انسان دنیا میں جب سے آباد ہوا ہے ہر دور کے کچھ ہنرمند افراد نے آبِ حیات حاصل کرنے کی انتھک کوششیں کی ہیں تاکہ اسے پی کر تاقیامت زندہ رہیں اور جوان بھی۔ مگر آج تک لوگوں کو یہ آبِ حیات نہ ملا ہے اور نہ ملے گا۔
آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آبِ حیات کو پانے کا سہل اور آسان راستہ بتایا ہے، وہ یہ کہ جس کلمۂ شہادت کو پڑھ کر تم ایمان لاتے ہو اور مسلمان ہوتے ہو یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور بندے ہیں، اسی شہادت والے رب کی ربوبیت اور رسول کی رسالت کا پرچم بلند کرنے اور اس کی حاکمیت کو قائم کرنے میں اگر اپنی جان کو اللہ اور رسول کے راستے میں نچھاور کردوگے تو شہادت کا عظیم ترین رتبہ تم کو نہ صرف حاصل ہوگا بلکہ قیامت تک کی ابدی زندگی تم کو حاصل ہوجائے گی اور تم جنت کی بہاروں سے لطف اندوز ہوتے رہوگے۔ قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں اللہ تعالیٰ کی یہ بشارت موجود ہے اور ان عظیم الشان نعمتوں کا تذکرہ موجود ہے، بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے ساتھ ساتھ ہر دور کے شہدا کی زندہ مثالیں موجود ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل کیے جاتے ہیں تم اُن کو مُردہ نہ کہو، یہ تمہاری طرح زندہ ہیں، ان کی زندگی کا تم کو شعور نہیں ہے۔ اور ہم ضرور تم کو اشیا کے نقصان، خوف، بھوک، اور مال اور جان اور فصلوں کے نقصان سے آزمائیں گے، اور جو لوگ صبر کریں گے ان کے لیے بشارت ہے۔ جو مصیبت میں کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا دیا ہوا تھا جو اس کی طرف لوٹ گیا، دراصل یہی لوگ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں اور رحمت کے حق دار ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘ (سورہ البقرہ۔ 154 تا 157)۔ اللہ تعالیٰ کی تمام تر خوشنودی شہدائے اسلام کے لیے ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے بھی شہادت کی تمنا کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’شہید کی روح کے قفسِ عنصری سے پرواز کرتے ہی فرشتے اس کو جنت میں داخل کردیتے ہیں۔‘‘ صحابہ کے حلق پر جب تیر لگتا تو نعرہ لگاتے ’’ربِ کعبہ کی قسم آج ہم کامیاب ہوگئے۔‘‘
جنگِ اُحد کے شہدا کے جسدِ خاکی کے پاس جاکر آپؐ دیکھ رہے تھے، جب حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے جسدِ خاکی کے پاس پہنچے تو آپؐ نے ان کے بیٹے حضرت جابر بن عبداللہؓ کو بلایا اور فرمایا کہ ’’جابر کیا تمہیں بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے شہید والد سے کیا گفتگو کررہا ہے؟‘‘ حضرت جابر بن عبداللہؓ کو نہایت خوشی ہوئی، انہوں نے کہا کہ ’’یہ تو ہماری خوش بختی ہوگی‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ تمہارے والد سے ان کی خواہش پوچھ رہا ہے اور تمہارے والد اللہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ باری تعالیٰ مجھ کو دنیا میں اس شرط کے ساتھ بھیج کہ میں دوبارہ تیرے دین کی سربلندی کے لیے شہید ہوجاؤں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے کہا ’’یہ میری مشیت نہیں‘‘۔ اور آل عمران کی یہ آیتیں نازل ہوئیں ’’جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے گئے وہ مُردہ نہیں ہیں بلکہ تمہاری طرح زندہ ہیں اور اللہ کا دیا ہوا رزق کھاتے ہیں۔ وہ وہاں شاداں و فرحاں ہیں، جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اس میں خوش ہیں، ان کو نہ وہاں کوئی فکر ہے، نہ غم۔‘‘
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُحد میں شہید ہونے والے تمہارے بھائیوں کو اللہ نے سبز جسم عطا کردیا ہے، وہ جنت کے میوہ جات کھاتے ہیں اور جنت کی نہروں پر سیر کرتے ہیں۔ وہ اس فکر میں ہیں کہ پیچھے رہ جانے والے ان بھائیوں کو کیسے ان نعمتوں کی خبر ہوگی۔ تو اللہ تعالیٰ نے آل عمران کی آیات 169 اور 170 نازل فرمائیں۔ یہ آیات جنگ احد کے شہدا کے اعجاز میں نازل ہوئی ہیں۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
آپؐ اصحابؓ کے ساتھ بیٹھے ہیں، آپؐ کی نظر آسمان کی طرف اٹھتی ہے اور آپؐ بلند آواز میں ’’وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہتے ہیں۔ اصحابِ رسولؐ نے دریافت کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ نے کس کے سلام کا جواب دیا؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’میں نے تمہارے بھائی حضرت جعفر طیارؓ کو جواب دیا جو جنگ موتہ میں شہید کردیے گئے تھے اور ان کے دونوں بازو کٹ گئے تھے۔ اللہ نے ان کے بازوؤں میں پَر لگا دیا ہے، وہ فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہوئے جارہے تھے اور انہوں نے ہی مجھے سلام کیا ہے اور میں نے جواب دیا۔‘‘ سبحان اللہ۔
دو ہجری اسلامی غلبے کی ہجری ہے۔ اسی سال تحویلِ قبلہ ہوا یعنی امامت بنی اسرائیل سے لے کر بنی اسماعیل کو عطا کردی گئی۔ دو ہجری میں روزے فرض ہوئے۔ دو ہجری 17 رمضان المبارک کو جنگِ بدر جس کو اللہ نے ’’یوم فرقان‘‘ قرار دیا، کفر و اسلام کی اس پہلی جنگ میں 313 مومنین پر مشتمل بے سرو سامان لشکرِ اسلام سالارِ اعظم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی میں کافروں کے ایک ہزار کے لشکر پر فتح یاب ہوا اور مشرکین مکہ کے تمام بڑے سردار جہنم واصل ہوئے۔ اسی دو ہجری میں جہاد کو رکن اسلام قرار دے کر فرض قرار دینے کی آیت نازل ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ تم پر جہاد ( قتال) فرض کیا گیا، ہوسکتا ہے کہ کوئی بات تم کو ناگوار ہو حالانکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہو، کوئی بات تمہیں پسند ہو مگر وہ تمہارے لیے نقصان دہ ہو، اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت 216)۔ اس آیت میں روزے کی فرضیت کی طرح کتب علیکم القتال کا لفظ آیا ہے۔
سورہ توبہ آیت 111 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اللہ نے مومنوں کی جان اور مال کے بدلے جنت کا سودا کیا ہے۔ یہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، پھر قتل کرتے ہیں اور قتل کیے بھی جاتے ہیں۔ یہ سچا وعدہ ہے توریت، انجیل اور قرآن میں، اور اللہ سے زیادہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہے۔ پس خوشیاں مناؤ اس سودے پر جو تم نے اللہ سے کیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘‘
ذرا اس نوجوان کے رتبے کو دیکھیے جس کو پیغمبروں کے حق میں گواہی دینے کی پاداش میں بستی والوں نے سنگسار کرکے شہید کیا، اور جب اللہ نے اسے جنت میں داخل کیا تو اس نے کہا کہ کاش بستی والوں کو یہ بات معلوم ہو جاتی کہ اللہ نے کس نیک عمل کے عوض مجھے اس نعمت سے نوازا ہے۔ یہی الفاظ سورہ یاسین میں بیان ہوئے ہیں۔
جنگ ِخیبر میں ایک ایسے شہید کا واقعہ تاریخ کے سنہرے حروف میں درج ہے کہ پڑھ کر ایمان کو تازگی محسوس ہوتی ہے اور لب پہ یہ دعا بار بار آتی ہے کہ ’’اے میرے رب ہمیں بھی سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت عطا فرما۔‘‘ ہوا یہ کہ ایک حبشی غلام چرواہا قلعہ خیبر سے اپنے یہودی مالک کی بھیڑوں کو چرانے کے لیے باہر نکلا اور محاصرے پر کھڑی مسلم سپاہ کو دیکھ کر اسے تجسس ہوا، پوچھتے پوچھتے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور ایمان لایا، بھیڑوں کو واپس کیا اور معرکے میں شامل ہوا اور شہید ہوگیا۔ خیبر فتح ہوا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شہدا کے جسد خاکی کو دیکھتے جاتے، مگر جب آپؐ نے صحابہؓ سے پوچھا کہ ’’اسود راعی کہاں ہے؟‘‘ تو کسی صحابیؓ نے کہا کہ فلاں جگہ ایک کالے غلام کی لاش پڑی ہوئی ہے۔ تاریخ میں آتا ہے کہ جب آپؐ اسود راعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسدِ خاکی کے پاس پہنچے تو آپؐ نے اپنا منہ پھیر لیا۔ صحابہؓ نے حیرت سے دریافت کیا کہ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’حوریں اسود راعی کی لاش کو گھیرے ہوئے ہیں۔‘‘
سبحان اللہ، شہادت کا رتبہ کتنا عظیم ہے۔ نہ ایک وقت کی نماز پڑھی، نہ روزے، نہ کوئی نیک عمل اور نہ ذکر و اذکار مگر شہادت نے جنت میں داخل کردیا۔
شہادت دفاعِ امت، شانِ ملت ، عظمت ِاسلام ، وسعت ِدینِ متین ، آزادیِ ملک و قوم ، حفاظت ِچادر و چہار دیواری کی ضمانت ہے۔ یہ شہادت کی برکت تھی کہ مدینہ کی چھوٹی سی ریاست دورِ فاروقیؓ تک ساڑھے 33 لاکھ مربع میل تک وسیع ہو گئی، شرق تا غرب اسلام کا پرچم آویزاں ہو گیا۔
سورہ النساء آیت 76 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو لوگ ایمان والے ہیں وہ اللہ کے راستے میں قتال کرتے ہیں، اور جو کافر ہیں وہ طاغوت کے لیے لڑتے ہیں۔ پس تم شیطانوں کے ان دوستوں سے قتال کرو جس کی ہر چال ضعیف ہے۔‘‘
سورہ الصف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اللہ ان لوگوں سے شدید محبت کرتا ہے جو بنیانِ مرصوص بن کر اس کے راستے میں لڑتے ہیں۔‘‘ (آیت 4-)
اللہ نے سورۃ الحج 78 میں ارشاد فرمایا: ’’اللہ کے راستے میں جہاد کرو جیسا کہ کرنے کا حق ہے جس کے لیے تم کو منتخب کیا گیا ہے، اور دین میں تمہارے لیے کوئی تنگی نہیں ہے جیسا کہ تمہارے باپ ابراہیمؑ کے دین میں نہ تھی اور تمہارا نام مسلم رکھا ہے۔‘‘
سورۃ النساء میں اللہ سوال کرتا ہے کہ ’’ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے قتال نہیں کرتے جو پکار رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نکال اور اپنی جانب سے کوئی ولی اور مددگار بھیج۔‘‘
پھر آج کے مسلم کُش دور میں یہود و نصاریٰ اور ہنود کے اتحادِ خبیثہ نے گزشتہ 60 سال سے شرق تا غرب، شمال تا جنوب، کشمیر تا فلسطین، بوسنیا تا برما مسلمانوں کی نسل کُشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ آج اہلِ غزہ کے لیے زمین پر سر چھپانے کی کوئی جگہ نہیں اور آسمان سے ٹنوں بارود برس رہا ہے۔ غزہ کے شہداء عالمِ اسلام کے بے حس و بے غیرت حکمرانوں اور عوام سے پوچھ رہے ہیں اور فریاد کررہے ہیں، جو سورہ النساء کی مذکورہ آیتوں میں اللہ ایمان والوں سے کررہا ہے۔ مگر ان حالاتِ خوف و سفاکی میں حماس کے مجاہدوں نے بدر و حنین کی یاد تازہ کردی ہے۔ اسی کو علامہ اقبال کی دوربین نگاہوں نے دیکھ کر کہا تھا:
دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
تقدیر امم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ
افغانستان میں روس اور امریکا کی پسپائی اور حماس کی استقامت اس کا بیّن ثبوت ہیں۔
جہاد و قتال غلبۂ دین، اور ظلم کے خاتمے اور عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے ایک منافع بخش تجارت ہے جس کا ذکر سورۃ الصف میں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ یہ کافر اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دینا چاہتے ہیں، مگر اللہ اپنے نور کو غالب کر کے رہے گا چاہے کافروں کو جتنا بھی ناگوار گزرے۔
اللہ نے اپنے نبیؐ برحق کو دینِ برحق دے کر بھیجا ہے تاکہ آپؐ اسے تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کردیں، چاہے مشرکوں کو جتنا بھی ناگوار گزرے۔
’’ایمان والو! کیا تمہیں ایسی تجارت بتائیں جو تمہیں عذابِ الیم سے چھٹکارا دے دے، تو ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر اور جہاد کرو اپنی جان و مال سے، یہی بھلائی کا راستہ ہے۔‘‘
’’اللہ تمہیں معاف کر دے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر کرے گا، اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جو تمہاری ابدی رہائش گاہیں ہوں گی۔یہ عظیم بھلائی ہے۔ اور جلد ہی فتح عظیم حاصل ہوگی اور مومنین کے لیے بشارت ہے۔‘‘اب ان آیات کی روشنی اور قرونِ اولیٰ کے روشن و درخشاں ماضی سے سبق ملتا ہے کہ ظلم اور شرک کے خلاف جہاد اور قتال واحد راستہ ہے جس سے نہ صرف ابدی زندگی حاصل ہوگی بلکہ مسلم امہ کو دوبارہ امامت ن صیب ہوگی۔
چراغِ زندگی ہو گا فروزاں ہم نہیں ہوں گے
چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں ہم نہیں ہوں گے
ہمارے بعد ہی خونِ شہیداں رنگ لائے گا
یہی سرخی بنے گی زیبِ عنواں ہم نہیں ہوں گے
جب جب ہم نے اس راستے کو ترک کیا اور عیش و عشرت کی زندگی میں پڑے، توکبھی تاتاری ، کبھی یورپی ، کبھی کمیونسٹ اور کبھی اہلِ ہنود ہماری بستیاں اجاڑتے رہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
شہادت کا رتبۂ عظیم نہ صرف اُس شہید کے لیے ہے جو اللہ کے راستے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے بلکہ ملک و ملتِ اسلامیہ کی عظمت و رفعت بھی اسی سے منسوب ہے۔
آندھیوں میں اک دیا جلتا ہوا رہ جائے گا
میں چلا جاؤں گا میرا نقشِ پا رہ جائے گا