دل کو سمجھانا ہوگا

160

’’شاپنگ سے واپسی پر میرے لیے Lays بھی لیتے آئیے گا۔‘‘سارہ نے امی سے التجا کی۔
’’اچھا…‘‘ امی نے ہامی بھرتے ہوئے کہا۔
’’سارہ کو Lays نہیں کھانے۔ امی جان پھر آپ کیوں لائیں گی؟‘‘ زینب نے اپنی چھوٹی بہن سارہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اس سے پہلے کہ امی کچھ کہتیں سارہ پھٹ پڑی ’’مجھے کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا؟اب آپ بتائیں گی؟‘‘
’’سارہ!ایسا کیوں کہہ رہی ہو؟‘‘ زینب نے حیران ہوتے ہوئے استفسار کیا۔
’’کب تک میں آپ کی بات مان کر اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتی رہوں گی؟‘‘سارہ جو پچھلے کئی مہینوں سے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیے ہوئے تھی‘ اب وہ اس راستے سے واپس پلٹنے کا خیال لیے زینب کے روبرو کئی سوال لیے کھڑی تھی۔
’’جب تک ہم بہ حثیت مسلمان اس دھرتی پر آخری سانس لیتے‘ تب تک ہم کفار کی قوت کو ختم کرنے میں اپنا بائیکاٹ جاری رکھیں گے ان شاء اللہ۔‘‘ زینب نے پُرعزم لہجے میں سارہ کو جواب دیا۔
’’کوئی فائدہ نہیں آپ کے بائیکاٹ۔‘‘ سارہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔
’’سچ بات ہی تو کہہ رہی ہے سارہ۔‘‘امی نے مایوس لہجے میں سارہ کی تائید کی۔
’’تمام تر مشکلات سچائی کی راہ میں حائل ہو کر بھی اسے نہیں روک سکتیں۔‘‘ زینب نے امی کے مایوس لہجے کو بھانپتے ہوئے کہا۔
’’آپ کو علم ہے کہ مجھے Lays کھانا کتنے پسند ہیں۔ پیپسی اور کوکا کولا میرے پسندیدہ مشروبات ہیں۔ ایسے ہی میری کتنی دل پسند اشیا جنہیں آپ نے اسرائیلی مصنوعات کہہ کر مجھ سے بائیکاٹ کرنے کا کہا۔ کیا صرف ہم ہی وہ مسلمان ہیں کہ جو ان مصنوعات کا بائیکاٹ کریں…؟صرف ہمارے بائیکاٹ سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔ آپ کیوں بے وقوف بن رہی ہیں؟ ہمیں کیوں بے وقوف بنا رہی ہیں؟‘‘سارہ جلے بھنے لہجے میں بولی۔
’’سنو پیاری سارہ ! تم جانتی ہو ناں کہ ُامت ِ مسلمہ پر غزہ میں اسرائیل اور اس کے ساتھیوں نے جنگ کی جو آگ بھڑکائی ہے وہ آگ ساری امتِ مسلمہ کو جلا کر راکھ کر دے گی۔ تم حیران ہو گی کہ اس آگ کے لیے ایندھن بھی امت ِ مسلمہ سے لیا جا رہا ہے اور وہ ایندھن اسرائیل اور اس کے ساتھیوں کی وہ مصنوعات ہیں جو امت کے لوگ صبح شام دھڑا دھڑ استعمال کر رہے ہیں۔‘‘
زینب نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا جب کہ سارہ شرمندہ سر جھکائے زینب کو سن رہی تھی۔
’’تم لوگ کیا دوسروں کی جنگ اپنے گھر میں لے آئی ہو۔ بس کرو۔چپ ہو جاؤ۔‘‘ امی نے کوفت بھرے انداز میں کہا۔
’’یہ دوسروں کی جنگ نہیں ہے۔ یہ ہم سب کی جنگ ہے۔ مسلمان ایک امت ہیں۔ایک جسم کی مانند ہیں۔ فلسطین اور غزہ ہمارے جسم کا ایک حصہ ہے۔ اس کے مسلمان ہمارا اپنا وجود ہیں۔ہم انہیں خود سے کیسے الگ کر سکتے ہیں؟کبھی نہیں…کسی صورت بھی نہیں…یہ محض خود فریبی ہے۔ اگر وہ قائم نہ رہے تو ہم بھی زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ اس سے پہلے کہ یہ نوبت آئے ہمیں بھی اپنا اپنا حصہ ضرور اس جنگ میں ڈال لینا چاہیے۔‘‘ زینب نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’‘زینب بیٹی! تم کیا سمجھتی ہو کہ ہمارے گھر ایسی مصنوعات نہ آنے سے انہیں کوئی فرق پڑے گا؟‘‘امی نے بھی اپنی بات پر زور دیا۔
’’اگر ہم اسرائیل اور اس کے ساتھیوں کو جنگ کے لیے ایندھن دینا چھوڑیں گے تو کل قیامت کے روز اپنے رب کے سامنے سرخرو ہو سکیں گے۔ ہم سے صرف ہماری کوششوں کے متعلق اللہ تعالیٰ پوچھیں گے۔ کسی دوسرے کی کوششوں کے متعلق ہمیں جواب دہ نہیں ہونا۔ ہمیں صرف اپنے حصے کا کام کرنا ہے چاہے وہ ایک قطرے یا ایک ذرے جتنا ہی کیوں نہ ہو۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اپنے حصے کا کام کرے گا تو یقینا عمل کے یہ ننھے قطرے مل کر وہ سمندر بن جائیں گے جو دشمنان اسلام کو ڈبو کر رکھ دے گا۔‘‘ زینب نے پرجوش انداز میں کہتے امی کی جانب دیکھا۔
’’زینب بیٹی! ہم اپنے حصے کا کام ضرور کریں گے۔ تم بالکل سچ کہہ رہی ہو اور اگرچہ سچائی پر چلنا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔‘‘ اب کی بار امی نے زینب کی تائید کی۔
’’سارہ! کیا تم پسند کرتی ہو کہ تم اسرائیل اور اس کے ساتھیوں کی مصنوعات خریدو تاکہ تمہارا حصہ بھی فلسطین اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر آگ بن کر برسے…؟‘‘ زینب نے سارہ سے استفسار کیا۔
’’نہیں…کبھی نہیں… میں ایسا بالکل پسند نہیں کرتی۔نہ مجھے Lays کھانے ہیں نہ اسرائیل اور اس کے ساتھیوں کی مصنوعات مجھے پسند ہے۔ میں بھی اپنے حصے کا کام کروں گی۔‘‘ سارہ نے یہ کہہ کر ساری تاویلوں کو اپنے پاؤں کی مضبوط ٹھوکر سے ہواؤں میں بکھیر دیا۔

حصہ