واقعہ کربلا میں خواتین کا کردار

191

ماہ محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی واقعات کربلا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کربلا ایک حقیقت ایک تحریک ایک مشن اور ایک مقصد کا نام ہے۔

حضرت امام حسینؓ کی اپنے اہل خانہ سمیت قربانی نے رہتی دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ’’اگر اسلامی ریاست اپنے بنیادی اصولوں سے انحراف کرے تواہل ایمان محض تماشائی بن کرنہیں رہ سکتے۔‘‘ کلمہ حق کی بلندی اور ریاست کو عدل پر قائم رکھنے کے لیے مومن اپناسب کو قربان کر سکتا ہے۔

قرآن مجید کلام الٰہی ہے اور انسان کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہوا ہے اس میں جتنا حصہ مردوں کا ہے اتنا ہی حصہ عورتوں کا بھی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ بہت سی جنگوں میں مردوں کے ساتھ عورتو ں نے بھی شرکت کی۔

’’بنی آدم‘‘ کا لفظ مرد و عورت دونوں پر صادق آتا ہے۔ اس میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں کیوں کہ مرد اور عورت دونوں معاشرے کی تشکیل میں برابر کے شریک اور ایک دوسرے کے لیے محتاج بھی ہیں۔ فرق صرف روش میں ہے۔

عورت کی گود سے انقلاب جنم لیتا ہے عورت کی تربیت سے معاشرہ خوش حال اور امن پسند رہتا ہے۔ عورت انسانیت ساز ہے۔ عورت کی تخلیق سے انسان کی تخلیق ہے عورت کا اہم فریضہ انسان سازی ہے ۔واقعہ کربلا نے انسانیت کو سرخ رو کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کوحیاتِ نو بخشی ہے۔

شہادت امام حسین نے جو حق و صداقت ، حب الی اعلائے کلمتہ الحق اور اللہ زمین پر اللہ کے نظام کا جو پیغام دیا اس میں خواتین کی بے مثال قربانیاں روشن ہیں۔ اپنے پیاروں کی قربانیاں پیش کرنے کے بعد یہ جری خواتین امام علیہ السلام کی مدد کے لئے خیموں سے سیے نکل کر دشمن پر حملہ آور ہوئیں۔ گو کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کے حوصلے کمزور و پست ہوتے ہیں‘ مشکلات و پریشانی میں جلد ہمت ہار دیتی ہیں۔ لیکن میدان کربلا میں ہزار مشکلات و پر بائی کے باوجود تاریخ شاہد ہے کہ کسی خاتوں کا شکوہ اپنے شو ہر سے اپنے بھائی‘ بیٹوں سے رقم نہیں۔

تین تین روز کے فاقے، پیاس کے باوجود زبان سے اپنے شوہروں ، بھائیوں اور مردوں کو شوقِ شہادت دلاتی رہیں۔ ظلم و ستم سے سہمے ہوئے بچوں کو سنبھالتی رہیں۔ ان مثالی خواتین نے باطل کے مقابلے میں اپنے معصوم بچوں کو بھوک و پیاس کی شدت سے بلکتے دیکھنا گوارہ کیا لیکن دینِ اسلام کی کشتی کو ڈوبنے نہیں دیا۔

حضرت زینبؓ، حضرت ام کلثومؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت سکینہؓ، حضرت فضہ و دیگر خواتین نے غیر عادلانہ جنگ کے ظاہری نتائج سے باخبر ہونے کے باوجود جوانوں کو ترغیب اور حوصلہ دلاتی رہیں اور اپنے جگر گوشوںکی شہادتوں پر ان کی ہمتوں اور جذبوں میں لغزش نہ آئی۔ حسب استطاعت و صلاحیت کے ساتھ مشکلات مصائب کو برداشت کرتے ہوئے مقصد امام حسینؓ اور شہادت امام حسینؓ کے پیغام کو پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

کسی تحریک کا پیغام لوگوں تک پہنچانا بہت زیادہ اہمیت کاحامل ہے۔ کربلا کی تحریک کا پیغام کربلا کی اسیر خوا تین نے عوام الناس تک پہنچایا۔ ان کی بے نظیر قربانی و کردار سے تاریخ کربلا کامل نظر آتی ہے۔ کربلا کی خواتین کے اعمالِ حسنہ اور جدوجہد دورِ حاضر کی خواتین کے لیے مشعل راہ ہیں۔ جہالت کے خوف میں دم توڑتی انسانیت آج بھی زندہ ہو نے کے لیے منتظر ہے۔

نصرت اسلام کی راہ میں پہاڑ کی مانند ثابت قدم ان خواتین کا کردار آج بھی زندہ و مشعل راہ ہے اور دعوت دیتا ہے کہ دینِ اسلام کی ترویج اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے اپنی خواہشات و مفادات کی قربانی دی جائے کہ عورت نسلوں کی امین ہے معاشرے کا اہم کا رکن اور بنیادی ستون ہے۔

شہادت امام حسینؓ کا پیغام شخصی غلامی سے نکل کر خدا پرستی، انسان دوستی، مساوات، اخوت و محبت ہے۔

امام عالی مقام کا ایثار۔ قربانی تاریخ اسلام کا رخشندہ باب ہے جو جرأت پسندوں کے لیے اعلیٰ نمونہ ہے اور اسلامی انقلاب، اصول و بقا کے لیے تاریخ اسلامی میں رقم رہے گا۔

کربلا کے شہدا اپنی ماؤں کے لیے انمول سرمایہ تھے۔ کربلا کے اس نظام کو دنیا کے ہر گوشے تک پہنچانا ہر عورت کی ذمہ داری ہے۔ حضرت زینبؓ نے اپنی تقریروں کے ذریعے یہ ثابت کر دیا کہ یہ جنگ اسلام کی بقا کی جنگ تھی اقتدار کے حصول کی نہ تھی۔اس وقت حضرت زینب بھائی کے شانہ بشانہ رہیں اور ایک مشاورت کرنے والی وزیر کا کردار ادا کیا۔ دوسرا کردار واقعہ کربلا کے بعد ادا کیا جب مصائب کا پہاڑ ٹوٹا تو لٹے ہوئے قافلے کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن گئیں اور باہمت سپہ سالار ، لیڈر اور عالمہ کا کردار ادا کیا۔

موجودہ حالات متقاضی ہیں کہ بہ حیثیت عورت رب کریم نے جو ذمہ داری عطا کی ہے اس کو کماحقہ ادا کریں۔ خواتین کی گود سے انقلاب جنم لیتا ہے انہی کی تربیت سے معاشرہ خوش حال اور بے خطر ہوتا ہے۔ اگر خواتین کو ان کی ذمہ داریوں کا ادراک ہو تو وہ اپنے مثبت کردار سے معاشرے کو جنت بنا سکتی ہیں۔ خواتین انسان ساز ہیں اور ان کا اہم فریضہ انسان سازی، معاشرہ سازی ہی ہے۔

حصہ