(تیسری اور آخری قسط)
رومی جشن زحل 25 دسمبر کو مناتے تھے۔ یہ رومیوں کا ایک بڑا تہوار تھا جس میں خوب رنگ رلیاں منائی جاتیں۔ جب عیسائی یہاں پہنچے تو ان کے زعما نے آفتاب پرست اقوام میں عیسائیت کو قابلِ قبول بنانے کے لیے اس دن کو حضرت عیسٰی ؑ کی پیدایش سے منسوب کردیا۔ اسے کرسمس کے تہوار کا نام دیا گیا، کرسمس کی دوسری تقریبات مثلاً سنٹاکلاز، موم بتیاں جلانا اور کرسمس کا درخت بعدازاں مختلف اَدوار میں شامل کیے جاتے رہے۔ کرسمس کے درخت کا آغاز انیسویں صدی میں یورپ کے ایک شاہی خاندان میں ہوا۔ اس کی نسبت اس درخت سے کی گئی جس کے نیچے حضرت مریمؑ تشریف فرما ہوئیں۔ اگرچہ تکون شکل کا درخت اس علاقے میں نہیں پایا جاتا مگر عقیدۂ تثلیث کے اظہار کے لیے اسے یہ شکل دی گئی۔
ہندی علامات:
بت پرستانہ علامات یونان و روم ہی نہیں ہندستان میں بھی معروف ہیں۔ مثلاً ہاتھی کو لکشمی دیوی کی علامت اور تجارتی منافع، خوش حالی اور خوش بختی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ تجارتی مراکز پر ہاتھی کے مجسمے ایستادہ کیے جاتے ہیں۔ گائے تو ’ماتا‘ ہے۔ ترشول تین نوکوں والا نیزہ یا بھالا مہادیو شوکا سے منسوب ہے، اسے قوت کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہندو جنگجو اسے خاص طور پر ہمراہ رکھتے ہیں۔ماتھے پر تلک لگانا روحانی تعلق کی خاص علامت ہے۔ مختلف خدائوں سے تعلق کا اظہار مختلف شکلوں کے’ تلک‘ سے ہوتا ہے۔
ماتھے پر بندیا شادی شدہ خواتین کی علامت ہے۔ کنول کا پھول، چکر، غرض مختلف علامات مختلف دیویوں، دیوتائوں سے منسوب اور اپنے اپنے مفہوم رکھتی ہیں۔ مختلف تہوار دیومالائی قصے کہانیوں سے وابستہ ہیں۔
علامات: اسلام کی رہنمائی:
مختلف علامتوں کے بارے میں اسلام کا موقف بڑا واضح ہے۔ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات، علامات کو اللہ کے لیے خالص کرلیں۔ اسلام اس کائنات پر صرف ایک اللہ کی حکمرانی تسلیم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ تمام صفات اسی کے لیے ہیں۔ تمام فیصلے اسی کی طرف سے ہیں۔ تخلیق، رزق کی تقسیم، صحت، عافیت، رہنمائی، زندگی، موت، سب کا وہ تنہا مالک اور مختار ہے۔ کسی معاملے میں اسے کسی مددگار کی ضرورت نہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے۔‘‘(الزمر 39:3)
تعلق، محبت، اطاعت صرف اللہ واحد کے لیے۔ قرآنِ مجید میں علامات کے لیے دو اصطلاحات آئی ہیں: ’شعائر‘ اور’ نصب‘۔’شعائر‘ کے معنی ہیں: ایسا نشان یا علامت جو کسی فوج، گروہ یا قوم کی پہچان ظاہر کرے۔ یا وہ خاص لفظ جو فوج میں مقرر ہوتا ہے اور جس سے اپنے لوگوں کو پہچانا جاتا ہے۔(المنجد، مفردات راغب)
شعائر کسی حقیقت کے نشان اور مظہر ہوتے ہیں اور ان کا مقصود ان حقائق کی تذکیر و تذکر ہوتا ہے جو ان کے اندر مضمر ہیں۔
’نصب‘ کے معنی ہیں کھڑی کی ہوئی علامت۔ عمارت کی صورت میں ہو، پتھر تراشیدہ، ناتراشیدہ، جسے کسی واقعہ، بت، دیوی یا دیوتا کے لیے بطورِ یادگار رکھا جائے یا اس سے منسوب کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اس ذبیحہ کو حرام قرار دیا جو کسی ’علامت‘ پر ذبح کیا جائے جو غیراللہ سے منسوب ہو۔ ’’تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکرکھاکر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو__ سوائے اُس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو‘‘۔(المائدہ5:3)
سوچنے کی بات ہے وہ ’علامت‘ جو اپنے قریب پہنچنے والے ذبیحہ کو حرام کر دے کیا یہ جائز ہوگا کہ اسے سینے سے لگا کر رکھا جائے، اپنی عمارتوں پر آویزاں کیا جائے؟ اللہ تعالیٰ ایسی تمام علامات کو شیطانی علامات قرار دے رہے ہیں ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں۔ ان سے پرہیز کرو، اُمید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی‘‘۔(المائدہ 3:90)
گویا ’آستانوں‘ یا بت پرستانہ علامات کے ساتھ تعلق اتنا ہی ناپسندیدہ اور غلط ہے جتنا شراب اور جوئے کے ساتھ تعلق۔ اس لیے کہ یہ علامات شیطانی علامات ہیں۔اس بات کو مزید وضاحت سے سورئہ حج میں فرمایا:
’’پس بتوں کی گندگی سے بچو، جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو، یک سُو ہوکر اللہ کے بندے بنو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا۔اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہَوا اس کو ایسی جگہ لے جاکر پھینکے دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اْڑ جائیں گے۔‘‘(الحج 31-22:30)
’بتوں‘ کو ’رجس‘ کہا گیا ہے۔ ایسی غلاظت جس سے انسانی فطرت گھِن کھاتی ہے، نفرت محسوس کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بتوں سے منسوب تمام کہانیوں، عقیدتوں کو خود اللہ جل جلالہ پر افترا قرار دیتے ہیں۔ جھوٹی شہادت اور جھوٹی بات میں اگرچہ ہر طرح کا جھوٹ اور بہتان شامل ہیں مگر یہاں خاص طور سے اشارہ ان باطل عقائد ، احکام، رسوم اور اوہام کی طرف ہے جن پر کفروشرک کی بنیاد ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات، صفات، اختیارات اور حقوق میں اس کے حقیقی یا خیالی بندوں کو حصہ دار بنانا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔
یہ قبیح فعل اس قدر سنگین ہے کہ انسان کو اللہ جل شانہ کی خلافت کے بلند مقام سے پستیوں میں لاپھینکتا ہے۔ اس کے مرتبے اور مقام کو اتنا ہلکا کردیتا ہے کہ ہوائیں اسے اُڑائے لیے پھرتی ہیں۔ شرک کا ارتکاب کر کے انسان خود کو سرفرازی اور امن و حفاظت سے محروم کرلیتا ہے جو اللہ وحدۂ لاشریک سے اس کو مل سکتی ہے۔ پھر وہ شیطان کے ہر فتنے کا ہدف اور اس کے بچھائے ہوئے جال کا شکار بن کر رہتا ہے حتیٰ کہ بے شمار مفاسد، فواحش اور مہلک خرابیوں کے گڑھے میں جاگرتا ہے۔ فکرواخلاق کی پستی، خواہشاتِ نفس کی غلامی اور جذبا ت و تخیلات کی حکمرانی اسے دنیا و آخرت کے خسارے سے دوچار کردیتے ہیں۔
یونان و ہند کے دانش ور، زندگی، موت، رزق کی تقسیم، عافیت، خیروبرکت، صحت وغیرہ، ہرمیز ایسکلیہ پئیس، ہائی جیہ، اور دیگر مختلف دیویوں اور دیوتائوں سے منسوب کررہے تھے اور حضرت ابراہیمؑ نے واضح اعلان کردیا تھا:
’’جس نے مجھے پیدا کیا پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھے زندگی بخشے گا۔(الشعراء26:78-81)
قرآن اور حدیث میں متعدد مقامات پر واضح الفاظ میں گمراہ اقوام کے عقائد، نظریات، تہوار، رسوم و رواج، شعائر و علامات کو قبول کرنے سے منع کیا گیا ہے اور معاملاتِ زندگی میں ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’ مشرکوں کی مخالفت کرو۔‘‘ (بخاری‘ مسلم)
’’مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘(مسلم)
’’یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرو۔‘‘(سنن ابوداؤد)
یہ مخالفت ہر طرح کے مظاہر میں ہے۔ لباس، اطوار، تہوار وغیرہ تشبّہ بالکفار کا مسئلہ اہم ہے۔ اس حد تک اہم کہ روزہ جیسی عبادات میں بھی تشبّہ سے بچنے کا اہتمام کیا گیا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ عاشور میں روزہ رکھنے کو اپنا معمول بنا لیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس روز کی تو یہود و نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’ان شاء اللہ اگلے سال ہم نومحرم کا روزہ رکھیں گے۔‘‘ لیکن اگلے سال کا محرم آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا۔(رواہ مسلم، معارف الحدیث، کتاب الصوم،ص 128)
نویں محرم کا روزہ رکھنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ آئندہ سے ہم بجائے دسویں کے نویں محرم کو روزہ رکھیں گے اور دوسرا یہ کہ ہم دسویں کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھیں گے تاکہ ہمارے اور یہود و نصاریٰ کے طرزِعمل میں فرق ہوجائے۔ اکثر علما نے اس دوسرے مطلب کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ نویں دسویں اور نویں کا ممکن نہ ہو تو دس گیارہ کاروزہ رکھ لیں۔
نماز کی ادائی کے اوقات میں بھی یہ خیال رکھا گیا کہ جن اوقات میں آفتاب پرست اقوام عبادت کرتی ہیں۔ طلوع و غروب اور نصف النہار کے اوقات میں نفل نماز پڑھنے سے بھی منع کیا گیا۔
واضح الفاظ میں بتا دیا گیا کہ ’’جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انھی میں سے ہے۔‘‘ (سنن ابودائود4031)
غیراقوام کی مشابہت سے بچنے کا کس قدر اہتمام کیا گیا، اس کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے ’’ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مقام پر اُونٹ قربان کرے گا‘‘۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تو نہیں پوجاجاتا تھا؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا’’نہیں۔‘‘ آپؐ نے دریافت فرمایا ’’کیا وہاں ان کے تہواروں میں سے کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوتا تھا؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا ’’نہیں۔‘‘ تب آپؐ نے فرمایا ’’اپنی نذر پوری کرلو، البتہ ایسی نذرکا پورا کرنا درست نہیں، جو مصیبت ہو یا جو آدمی کے بس سے باہر ہو۔‘‘(سنن ابوداؤد، 3313)
چنانچہ فقہائے کرام کا اس پر اجماع ہے کہ مسلمان کا مشرکانہ شعار و علامات، مراسم اور مقامات سے دُور رہنا شریعت اسلامی کا واضح تقاضا ہے۔
مذکورہ بالا مشرکانہ شعائر و علامات کا مسلم معاشرے میں رواج پانا لمحۂ فکر ہے۔ کیا یہ اللہ کے رسولؐ کی اُس پیش گوئی کے مطابق نہیں جس میں آپؐ نے فرمایا ’’تم لوگ پہلی اُمتوں کے طریقوں کی قدم بہ قدم پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی گوہ کے بِل میں داخل ہوئے ہوں تو تم بھی اس میں داخل ہوگے‘‘۔ (بخاری، 3456)
’ہرمیز‘ یا ایسکلیہ پیئس کا عصا یا ’انصاف کی دیوی‘ اگر ہمارے پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں کی علامت بن جائیں، نائیکی (Nike) کا لوگو ہمارے بچوں کی پسند بن جائے، سرکاری سطح پر کرسمس کا تہوار منایا جانے لگے، ’ہواس‘ کی آنکھ ہمارے طبی نسخوں کی زینت ہو، کیا یہ ’گوہ کے بل‘ ہی نہیں؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’میں اپنی اُمت کے بارے میں گمراہ کن حکمرانوں (ائمہ) سے ڈرتا ہوں‘ اور قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہوگی جب تک میری اُمت کی ایک جماعت مشرکوں سے نہ جاملے اور یہ کہ میری اُمت کے بہت سے لوگ بت پرستی نہ کرلیں۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن، باب: ہونے والے فتنوں کا ذکر، حدیث 3952)
علامات بت پرستی اپنا کر ہم کہیں اس گروہ میں تو شامل نہیں ہورہے؟؟ اللہ رب العزت کی یہ تنبیہ بھی پیش نظر رہے ’’اگر تم نے اس علم کے باوجود جو تمھارے پاس آچکا ہے‘ لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے‘‘۔(الرعد 13:37)
ہمارے لیے اللہ کے شعار واضح ہیں۔ وہی ہمارے لیے مقدس اور محترم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔‘‘ (الحج 22:32)
محبت، تعظیم، اپنائیت صرف اللہ کے شعار اللہ واحد کی علامات کے لیے! حتیٰ کہ شعائراللہ ہماری پہچان بن جائیں۔