حکم عبدالمجید کی کہانی ان کی زبانی

146

میرے والد ضلع ملتان کے ایک جید عالم تھے:
میرا تعلق ایک علمی گھرانے سے ہے، میرے والد مولانا محمد امیرؒ جھوک رئیس ضلع ملتان کے ایک جید عالم دین تھے، انہوں نے چالیس، پینتالیس سال تک درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا جس کے نتیجے میں پاکستان کی شاید ہی کوئی درس گاہ ہو جہاں اُن کا کوئی شاگرد مصروفِ تدریس نہ ہو۔ میں جب سے جماعت اسلامی میں شامل ہوا ہوں اور اپنے دو عزیزوں کو بھی مرکز علوم اسلامیہ منصورہ میں داخل کرایا ہے، مجھ پر ہر جانب سے الزام تراشی اور طعن و تشنیع کی بوچھاڑ ہورہی ہے گویا میں ارتداد کا مرتکب ہوا ہوں۔

والدِ محترم کے معتقدین کے طعنے:
والدِ محترم کے بعض معتقد مجھے طعنہ دیتے ہیں کہ تم والد کے نافرمان ہوگئے ہو۔ میں حیران ہوں کہ میں نے کون سی نافرمانی کی ہے جس کا مجھ پر الزام لگایا جارہا ہے؟ میں نے والد کی زندگی میں اُن کی پوری طرح سے اطاعت کی اور ان کے بعد بھی اُن کے لیے ہر وقت دست بہ دُعا رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے۔ بلاشبہ والدین کے حقوق ہیں لیکن یہ سوچنا چاہیے کہ اگر والدین کے کچھ حقوق ہیں تو اللہ کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ میں جماعت اسلامی کی جانب مائل ہوا ہوں تو کسی ذات کے لیے نہیں بلکہ اللہ کے اس حکم کی تعمیل میں ہوا ہوں جس میں وہ فرماتا ہے کہ ’’میرا دین قائم کرو۔‘‘ میں نے مطالعے سے دیکھا کہ جماعت اسلامی اقامتِ دین کی سعی کے لیے قائم ہوئی ہے۔

میں جانتا ہوں کہ والدِ محترم، مولانا مودودیؒ کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے تھے لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اُن کے سامنے مولانا کی اصل تحریریں نہیں بلکہ ان کو کاٹ چھانٹ کر پیش کیا جاتا تھا جس سے مفہوم کچھ کا کچھ ہوجاتا تھا۔ اگر اُن کے سامنے مولانا کی اصل تحریریں پیش کی جاتیں تو یقیناً ان کو اطمینان ہوجاتا۔ جب تک جماعت اسلامی کے لٹریچر کا میں نے خود مطالعہ نہیں کیا تھا میں بھی اسی بدگمانی میں مبتلا رہا۔ لیکن جب میں نے مولانا کی اصل تحریریں پڑھیں تو میری ساری غلط فہمیاں دور ہوئیں اور میں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ مولانا کی ذات پر بڑا ظلم کیا جاتا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی کا تعارف مسخ شدہ تحریروں سے کرانا کہاں تک قرینِ دیانت و انصاف ہے! جو سلوک مولانا مودودیؒ کے ساتھ کیا گیا ہے وہ کسی بھی عالم ِدین کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ایسا کیا گیا ہے۔

دیوبندی علما نے سیاق و سباق سے الگ کرکے اقتباسات کی بنیاد پر مولانا مودودیؒ کو کافر و بے دین قرار دیا۔دارالعلوم کے مفتی مہدی حسن صاحب کی خدمت میں ایک مرتبہ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی ایک کتاب ’’تصفیۃ العقائد‘‘ سے ایک اقتباس نکال کر بھیجا گیا، انہوں نے جواب دیا: اس عبارت کا مصنف کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور اس کا نکاح ٹوٹ چکا ہے۔ اسی طرح قاری محمد طیب کی کتاب ’’اسلام اور مغربی تہذیب‘‘ کا بھی ایک اقتباس دارالعلوم کے شعبہ افتاء کو بھیجا گیا تو وہاں سے فتویٰ آیا کہ مذکورہ شخص ملحد اور بے دین ہے۔ قادیانیت اور عیسائیت کی روح اس میں حلول کرگئی ہے (دعوت، دہلی 22دسمبر 62ء)۔ اگر اقتباسات کی بنیاد پر مولانا مودودیؒ کو کافر اور بے دین کہا گیا ہے تو کچھ تعجب نہیں ہونا چاہیے۔

جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کو ایک سمجھ لینا غلطی ہے۔ جماعت اسلامی کی بنیاد مولانا مودودیؒ نے رکھی لیکن انہوں نے اس کی بنیاد اپنی ذاتی رائے پر نہیں بلکہ کتاب و سنت پر اور ان کے مقاصد کو بروئے عمل لانے کے لیے رکھی۔ مولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مولانا ابوالحسن علی ندویؒ جب جماعت اسلامی میں شریک ہوئے تھے تو مولانا مودودیؒ کے علمی و فقہی مسلک سے متاثر ہوکر نہیں بلکہ اُس مشن کو دیکھ کر ہوئے تھے جس کی جماعتِ اسلامی نے دعوت دی تھی۔

آج بعض دیو بندی علما جماعت اسلامی کے دستور میں کیڑے نکالتے ہیں۔ دیوبند سے بہت سی کتابیں جماعت اسلامی کے دستور پر بھی لکھی گئی ہیں، لیکن وہ خدا لگتی کہیں کہ کیا جماعت کا دستور ان کے عقائد کے مطابق نہیں ہے؟

مولانا نعمانی نے خود انکشاف کیا تھا کہ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے جماعت اسلامی کے دستور کو کسی طرح بھی خلافِ کتاب و سنت قرار نہیں دیا تھا۔

مولانا نعمانی نے خود انکشاف کیا تھا کہ جماعت اسلامی کے دستور کی ایک کاپی مولانا اشرف علی تھانویؒ کی خدمت میں بھی بھیجی گئی تھی تو حضرت تھانویؒ نے ارشاد فرمایا کہ ’’مجھے اس میں کوئی چیز خلافِ کتاب و سنت دکھائی نہیں دی۔‘‘

اسی طرح جماعت اسلامی پر سیاسی طعنہ زنی بھی کی جاتی ہے۔ کوئی کہتا ہے یہ امریکا کی حامی ہے، کوئی کہتا ہے یہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی ایجنٹ ہے۔ یہ جاہلوں کی باتیں ہیں، میں اہلِ علم سے کہتا ہوں کہ ان کی یہ شان ہرگز نہیں ہے کہ وہ سنی سنائی باتوں پر اعتبار کریں۔ ان کو چاہیے کہ وہ جماعت اسلامی کے دعوتی لٹریچر کا ٹھنڈے دل سے خود مطالعہ کریں، اگر جماعت اسلامی کا مقصد حق ہے تو پھر اس کا ساتھ دیں۔

اگر مولانا موددی کا لٹریچر نہ ہوتا!
میرا دل تو بعض اوقات مولانا مودودیؒ کے لیے بے اختیار دست بہ دعا بن جاتا ہے۔ اگر مولانا مودودیؒ کا لٹریچر نہ ہوتا تو آج ہمارے کالجوں میں لادینیت اور دہریت کے جھنڈے گڑے ہوتے۔ یہ مولانا مودودیؒ کی تحریریں ہیں جنہوں نے جدید تعلیم یافتہ نسل کے ذہن سے مغرب کی مرعوبیت نکالی اور دین پر ان کے دل کو قائم کیا۔ آج وہ دنیا میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے علَم بردار بنے ہوئے ہیں۔ یونیورسٹیاں اور کالج جو پہلے مغربی افکار اور بے راہ روی کے اڈے ہوتے تھے، آج وہاں مولانا مودودیؒ کی دعوت کے ذریعے درس ہائے قرآن اور شب بیداریاں ہوتی ہیں۔ یہ ملک کبھی اسلامی جمہوریہ نہ بنتا اگر یہاں جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ نہ ہوتے۔ یہ مولانا مودودیؒ ہی تھے جن کی سعی سے قراردادِ مقاصد منظور ہوئی۔ پھر جب عوامی دور آیا تو یہ بھی جماعت اسلامی کی کوششیں تھیں جو لادین آئین کی راہ میں سنگِ گراں بن کر کھڑی ہوگئیں اور جماعت اسلامی نے اُس وقت تک چین نہ لیا جب تک آئین میں اسلامی دفعات شامل نہ کرالیں۔

جماعت اسلامی کے خلاف دیوبندی علماء کا تعصب:
میں جس ماحول میں رہ رہا ہوں وہاں جماعت کے خلاف شدید تعصب پایا جاتا ہے۔ دو ہفتے قبل مجھے دیوبندیوں کی مسجد کے امام نے حکم دیا کہ میں ان کی مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔ لیکن میں نے کہا خدا کے گھر آنے سے مجھے خدا کے سوا کون روک سکتا ہے! اس حکم کے باوجود میں مسجد جاتا ہوں اور خاموشی سے نماز ادا کرتا ہوں۔ میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہِ حق دکھائے اور ہمیں بے جا غلط فہمیوں سے دور رکھے۔

جماعت اسلامی نہیں، جمعیت علمائے ہند کے علما نے کانگریس کے ایما پر پاکستان کے قیام کی کھل کر مخالفت کی اور ہندو مسلمان ایک قومیت کا گمراہ کن نعرہ لگایا۔

حصہ