جب مال و زر مذہب بن جائے

167

ویسے تو خیر کون ہے جسے مال و زر سے محبت نہیں! مگر مال و زر کو ایمان کے درجے میں رکھنا، بلکہ خدا سمجھ کر اُس کے آگے سجدہ ریز رہنا؟ یہ ذہنیت تو انتہائی نوعیت کی ہے اور خالص دہر پرستی کی محض علامت نہیں بلکہ ثبوت بھی ہے۔ امریکا کا یہی معاملہ ہے۔ اب امریکا ایک ایسی قوم ہے جس نے زر کو مذہب بنالیا ہے اور اِس قوم یا ملک کو چلانے والی چند شخصیات ہیں جنہوں نے مالیاتی نظام کو کنٹرول کر رکھا ہے۔ اُن کے ہاتھ میں صرف اپنے ملک کا مالیاتی نظام نہیں ہے بلکہ وہ عالمی مالیاتی نظام اور معیشتی فیصلوں پر بھی متصرف ہیں۔

ایک دور تھا جب امریکا کو ہر معاملے میں میرٹ کا خیال رکھنے کے اپنے نظام اور اقدار پر بھروسا اور فخر تھا۔ اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ کیسا میرٹ اور کہاں کا میرٹ؟ امریکا دن بہ دن ایک ایسے ملک میں تبدیل ہوتا جارہا ہے جہاں دولت کی محض خواہش نہیں کی جاتی بلکہ پوجا کی جاتی ہے۔ دولت کو خدا مان لیا گیا ہے اور تمام ہی معاملات زر پرستی کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں۔ امریکا پر چند انتہائی دولت مند شخصیات قابض و متصرف ہیں۔ ایوانِ صدر میں چاہے کوئی بھی ہو اور کانگریس کے ارکان چاہے کوئی بھی ہوں، یہ انتہائی دولت مند شخصیات ہی تمام اہم فیصلے کرتی ہیں اور اِنھی کے ہاتھ میں ملک کے سیاسی، معاشی اور اسٹرے ٹیجک معاملات ہیں۔

امریکا میں عوام غربت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں۔ حکومت کے ہاتھ میں کچھ زیادہ نہیں۔ سرکاری ادارے برائے نام ہیں۔ نجی شعبے نے سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ تمام اہم سرکاری فیصلے نجی شعبے کی مرضی سے کیے جاتے ہیں تاکہ اُس کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ مل سکے۔ عوام کا جو حال ہے اُس کی روشنی میں نجی شعبے کی دولت کو گند اور غلاظت ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔

معاشی و مالیاتی امور کی معروف ویب سائٹ بلوم برگ کے مطابق امریکا میں 10 مال دار ترین شخصیات کے مجموعی اثاثے 1600 ارب ڈالر کے ہیں۔ یہ رقم دنیا کی 12 بڑی معیشتوں کے سوا تمام ہی ممالک کی مجموعی خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) سے زیادہ ہے۔ یہ سعودی عرب اور اسپین کی مجموعی جی ڈی پی سے زیادہ ہے اور سوئٹزرلینڈ کی جی ڈی پی سے دُگنی ہے۔

امریکا میں نجکاری کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ حکومتی ملکیت والے اداروں کی تعداد تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ حکومت خود بھی اداروں کو چلانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہی۔ صحتِ عامہ، فطری علوم و فنون، تعلیمِ عامہ اور فنونِ لطیفہ کے شعبوں میں نجی شعبے کا کردار بڑھتا ہی جارہا ہے۔ حکومت نے اب بہت سے معاملات میں ہاتھ کھینچ لیا ہے۔

امریکا اور یورپ میں خلائی تحقیق کے حوالے سے بڑے اقدامات کا ڈول ڈالا جاچکا ہے۔ امریکا میں یہ سب کچھ 90 فیصد کی حد تک نجی شعبے کے ذریعے ہورہا ہے۔ خلائی سفر اور سیاحت کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نجی ادارے میدان میں ہیں اور اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ برتری یقینی بنانے کی دوڑ سی لگی ہے۔

کبھی کسی نے جس کا اندازہ بھی نہ لگایا ہوگا اُس حد تک میڈیا پر نجی شعبہ قابض و متصرف ہے۔ معلومات کے ذرائع کو ایلون مسک اور مارک زکربرگ جیسے لوگ کنٹرول کررہے ہیں۔ ایلون مسک کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس اور مارک زکربرگ کے پلیٹ فارم فیس بک نے ایک دنیا کو اپنی مٹھی میں بھینچ رکھا ہے۔

جمہوریت! کیسی جمہوریت؟ کہاں کی جمہوریت؟ امریکا میں سیاست بھی دولت مندوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے، بلکہ کھلونا ہوکر رہ گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست نے اب دولت مندوں کے پلے گراؤنڈ کی سی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ امریکا میں انتہائی مال دار افراد انتخابی مہم کے لیے فنڈز فراہم کرتے ہیں اور پھر پالیسیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ 2020ء کے امریکی صدارتی انتخابات کی مجموعی لاگت 16 ارب 40 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا میں جمہوریت کس حد تک برائے فروخت ہے۔

انتخابی عمل کے دوران انتہائی مال دار شخصیات اور ادارے بہت سی لابنگ فرمز اور پالیسی تھنک ٹینکس کو فنڈنگ کرتے ہیں۔ یہی نہیں، اُن پر تحائف کی بارش کی جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بعض معاملات میں غیر قانونی طریقے سے اُن کے لیے ’’انصاف‘‘ کی راہ ہموار کی جاتی ہے، اور یوں پوری قوم کو اشارہ دیا جاتا ہے کہ امریکا میں اب سپریم کورٹ کو بھی خریدا جاسکتا ہے۔

امریکی سپریم کورٹ بھی سٹیزن یونائیٹڈ اور دیگر رولنگز کے ذریعے سیاست میں دولت کی آمیزش کی راہ ہموار کرنے میں اپنا کردار پوری دیانت اور فرض شناسی کے ساتھ ادا کرتی ہے۔

امریکا میں مال و زر کو مذہب کا درجہ دیا جاچکا ہے، اس لیے اِن کی پرستش بڑھتی ہی جارہی ہے یعنی مال و زر کی ہوس کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ کبھی دولت سے بھی کسی کا دل بھرا ہے؟ جارج سوروز اور وارن بفیٹ امریکا کے مال دار ترین افراد میں سے ہیں۔ دونوں کی عمر 93 سال ہے۔ پاؤں قبر میں لٹکے ہوئے ہیں مگر اب بھی وہ اس فکر میں مبتلا ہیں کہ اپنی دولت میں اضافہ کیسے کریں!

میڈیا مُغل کہلانے والے ریوپرٹ مرڈوک کی عمر بھی 93 سال ہے۔ وہ فاکس نیوز کیبل ٹیلی وژن اسٹیشن کا مالک ہے۔ یہ چینل اُس کے لیے ایسی گائے کی طرح ہے جس کا دودھ بس دوہتے ہی رہیے۔ اس چینل کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کو اس طور منتشر کیا جاتا ہے کہ مال دار ترین لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچتا رہے، اُن کے مفادات کو تحفظ ملتا رہے۔

المیہ یہ ہے کہ جن کے پاس سب سے زیادہ دولت ہے وہ زیادہ ٹیکس دینے کو تیار نہیں۔ مال دار ترین امریکی چاہتے ہیں کہ حکومت اُن سے کم سے کم ٹیکس وصول کرے۔ نیویارک اسٹیٹ میں ٹیکس زیادہ ہے اس لیے وہاں کے مال دار ترین افراد دوسری ریاستوں میں رجسٹر کرائی ہوئی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ نیویارک میں مال دار ترین لوگوں کے رہائشی علاقے پارک ایونیو میں آپ کو فلوریڈا کی نمبر پلیٹ والی گاڑیاں دکھائی دیں گی۔

انتہائی مال دار افراد نیویارک میں بھی لاکھوں ڈالر مالیت کے اپارٹمنٹس کے مالک ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنا وقت فلوریڈا میں بھی گزارنا پسند کرتے ہیں تاکہ بنیادی خدمات کی مد میں میونسپل اداروں کو کم سے کم ادا کرنا پڑے۔ جب انسان مال و زر کو بُت بناکر اُس کی پوجا کرتا ہے تب ایسی ہی احمقانہ ذہنیت پروان چڑھتی جاتی ہے۔

امریکا میں ٹیکسوں کا نظام بہت مضبوط ہے۔ اکاؤنٹنگ فرمز قوانین میں خامیاں تلاش کرتی ہیں اور خود بھی بہت کچھ ایسا کرتی ہیں جن کے ذریعے ٹیکس بچانا ممکن ہو، مگر اس کے باوجود ٹیکس تو ادا کرنا ہی پڑتے ہیں۔ اب انتہائی مال دار طبقے کے پاس ٹیکسوں سے بچنے کا ایک اور، قدرے آسان طریقہ ہے … یہ کہ واشنگٹن میں لابنگ کرو، کسی نہ کسی طور حکومت ہی کو خرید لو یعنی اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والی قانون سازی کروالو۔

دی انسٹی ٹیوٹ آن ٹیکسیشن اینڈ اکنامک پالیسی نے بتایا ہے کہ 2001ء سے اب تک ٹیکسوں کی شرح میں پیدا کیے جانے والے فرق کے باعث وفاق کو محصولات سے ہونے والی آمدنی کی مد میں 5100 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ اس میں سے 60 فیصد نقصان 20 فیصد مال دار ترین امریکیوں کو پہنچائے جانے والے فائدے کے باعث رونما ہوا ہے۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں کہ امریکا پر قرضوں کا انتہائی دباؤ ہے۔ وفاقی حکومت کی آمدنی کا بڑا حصہ قرضوں کا سُود ادا کرنے میں کھپ جاتا ہے۔ انتہائی مال دار افراد کو صرف اپنی پڑی ہے۔ اُنہیں اس بات سے کچھ بھی غرض نہیں کہ امریکی قوم پر 35 ہزار ارب ڈالر کے قرضے ہیں۔ بجٹ کا خسارہ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ انتہائی مال دار امریکیوں کی بس ایک ہی خواہش ہے، یہ کہ اُن سے لیے جانے والے ٹیکس میں مزید کمی کردی جائے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتہائی مال دار ہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ دوبارہ صدر منتخب ہونے پر وہ ٹیکسوں کی شرح کم کردیں گے۔ یہی سبب ہے کہ انتہائی مال دار طبقہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں دل کھول کر پیسہ لگارہا ہے۔

ٹرمپ خود بھی مال و زر کے مندر میں مہا پُجاری کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ ارب پتی ہیں اور اُن کا شاہانہ انداز ہی انتہائی مال دار طبقے کو اُن کی طرف متوجہ کررہا ہے۔ مال دار ترین امریکیوں کو یقین ہے کہ دوبارہ صدر منتخب ہونے پر ٹرمپ اُن کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ وہ ’’اپنے‘‘ ہی تو ہیں۔

ری پبلکنز کو انتہائی مال دار امریکیوں کی حمایت حاصل ہے اور اُن کی طرف سے بھرپور فنڈنگ بھی کی جاتی ہے۔ اس فنڈنگ کے ذریعے غریبوں کی بات کرنے والے ڈیموکریٹس کی راہ مسدود کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ یہ لوگ صدر جوبائیڈن جیسے لوگوں کو، جو غریبوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں، کمیونسٹ قرار دے کر اُن کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ غریبوں کے حق میں آواز اٹھانے والوں کو کبھی انقلابی بایاں بازو قرار دے کر مسترد کرنے کی مہم بھی چلائی جاتی ہے۔ یہ سب صرف اس لیے کہ ڈیموکریٹس امریکا میں تیزی سے پنپتے ہوئے زر پرستی کے مذہب کو مکمل طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

ٹرمپ کو یقین ہے کہ وہ اپنے مال دار حامیوں کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔ بہرکیف، انتہائی دائیں بازو کی عوامیت کی جس لہر پر سوار ہوکر وہ یہاں تک پہنچے ہیں وہی لہر، جیسا کہ تاریخ کے ریکارڈ سے ثابت ہے، بے قابو بھی ہوسکتی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ٹرمپ اور اُن کے ساتھیوں کو یہ بے رحم اور بے سمت لہر بہا لے جائے۔

(جرمنی کی معروف ویب سائٹ دی گلوبلسٹ ڈاٹ کام کے لیے یہ تجزیہ Alexei Bayer نے قلم بند کیا ہے۔)

حصہ