سیاحوں پر فائرنگ کا سوشل میڈیاپر شور

146

پانی کی فائرنگ:
اسپین کے دارالحکومت بارسلونا کے رہائشیوں نے شہر کے ایک ہوٹل میں موجود بیرونِ ملک سے آنے والے سیاحوں پر پانی کی پستول سے فائرنگ کردی۔کہنے کو تو یہ بڑا مضحکہ خیز عمل تھا مگر اِس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی ہیں۔ یہ جھوٹی خبر نہیں تھی۔ اسپین کے رہائشیوں کے اِس عمل کا مقصد سیاحوں کو نقصان پہنچانا نہیں تھا، لیکن وہ ایک صاف پیغام دے رہے تھے کہ ’’سیاحو! اپنے گھر جائو۔‘‘ یہ عمل اسپین میں بڑے پیمانے پر سیاحت کے خلاف مظاہروں کے سلسلے کا ایک منفرد اسپارک تھا۔ جب ہم نے اس دلچسپ کہانی میں ہاتھ ڈالا تو انتہائی ہولناکی منہ کھولے کھڑی تھی۔

بارسلونا کیا ہے؟
بارسلونا کے خوبصورت ساحل ہی نہیں بلکہ عالمی شہرت یافتہ بارسلونا فٹ بال کلب بھی ہر سال لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اُن کے اپنے ریکارڈ کے مطابق بارسلونا میں پچھلے سال سوا کروڑ سیاح آئے تھے۔ یہ تعداد فرانس کے بعد دوسرے نمبر پر ہے (فرانس میں بھی یہ احتجاج پنپنا شروع ہورہا ہے، پیرس اولمپکس 26 جولائی سے ہونے ہیں، اس سے قبل ہی وہاں Dont Come to Paris کی بازگشت شروع ہو چکی ہے)۔ پولیس کے مطابق ہفتہ 6 جولائی کو تقریباً 2800افراد نے بارسلو نا میں سیاحوں کی آمد کے خلاف احتجاجی مارچ کیا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں مظاہرین کو بینرز اٹھائے ہوئے دکھایا گیا ہے جن پر ’’سیاح گھر جائیں‘‘ اور ’’بارسلونا فروخت کے لیے نہیں ہے‘‘ کے نعرے درج تھے۔ وڈیوز میں سیاحتی ضلع میں سیاحوں پر پانی چھڑکنے کے لیے رنگین پلاسٹک کے پانی کے پستول کا استعمال کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ مظاہرین نے ریڈ ٹیپ کا استعمال کرتے ہوئے شمال مشرقی ساحلی شہر میں ریستورانوں اور ہوٹلوں کو بھی گھیرے میں لے لیا گیا۔ اِس سے قبل اپریل میں اس سے بڑے احتجاج ہوتے رہے، مگر ہم تو اِس ہفتے سوشل میڈیا پر ’’رنگین پانی‘‘کی وڈیوز کی وجہ سے اس کو پکڑنے میں کامیاب ہوئے۔

کچھ اسپین کی حالت کے بارے میں:
اسپین یورپ کا ایک اہم ملک ہے۔ اس کی تاریخ بھی اہم ہے جو مسلمانوں سے بھی جُڑی ہوئی ہے۔ اسپین یورپ میں ایک ثقافتی سپرپاورکا مقام رکھتا ہے، دنیا کی سب سے زیادہ ’عالمی میراث کی جگہیں‘ بھی یہاں موجود ہیں۔ اسپین تمام فنون کا یورپ میں اہم مرکز مانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاحوں کا بہت رش رہتا ہے۔ یہ مختلف منصوبوں اور پروگراموں کے ذریعے یورپ کی سیاستی، معاشی اور سماجی تشکیل میں شرکت کرتا ہے کیونکہ یہ جغرافیائی طور پر مغربی اور مشرقی دنیا کو بھی جوڑتا ہے۔ اسپین اپنے آپ کو مغرب کے پیمانوں پر ویلفیئر ریاست کہتا ہے اور اپنے شہریوں کو مکمل سماجی حفاظتی نظام دیتا ہے۔ یہ نظام بظاہر شہریوں کو معاشی خطرات سے بچانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اسپین میں جنسی اقلیتوں کے حقوق دنیا کی بہترین حالتوں میں ہیں۔ PEW کے مطابق اسپین میں شادیوں کی مجموعی تعداد کا کوئی 4 فیصد ہم جنس لوگ کرتے ہیں۔ یہ تعداد پوری دنیا میں ہونے والی ہم جنس پرست افرادکی شادیوں سے زیادہ ہے۔ ویسے 2022ء میں اسپین بھر میں صرف 179000(بمشکل دو لاکھ) کے قریب شادیاں رجسٹرڈ ہوئیں۔ ان شادیوں کی حالت یہ ہے کہ 65 فیصد وہاں طلاق کی شرح ہے۔ ان شادیوں کی دوسری ہولناکی یہ ہے کہ اسپین میں بچوں کی شرح پیدائش اپنے قدرتی معمول سے، منفی سطح پر جا چکی ہے۔ اوسط تعداد بچوں کی فی عورت 1.1 ہے۔

سیاحوں سے مسئلہ:
ذرا تصور کیجیے کہ ایسے ملک میں کیا کوئی مسئلہ ہوگا؟ وہاں نہ بجلی جاتی ہے، نہ پانی۔ حکومت بے روزگاروں کو خود الائونس دیتی ہے۔ تعلیم مفت، صحت کی سہولیات مفت، بزرگوں کے لیے رہائش مفت۔ اتنا سب کچھ تو وہ دے رہے ہیں، پھر احتجاج کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ہوا یہ ہے کہ سیاحوں کی بڑی تعداد نے اسپین میں حرص و ہوس کا مزید نیا جال پھیلا دیا۔ سب سے پہلے ہائوسنگ سیکٹر متاثر ہوا، جس سے کرائے بڑھ گئے، اتنے کہ مقامی لوگوں کے لیے کرائے کی رقم کا بندوبست کرنا ہی مشکل ہوگیا۔ یہ کرائے کس نے بڑھائے؟ یہ تو گھر مالکان ہیں۔ جب سیاحوں کو ہوٹل میں جگہ نہیں ملتی تو لوگ انہیں گھر کرائے پر دے دیتے ہیں۔

سیاح کو کم وقت رکنا ہوتا ہے تو وہ ہوٹل سے بہتر سہولت کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ اِس مجبوری یا سہولت کا فائدہ مالک مکان اٹھاتا ہے اور من مانا کرایہ لیتا ہے۔ جب من مانا کرایہ لے گا تو لازمی بات ہے کہ پچھلے کم کرایہ دینے والے کسی مقامی کو باہر نکالے گا۔ اگر وہ نہیں نکلے گا تو مالک مکان اس سے کرایہ بڑھانے کو کہے گا۔ اَب اگر وہ رقم کرایہ دار کی سکت سے باہر ہوئی تو مسائل بڑھیں گے، اور پھیلتے چلے جائیں گے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ بارسلونا میں کرائے پچھلے سال 18 فیصد بڑھ گئے۔ دس سال میں کرایوں میں 68 فیصد اور گھروں کی قیمتوں میں 38 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس نے شہریوں کے لیے معاشی طور پر زندگی کو مشکل بنادیا ہے۔

اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بارسلونا کے میئر جیوم کولبونی (جو ایک سوشلسٹ ہیں) نے 21 جون کو اعلان کیا کہ 2028ء تک 10ہزار سے زیادہ سیاحوں کے اپارٹمنٹ کرائے پر لینے پر پابندی عائد کردی جائے گی۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ بارسلونا کے میئر نے اس طرح کی کارروائی کی ہو۔ 2017ء میں سابق میئر اڈاکولائو نے بھی ’’سیاحت مخالف پالیسیاں‘‘ متعارف کروائیں۔ مظاہرین سیاحت پر مبنی اس معیشت کے بھی مخالف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کی وجہ سے غریب ہورہے ہیں۔

سیاحت کا نقصان:
یہ بات انتہائی عجیب ہے۔ ٹورسٹ یا سیاح تو جہاں آتا ہے، وہاں پیسہ لاتا ہے، جیسے پاکستان کے بیشتر شمالی علاقہ جات تو سیاحوں کی بدولت ہی اپنی معاشی سرگرمی کر پاتے ہیں۔ ہم سنتے ہیں کہ سیزن میں ہر چیز کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں، تو یہ ریٹ وہاں بعد میں نئے نئے ہوٹلوں، نت نئی سہولیات کو جنم دیتے ہیں، پھر پریشانی کیسی؟ احتجاج کیسا؟ ایسے میں چھوٹے پیمانے کی، مگر ایک ذاتی تجربے کی مثال یاد آئی۔ ہم کچھ دوست 2017ء میں ’’کمراٹ ویلی‘‘(خیبر پختون خوا۔ دیر) گئے تھے، اُس وقت وہ جگہ بالکل نئی نئی دریافت ہوئی تھی۔ اس کے بعد تو وہاں ملک بھر سے عوام کی ریل پیل ہوگئی، وجہ سوشل میڈیا کا ابلاغ بنا۔ معلوم ہوا کہ پھر وہاں زبردست سڑک بھی بن گئی، ہوٹلوں کی کثرت ہوگئی، وہ مکمل ٹورسٹ مقام بن گیا، ہر سہولت پہنچ گئی۔ وقت کے ساتھ ہم نے وہاں کی صورتِ حال اور سوشل میڈیا وڈیوز کے ذریعے پھر یہ تجزیہ بھی کیا کہ ’’قدرتی جگہ کا کچرا کردیا‘‘۔ مطلب سمجھ گئے آپ؟

سرمائے سے اہم کیا ہے؟
سرمائے کو جب خدا مانا جائے گا، جب پیمانے سرمائے پر کھڑے ہوں گے تو سب کچھ غیر اقداری ہوگا۔ ایسے میں ہر عمل کا مقصد زیادہ سے زیادہ حصولِ لذت یا لذت پرستی ہوگا۔ وہ خالص مادے پر کھڑی تہذیب ہوگی۔ یہی حال اب اسپین کے احتجاج میں مجھے نظر آرہا ہے۔ مظاہرین کو شاید یہ اندازہ ہوا ہے کہ اس سیاحتی سرمائے سے بھی زیادہ اہم کوئی چیز ہے۔ کرائے کا مسئلہ اپنی جگہ، مگر وہ اور بھی بہت کچھ کہہ رہے ہیں۔ وہ چیخ رہے ہیں کہ ہمارا ’’معیار زندگی‘‘خراب ہورہا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ سیاحوں کی وجہ سے ہمارا ’’ماحول بھی تباہ‘‘ہورہا ہے کیونکہ مہنگائی صرف گھر کے کرایوں کی نہیں ہوتی، پانی زیادہ استعمال ہورہا ہے، کھانا زیادہ استعمال ہورہا ہے، کچرا زیادہ پیدا ہورہا ہے، دھواں زیادہ پیدا ہورہاہے۔ اِن سب سے پیسہ بے شک مخصوص ہاتھوں میں جارہا ہے۔ مگر دوسری جانب کیا ہوا، یہ بھی دیکھ لیں۔ فروری میں حکومتِ اسپین نے سخت پابندیوں کے نفاذ کے ساتھ ’’انتہائی خشک سالی‘‘کی ایمرجنسی کا اعلان کیا جس سے بارسلونا سمیت 202 میونسپلٹیوں میں 6ملین شہری متاثر ہوئے۔ درخت مُردہ ہوگئے، زمین کے نیچے کا پانی خشک ہوگیا۔

سٹی کونسل نے ابھی گزشتہ دسمبر میں سیاحتی صنعت کے نمائندوں کے ساتھ بارسلونا میں پینے کے پانی کے استعمال کو کم کرنے کے طریقوں پر اجلاس کیا۔ مطلب سمجھے آپ، حکومت اس پر مجبور کررہی ہے کہ ’’لوگ پانی کم سے کم پئیں‘‘۔کیوں؟ کیونکہ پانی ختم ہورہا ہے۔ وہاں کے 5 اسٹار ہوٹلوں میں فی سیاح روزانہ 144 گیلن (545.5 لیٹر) پانی استعمال ہورہا ہے، جبکہ چار ستارہ ہوٹل 98 گیلن (373 لیٹر)، تین ستارہ ہوٹل 61 گیلن (232 لیٹر) اور دو ستارہ ہوٹل 44 گیلن (165 لیٹر) استعمال کرتے ہیں۔ سوئمنگ پول اور جاکوزی کی سہولیات اس کھپت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ سال میں سوا کروڑ سیاحوں کے حساب سے اندازہ کرلیں، جبکہ وہاں کی آبادی 57لاکھ ہے۔ حال یہ ہوگیا ہے کہ وہاں کوئی خالی جگہ نہیں بچی کیونکہ سوا کروڑ سیاحوںکی گاڑیوں کو پارک بھی تو ہونا ہے۔ یہ گاڑیاں جب چلتی ہیں تو ان کا شور الگ پیدا ہوتا ہے۔ یعنی اس تباہی کی اتنی جہتیں ہیںکہ صفحات کم پڑجائیں، لیکن اگر آپ نے عبرت اور سبق نہیں لیا تومیری یہ سب محنت بے کارہے۔ ایک اور پہلو دیکھیں، بارسلونا میں ’’فضائی آلودگی‘‘ خراب انسانی صحت، پانی اور مٹی میں تیزابیت، ماحولیاتی نظام، عمارتوں اور فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کی ذمہ دار بن چکی ہے۔ بارسلونا میں بچوں میں دمہ کے تقریباً نصف کیسز کے لیے یہ ذمہ دار ہے (تحقیق: بارسلونا انسٹی ٹیوٹ آف گلوبل ہیلتھ)۔ ایک سیاح جو ہوائی جہاز کے ذریعے بارسلونا آتا ہے وہ اوسطاً605 کلو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے، جب کہ ٹرین کے ذریعے آنے والا سیاح 52.9 کلو کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوا میں بھیجتا ہے۔ سمندری جہاز کی صورتِ حال یہ ہے کہ کروز بحری جہازوں کے ذریعے استعمال ہونے والے تیل میں عام ڈیزل کی نسبت 2000 گنا زیادہ سلفر آکسائیڈ ہوتا ہے جو سمندر کے پانی کو زہریلا کرکے زیر آب حیات کو ختم کررہا ہے۔ یہاں کسی کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ایک (ڈیزل) بحری جہاز نے جتنی کھربوں زیر آب مخلوق کو قتل کیا ہے اُس کی قیمت محض چند مسافروں کے جلدی پہنچنے اور تجارتی سامان پہنچانے کی ہے۔ اِتنا بڑا قتل عام کرکے مغرب کس منہ سے جانوروں اور ختم ہوتی ہوئی نسلوں کی حفاظت کی بات کرسکتا ہے جبکہ وہ خود ہی سب سے بڑا قاتل ہے؟ یہ سادہ سی، آنکھوں دیکھی، سمجھی ہوئی بات کوئی ہضم کرنے کو تیار نہیں کہ محض اپنے آپ کو کسی جگہ جلدی اور آسانی سے پہنچنے یا پہنچانے کی خاطر کتنی انسانی، نباتاتی، حیوانی جانوں کو موت کے منہ میں دھکیلنا کس قدر گھاٹے کا سودا ہے! ایسی تمام چیزوں کے استعمال سے کیوں وہ والی درندگی و سفاکی منتقل نہیں ہوگی جو اُن اشیا کے استعمال ہونے سے مستقل پیدا ہورہی ہے؟

ایک اصل بات:
میں مزید دلائل اور اعداد و شمار پیش کرسکتا ہوں، مگر کچھ اگلے مضامین کے لیے رکھ لیتا ہوں، کیونکہ ایک بار میں تو لوگ بات سمجھتے ہی نہیں۔ اسپین، بلکہ مغرب کو آئیڈیلائز کرنے سے قبل اصل مسئلہ سمجھیں۔ کسی بھی مذہب کے لوگ حرص و ہوس پر مبنی زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کے عمل کو زندگی کا مقصد بنائیں گے تو کچھ نہیں بچے گا۔ اِن سب معاشروں میں ترقی یعنی سرمائے میں مسلسل اضافہ ہی واحد قدر ہے، اس لیے باقی اشیا ختم ہونا شروع ہوچکی ہیں۔ یہ باتیں ہمارا دین، ہمارے نبیؐ، مسلم محققین، فلسفی سب سمجھاتے رہے، مگر عقلیت تو نفع خوری کے تابع ہوچکی تھی اِس لیے اَب تباہ کن نتائج کا سامنا بھی ایسے مسائل کی صورت میں کرنا پڑے گا۔ لذت پرستی اور نفع خوری بے شک ان معنوں میں تو انسانی فطرت ہے کہ انسان میں جتنی صلاحیت احسن تقویم بننے کی ہے اتنی ہی اسفل السافلین کی بھی ہے، لیکن ان معنوں میں نہیں کہ ایسا کرنا ہی کوئی معیاری یا طبعی(normal) انسانی کیفیت ہے۔ نفسِ امارہ ہرگز بھی کوئی معیاری نفسی کیفیت نہیں، البتہ مغربی علمیت میں نفسِ امارہ ہی فطری نفسی کیفیت مانی جاتی ہے کیوں کہ مغرب خیر کے جس تصور پر یقین رکھتا ہے وہ نفسِ امارہ ہی کا دوسرا نام ہے، اور یہی وجہ ہے کہ مغربی علوم میں قانون اور معاہدے(contract) جیسے تصورات تو ملتے ہیں لیکن گناہ کا ذکر سرے سے مفقود ہے۔

حصہ