ان کو حضورؐ سے تھوڑی دیر کے لیے بھی جدا نہ کرسکی۔ ان کی زندگی کا واحد مشغلہ اب اس کے سوا کچھ بھی نہ رہا تھا کہ وہ حضورؐ کو دیکھتے رہیں، دیکھتے ہیں اور حضورؐ کی باتیں سنتے رہیں، سنتے رہیں اور دنیا کو سناتے رہیں۔ بھوک نے ہزار چاہا کہ اس بندۂ مومن کو خدا کے رسول سے کچھ دیر کے لیے جدا کرکے روٹی کی فکر میں مشغول کردے۔ مگر علم کمانے کا جنون، روٹی کمانے کی فکر پر چھاتا ہی چلا گیا… فاقوں پر فاقے گزر گئے۔ بھوک کی شدت سے وہ غش کھا کھاکر گرے مگر گرے بھی تو مسجد نبویؐ ہی کے سامنے گرے۔ خدا کے سوا کسی سے سوال کرتے تو ڈرتے تھے کہ خدا خفا ہوجائے گا اور خود روٹی کمانے کے لیے نکلتے تو یہ احساس ہی دل پر تیشے چلا دیتا تھا کہ خدا کے رسول ان کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں گے۔ اس طرح ایمان لانے کے بعد حضورؐ کی محبت کے جو چار سال ان کو ملے ان کا ایک ایک لمحہ انہوں نے علم و عمل سیکھنے میں صرف کیا… کیسی روشن ہوگی وہ دو آنکھیں جنہوں نے مستقل چار سال تک آنحضرتؐ کو دیکھا تھا… آہ! وہ کان جن میں چار سال تک صرف محمدؐ کی آواز گونجتی رہی!… ہائے وہ زبان جس سے تقریباً ساڑھے پانچ ہزار احادیث رسولؐ کے چشمے پھوٹے اور ہائے وہ دل جس میں خدا اور خدا کے رسولؐ کے سوا اور کوئی نہ تھا۔

حضورؐ کی پلکوں کے سائے میں انہوں نے زندگی کے وہ حقائق سمجھے تھے جن کو سمجھ لینے کے بعد دنیا کے دکھ اور سکھ دونوں ہی آدمی کی نظر میں ہیچ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ دنیا والوں کو ہزار فکریں ہوتی ہیں مگر ابوہریرہؓ کو صرف ایک فکر تھی… آخرت کو بنانے اور خدا کو منہ دکھانے کی فکر… اور یہ ایک ہی فکر اتنی شدید… ایسی ہمہ گیر اور بے پایاں تھی کہ تمام دن وہ فکر آخرت سے تڑپتے اور احادیث رسولؐ سنا سنا کر دوسروں کو تڑپا دینے کی دھن میں پھرا کرتے اور تمام تمام رات ان کے گھر کا مصلے ساجدوں سے آباد رہتا تھا۔ ایک رات گھر کے تین افراد پر اس طرح تقسیم کی گئی تھی کہ کبھی وہ خود جائے نماز پر نظر آتے تھے تو کبھی ان کی بیوی کبھی ان کا غلام… خدا ہی جانتا تھا کہ یہ آخرت کا سفر کیسا سخت سفر ہے!… ابوہریرہؓ جو دن رات اسی سفر کے لیے راد راہ کی تیاریوں میں غرق تھے جب آخرت کا ذکر کرتے تھے تو وہاں کی محرومیوں کے تصور ہی سے ان کی ہچکیاں نکلنے لگتی تھیں۔ لیکن ہم… کہ ہمارے دامنوں میں کچھ بھی نہیں۔ اب اسی سفر کے لئے کیسے اطمینان سے پابہ رکاب بیٹھے ہیں۔ خدا ہی جانے ہمارا کیا حشر ہونے والا ہے!… ہم… کہ ہمیں ہر ایک کی فکر ہے۔ مگر خود اپنی فکر کی ہمیں فرصت نہیں ہے!… ہمیں تو نجانے کیا ہوا ہے کہ خود ہماری غفلت بھی ہمیں نہیں تڑپاتی۔ مگر حضرت ابوہریرہؓ… انہوں نے عمر بھر صرف آخرت کا علم سیکھا تھا۔ دوسروں کو بھی دنیا کے کاموں میں بہت مشغول دیکھتے تو یہ اس خیال سے لرز اٹھتے اور گھبرا اٹھتے تھے کہ کیا یہ لوگ آخرت کو تھوڑی سی دیر کے لیے بھول ہی گئے ہیں! ایک دن اسی خیال سے ایسی وحشت سوار ہوئی کہ بیٹھے بیٹھے تڑپ کر اٹھے اور سیدھے بازار پہنچ کر بھرے بازار کو فکر آخرت کی ایک ہی چیخ سے سر پر اٹھالیا۔

’’ارے کچھ کہو تو سہی!… تمہیں کس چیز نے روک رکھا ہے آخر!‘‘

یہ درد بھری پکار سن کر رہ گیر اور دکان دار سب ہی چونک اٹھے… حیران ہوکر ابوہریرہؓ کی طرف دیکھا جن کی پُر نور آنکھوں سے اس وقت ایک بڑی وحشت سی ٹپک رہی تھی۔

’’آخر کس شے سے…؟ لوگوں نے ان سے اپنے رکے رہنے کی تشریح چاہی۔

’’اس سے کہ وہاں رسولؐ اللہ کی میراث بٹ رہی ہے‘‘۔ وہ ماتم انگیز آواز میں بولے: ’’اور تم لوگ ہوکہ یہاں بیٹھے ہوئے ہو‘‘۔

’’کہاں؟… کس جگہ حضورؐ کا یہ ترکہ تقسیم ہورہا ہے‘‘۔ لوگوں نے دولت دنیا کے تصور سے جلدی جلدی پوچھنا شروع کیا۔

’’مسجد میں اور کہاں؟‘‘ حضرت ابوہریرہؓ نے جواب دیا۔

یہ جواب سنتے ہی لوگ اس خیال سے دوڑے ہوئے آئے کہ مسجد میں ہو نہ ہو، حضورؐ کی کچھ پیچھے چھوڑی ہوئی دولت مسلمانوں میں تقسیم ہورہی ہے لیکن وہاں جاکر دیکھا تو یہ دیکھا کہ کوئی دولت نہیں بٹ رہی۔

’’وہاں تو کچھ بھی نہیں بٹ رہا ہے‘‘۔ لوگوں نے واپس آکر ابوہریرہؓ سے شکایت کی۔ ’’وہاں تو کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں، کچھ قرآن اور کچھ لوگ حرام و حلال کے متعلق آنحضرتؐ کی باتیں کررہے ہیں اور بس… آخر وہ میراث کہاں بٹ رہی ہے جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا؟‘‘

لوگوں کی یہ باتیں سنیں تو حضرت ابوہرہرہؓ نے فرط حسرت و یاس سے اپنا سینہ پیٹ لیا… اس طرح پکار اٹھے جیسے سچ مچ دورے پڑے ہوں۔

’’تم لوگوں پر ہزار حیف!… ارے یہی تو نبیؐ کی میراث ہے‘‘۔

راستے میں ایک بار آخرت کی اسی ادھیڑ بن میں چلے جارہے تھے کہ نزدیک سے ایک عورت کا گزر ہوا جس کے کپڑوں سے عطر کی خوشبو آرہی تھی۔ یہ خوشبو کی لپٹ ابوہریرہؓ کے دماغ پر بجلی بن کر گری۔ گھبرا کر پوچھا:

’’کیا تم مسجد میں نماز پڑھ کر آرہی ہو؟‘‘
’’جی ہاں…‘‘
’’تو… کیا… مسجد جانے کے لیے کپڑوں کو مہکایا تھا…؟
’’جی… ہاں‘‘۔

’’میں نے رسولؐ سے سنا ہے‘‘۔ حضرت ابوہریرہؓ نے درد بھری آواز میں فرمایا کہ مسجد جانے کے لئے جو عورت خوشبو لگاتی ہے اس کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک وہ غسل نہ کر ڈالے۔ یعنی اس خوشبو کو بالکل نہ دھو ڈالے…‘‘

آخرت کی خونچکاں محرومیوں سے خود بچنے اور دوسروں کو بچانے کا یہ جذبہ جمعہ کے دن دیدنی ہوتا۔ جب امام کے آنے تک حضرت ابوہریرہؓ رقت بھری آواز میں حضورؐ کی باتیں سنا سا کر نمازیوں کے سینے میں ہلچل ڈال دیتے تھے۔ وہ بستی میں جدھر سے گزرتے، ایمان اور علم کا سوز بکھیرتے چلے جاتے… لوگ، آخرت کے لیے بے قرار لوگ ان کے پیچھے پیچھے اس طرح دوڑتے تھے جیسے پروانے کسی شمع پر ٹوٹے پڑ رہے ہوں۔

شقیا اصبحی نے ایک بار یہ منظر دیکھا کہ ہزاروں لوگ ایک آدمی کو پروانہ وار گھیرے ہوئے ہیں اور حدیث رسولؐ سننے کی درخواستیں کررہے ہیں۔ یہ آدمی ابوہریرہؓ تھے۔

ہمیں کوئی ایسی حدیث سنایئے جس کو آپ نے حضورؐ سے سنا ہو۔ سمجھا بھی ہو اور خوب جان لیا ہو‘‘۔ لوگوں نے عرض کیا۔

’’ہاں ایسی ہی حدیث سناتا ہوں‘‘۔ یہ کہا اور سنانا چاہا مگر یہ حدیث آخرت کی ایک سخت پکڑ کی حدیث تھی۔ ایک حدیث جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح ریاکاری اور نفاق کے جراثیم دلوں کی گہرائیوں میں پکڑے جائیں گے تو شہید، عالم و قاری اور فیاض (سخی) بھی سروں کے بال پکڑ کر دوزخ کی طرف گھسیٹے جائیں گے… اس لیے یہ حدیث سنانے کے لئے جوں ہی حضرت ابوہریرہؓ نے بولنا چاہا، ہونٹ لرزنے لگے، دل شق ہونے لگا۔ دہاڑیں مار کر روئے اور غش کھا کھا کر تین بار زمین پر ڈھیر ہونے لگے۔ تین بار کی ناکام کوشش کے بعد وہ بہ مشکل حدیث سنا سکے۔ اس بڑے بھاری دن کی خبر پر مشتمل حدیث جب دلوں کی چوریاں اور سینوں میں چھپے ہوئے کھوٹ پکڑے جائیں گے۔ جب بہت سے مسجدوں میں آنے جانے والوں کے اندر سے بت خانے برآمد ہوں گے اور زبان سے اللہ اللہ کرنے والوں کی آستینوں سے اینٹ پتھر کی دنیا کے سینکڑوں بت نکلتے چلے آئیں گے… جب جنت کے جھوٹے مدعیوں کو یونہی نہیں، جنت دکھانے کے بعد دوزخ میں جھونک ڈالا جائے گا…

خلوص دل سے اللہ کی پرستش کرنے ہی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ غم و نشاط دکھ اور سکھ، اشک اور تبسم دونوں ہی آخرت کے سفر کا توشہ بن جاتے ہیں۔ یقیناً ایک سچے مومن کے سوا کسی بھی آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ غریبی اور امیری دونوں میں ایک سی قلبی کیفیت برقرار رکھ سکے۔ حضرت ابوہریرہؓ یقیناً ایک ایسے ہی مومن تھے جنہوں نے سخت ترین فاقہ کشی اور ناداری میں جس خدا کو ادائے صبر کے ساتھ یاد کیا، اسی خدا کی یاد ان کی بہترین خوش حالی کے دور میں بھی جذبہ شکر سے انہیں تڑپاتی رہی۔(باقی صفحہ11پر)

حضرت عکرمہؓ کا گزر رات کے وقت حضرت ابوہریرہؓ کے مکان کی طرف سے ہوا تو انہوں نے سنا کہ خدا کی کبریائی کے نعروں سے ان کا مکان رہ رہ کر گونج اٹھتا ہے۔ پتا چلایا تو ان سے یہ معلوم ہوا کہ خدا کا یہ احسان یاد آرہا ہے کہ کبھی میں جس عورت کا ادنیٰ ملازم تھا وہی عورت ایک خدمت کیش بیوی بناکر میری دنیا میں داخل فرمادی گئی ہے۔ یہی جذبہ شکر تھا جو انہیں مجبور کرتا تھا کہ اپنی شدید ناداری کے بعد آنے والی خوش حالی کا اظہار عملی طور سے کریں اور دیا کو دکھائیں کہ خدا نے اپنے غلام کو کس کس طرح نوازا ہے۔ چنانچہ دولت آئی تو انہوں نے اعلیٰ کپڑے بھی پہنے۔ ایک دن کنان کے رومال سے ناک پونچھ رہے تھے کہ اپنے عجز اور خدا کی شان کبریائی کے احساس نے ان کے جذبہ شکر کو دو آتشہ بنادیا۔ خود بخود کہنے لگے:

’’اللہ اللہ! ابوہریرہؓ آج ایک دن یہ بھی ہے کہ تو کنان کے کپڑے سے ناک صاف کرتا ہے، کبھی تو ہی تو تھا کہ فاقوں کے مارے بے ہوش ہوہر کر گرا کرتا تھا اور لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ابوہریرہؓ دیوانہ ہوگیا ہے…‘‘

زندگی کے سرد و گرم اور خشک و تر سے ایمان کو باسلامت لے جانے کے بعد آخر وہ دن بھی آیا جب زمین پر چلنے پھرنے والا آدمی مرنے کے لیے بستر پر لیٹتا ہے تو اس کی ساری دنیا اور ساری زندگی بستر مرگ کی شکنوں میں سمٹ آتی ہے۔ اس دن جینے کے بعد آرزومند روتے ہیں مگر اس دن کی آہٹ پاکر مومن کی خوشی کی حد نہیں رہتی کہ اب وہ اللہ سے ملاقات کرنے جارہا ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ بستر علالت پر کروٹیں بدلتے ہوئے حضرت ابوہریرہؓ کبھی اس خیال سے رو پڑتے تھے کہ سفر جتنا طویل ہے توشہ اتنا ہی قلیل ہے۔ تو کبھی یہ خیال زخموں پر مرہم رکھ دیتا تھا کہ وہ تو اپنے مولا کے پاس جارہے ہیں۔ یہ خیال آتا تو بے ساختہ چہرہ خوشی سے کھل جاتا تھا۔ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰنؓ عیادت کے لیے آئے تو اصولی طور پر انہوں نے کہا: ’’خدا تمہیں صحت عطا فرمائے‘‘۔

’’میرے خدا!!‘‘ حضرت ابوہریرہؓ بے تابانہ پکار اٹھے ’’مجھے بس اب دنیا کی طرف واپس نہ کردینا!… میرے خدا!‘‘

پھر صحت گویا دنیا میں کچھ اور جینے کی دعا دینے والے کی طرف نظر ڈالی۔

’’وہ زمانہ بہت جلد آنے والا ہے‘‘ ضعف اور ایمانی درد سے لبریز آواز سنائی دی۔ ’’جب آدمی اپنی موت کو سونے چاندی کے ڈھیروں سے زیادہ پسند کرے گا… تم زندہ رہوگے تو دیکھوگے کہ جب کسی قبر پر سے کسی کا گزر ہوگا تو وہ آرزو اور حسرت کرے گا کہ کاش! میں خود اس مرحوم کی جگہ زیر زمین محو خواب ہوتا!…‘‘

آج وہ آدمی تو ہماری نظروں سے اوجھل ہے جس نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہ کھایا تھا… جو ایمان کا فدائی، عمل کا پروانہ اور علم دین کے لیے سو حریصوں کا حریص تھا… مگر وہ ہولناک زمانہ تو ہمارے سامنے ہے جس میں زندگی کے عشاق پر بھی زندگی یاس و حسرت ہوکر رہ گئی ہے۔ جب سونے چاندی کے ڈھیر حسرت سے آدمی کا حال زار تک رہے ہیں اور آدمی محض اس محرومی کی لعنت میں گرفتار ہوکر فرط غم سے اپنا گلا گھونٹ رہا ہے کہ اس کے پاس خدا کا دیا تو سب کچھ ہے مگر خود ’’خدا‘‘ نہیں ہے۔

خدا حضرت ابوہریرہؓ اور ان کی والدہ ماجدہ کو فردوس برین میں حضورؐ کے قدموں میں جگہ عطا فرمائے جو آج سے تیرہ سو سال پہلے ہمیں اس زمانے کی خبر دے کر پوری طرح چونکا گئے تھے… امت مسلمہ اور دین حنیف کا کتنا بڑا محسن تھا وہ ابوہریرہؓ!!

اسلاف میں ایک ایسے قدر شناس بزرگ بھی گزرے ہیں جو حضرت ابوہریرہؓ اور ان کی والدہ ماجدہ کے لیے دعائے مغفرت کرنے ہی کو اپنے لیے سب سے بڑا توشہ آخرت سمجھتے تھے کیونکہ حضرت ابوہریرہؓ نے بہت عرصے تک اپنی ماں کے اصرار کفر پر خون کے آنسو بہائے تھے اور پھر حضورؐ کی دعا کی برکت سے جب ان کے دل میں بھی خود بخود ایمان کی دولت ابل پڑی تو ماں اور بیٹے دونوں کو اور ان دونوں کے لئے دعائے مغفرت کرنے والوں کو خدا کے رسولؐ نے مغفرت کی دعا دی تھی… اس طرح خدا نے ابوہریرہؓ کو فدائے رسولؐ کی دعائیں حاصل کرنے کا ایک سدا بہار، ایک لافانی واسطہ بنادیا ہے۔

حصہ