جادوئی درخت

103

ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کا نام خوشی پور تھا۔ وہاں کے لوگ بہت محبت اور خوشی کے ساتھ رہتے تھے۔ گاؤں کے درمیان ایک خوبصورت باغ تھا جس میں رنگ برنگے پھول کھلتے تھے اور پرندے چہچہاتے تھے۔

اسی گاؤں میں ایک ننھی لڑکی رہتی تھی جس کا نام زینب تھا۔ زینب کو کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا۔ اس کی دادی اماں ہر رات اسے ایک نئی کہانی سناتی تھیں۔

ایک دن زینب کو معلوم ہوا کہ ان کے گاؤں کے قریب ایک جادوئی جنگل ہے۔ دادی اماں نے بتایا کہ اس جنگل میں ایک جادوئی درخت ہے جو سچ بولنے والوں کو انعام دیتا ہے۔ زینب نے فیصلہ کیا کہ وہ اس جادوئی درخت کو دیکھنے جائے گی۔
اگلے دن صبح سویرے، زینب نے اپنی دادی اماں سے اجازت لی اور جنگل کی طرف چل پڑی۔ جنگل بہت بڑا اور گھنا تھا۔ زینب کو تھوڑا ڈر بھی لگ رہا تھا، مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔
چلتے چلتے، زینب کو ایک خوبصورت جھیل نظر آئی۔ جھیل کے کنارے ایک بوڑھا آدمی بیٹھا تھا۔ زینب نے پوچھا، “آپ کون ہیں؟”
بوڑھے آدمی نے مسکرا کر جواب دیا، “میں اس جنگل کا نگہبان ہوں۔ تم یہاں کیوں آئی ہو؟”
زینب نے سچائی سے بتایا کہ وہ جادوئی درخت کو دیکھنے آئی ہے۔ بوڑھے نگہبان نے زینب کی ہمت کی تعریف کی اور اسے راستہ دکھایا۔
زینب تھوڑی دیر بعد جادوئی درخت کے پاس پہنچ گئی۔ درخت نے ایک نرم اور میٹھی آواز میں کہا، “زینب، تم بہت بہادر ہو۔ سچائی کی طاقت ہمیشہ یاد رکھنا۔ یہ لو، یہ انعام تمہاری سچائی کا تحفہ ہے۔”
درخت نے زینب کو ایک خوبصورت گلاب کا پھول دیا جو کبھی مرجھاتا نہیں تھا۔ زینب نے درخت کا شکریہ ادا کیا اور خوشی خوشی واپس اپنے گاؤں کی طرف چل دی۔
گاؤں پہنچ کر زینب نے اپنی دادی اماں کو سب کچھ بتایا۔ دادی اماں نے زینب کو گلے لگا لیا اور کہا، “سچائی اور ہمت ہمیشہ کامیابی کی طرف لے جاتی ہیں۔”
زینب نے وہ گلاب کا پھول گاؤں کے باغ میں لگا دیا، اور سب لوگ اس کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے لگے۔ خوشی پور پہلے سے بھی زیادہ خوشی اور محبت سے بھر گیا۔
اور اس طرح زینب کی بہادری اور سچائی کی کہانی سب بچوں کے لیے ایک مثال بن گئی۔

حصہ