آخر شب کے ہم سفر

135

’’کیا بات ہے؟‘‘
’’بھوک بالکل ہے ہی نہیں پاپا۔ یونی ورسٹی کینٹین میں بہت سے سموسے کھالئے تھے‘‘۔

’’سارے ملک میں ان بدمعاشوں نے آگ لگا رکھی ہے۔ ایسے پُرآشوب زمانے میں تم اتنی رات گئے گھر لوٹی ہو۔ جوزف ہی کو ساتھ لے جایا کرو‘‘۔

’’نہیں پاپا۔ گرودیو کا انتقال ہوگیا ہے نابے چارے کا۔ تو یونی ورسٹی میں ہم لوگ ان کی یاد میں ایک بڑا زبردست پروگرام کرنے والے ہیں۔ اس سلسلے میں میٹنگ تھی۔ میٹنگ کے بعد آپ جانیے۔ حسب معمول اڈہ شروع ہوگیا‘‘۔
’’آج کل اڈے کا زمانہ نہیں ہے۔ ہر طرف گولیاں برس رہی ہیں، احتیاط رکھو‘‘۔

’’بہت اچھا پاپا‘‘۔ وہ کرسی سے اُٹھ کر دروازے کی طرف بڑھی۔
اچانک ریورنڈ بنرجی کو ایک خیال آیا۔ یونی ورسٹی تو اس بدبخت بغاوت کی وجہ سے بند ہوچکی ہے۔ یہ پھر مجھے دقیانوسی احمق بڈھا سمجھ کر بیوقوف تو نہیں بنا رہی؟
’’روزی اِدھر آئو‘‘۔ انہوں نے کڑک کر کہا۔
وہ ٹھٹھک گئی۔
’’بیٹھ جائو‘‘۔ انہوں نے حکم دیا۔
وہ اطمینان سے واپس آکر کرسی پر بیٹھ گئی۔
’’تم پھر ان… ان غداروں سے جا ملی ہو؟‘‘
اُس نے نفی میں سر ہلا دیا۔

’’روزی‘‘۔ ریورنڈ بنرجی نے اپنے دونوں ہاتھ میز پر رکھ کر ٹوٹی ہوئی آواز میں ایک بار پھر کہنا شروع کیا…’’جس سرکار نے ہمیں جنگلی سے انسان بنایا۔ بت پرستی کے جہنمی راستے سے نکال کر‘‘۔

’’اوہ نو پاپا… نوٹ اَگین…‘‘ روزی نے ایک لخت جھنجھلا کر میز پر مُکّا مارا، پانی کا گلاس چھلک گیا۔ ایستھر بنرجی نے جھاڑن اٹھا کر پھرتی سے میز صاف کرتے ہوئے اُسے ڈانٹا ’’روزی‘‘۔

’’سوری ماما‘‘۔ پھر وہ اپنے پاپا کی طرف مڑی۔
پاپا۔ سنئے۔ سی۔ ایف اینڈریوز تو نہ صرف پکے عیسائی تھے بلکہ اصل نسل انگریز بھی تھے۔ اور آپ سے کہیں زیادہ بڑے پادری۔ آپ نے جا کر کبھی ان کو یہ سب کیوں نہ سمجھایا۔؟‘‘ اس نے نہایت ڈھٹائی سے مسکراتے ہوئے کہا۔
کوئٹ انڈیا۔ کوئٹ انڈیا’’پادری بنرجی طیش کے عالم میں کرسی سے اُٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگے۔ احمقوں، گدھو، انگریز چلاگیا تو ہم پھر اسی بربریت، بے ایمانی اور بے انصافی کے دور کی طرف لوٹ جائیں گے۔ جس سے انہوں نے ہمیں نجات دی‘‘۔

روزی نے دوبارہ ذرا پریشانی سے گھڑی پر نظر ڈالی۔ پادری بنرجی اب ایک کرسی کی پشت پر ہاتھ رکھ کر نہایت برافروختہ آواز میں اس سے مخاطب تھے۔ ’’کوئٹ انڈیا کی بچی، ہندوئوں اور مسلمانوں کی جھوٹی ڈینگیں پڑھ پڑھ کر پاگل ہو گئی۔ ہندوستان کی سنہری قدیم تہذیب ! سنہری قدیم تہذیب یہ تھی کہ منتیں پوری کرنے کے لیے ہندو اپنے بچوںکو گھڑیالوں کے سامنے پھینک دیتے تھے۔ ہندو لڑکیوں کو مار ڈالا جاتا تھا۔ مسلمان ٹھگ مسافروں کا گلا گھونٹتے تھے۔ انڈین کلچر! انڈین کلچر! کتنے انگریز مشنریوں نے زندہ عورتوں کو چتا سے نکالا۔ اور جب وہ ان بدنصیبوں کو بچانے کی کوشش کرتے، عین وہیں شمشان گھاٹ پر فساد ہو جاتا تھا… خود میری پَردادی کو… جانتی ہے احمق؟ میری اپنی پَردادی کو ستی ہونا پڑا۔ ہندو کلچر ہند کچر…‘‘

روزی کو باپ کا اس قدر شدید غصہ دیکھ کر بے اختیار ہنسی آگئی۔ اس نے آہستہ سے کہا ’’مگر پایا۔ آپ کے مہذب مسیحی یورپ میں بھی تو ہزاروں بے گناہ عورتوں کو جادوگری کے الزام میں صدیوں تک زندہ جلایا جاتا رہا۔ اور جس زمانے میں ہندوستان میں ہندو مسلمان مزے سے اکٹھے رہ رہے تھے اس وقت آپ کے چہیتے یورپ میں INQUISTION ہو رہا تھا۔ ہاہاہا !‘‘ ’’روزی… چُپ…‘‘ ایستھر بنرجی نے سہم کر باپ بیٹی کی تکرار ختم کرانی چاہی۔
’’اور سنئے پاپا‘‘ روزی مزے سے کہتی گئی۔ یسوع کے پجاریوں نے سارے یہودیوں کو اُٹھا کر GHETTOS میں ڈال دیا۔ (میری اور بے چارے پاپا کی ڈبیٹنگ سوسائٹی! اس نے دل میں سوچا) اور یہ جو پاپا آپ اچھوتوں کی بات کرتے ہیں تو کیا آپ کے انگلینڈ میں ایک چمنی سُوئپ یا اُسے کیا کہتے ہیں… چار دو من… یہ کسی لارڈ کی میز پر اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں؟۔ ہاہاہا‘‘۔

’’کج بحثی مت کرو روزی‘‘۔ پادری بنرجی نے ڈانٹا۔
روزی کو ایک اور نکتہ یاد آیا (گو اس بحثا بحثی میں آدھ گھنٹہ بر باد جائے گا) ’’یہ جو آپ ہمیشہ ہندوستان کے پرانے مطلق العنان حکمرانوں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں… خصوصاً سراج الدولہ کو، جو میرا ہیرو ہے… تو کیا آپ کے ایلز بتھن انگلستان میں بات بے بات لوگوں کے سر قلم نہیں کر دیئے جاتے تھے؟

جسے دیکھو ٹاور آف لندن میں پڑا جھینک رہا ہے اور دوسرے روز کھٹ سے سرغائب۔ وہاں عام آدمی کے لیے کوئی انصاف تھا؟ صرف سو برس پہلے تک آپ کے انگلستان میں ایک بھیڑ کی چوری کی سزا موت تھی۔ اب یہ ’’لا اینڈ آرڈر‘‘ کا کس منھ سے ہم پر رعب ڈالتے ہیں۔ یہ انگریز کے بچے کمینے… ہماری دولت لوٹ کر تو خود کو مہذب بنایا ان بنیوں نے‘‘۔
پادری بنرجی عینک اُتار کر اسے صاف کرتے ہوئے پھر اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔ بدتمیز، گستاخ، زباں دراز، ذہین بچی۔

’’اور بتائوں آپ کو پاپا…‘‘ روزی اب صریحاً بے رحمی پر اُتر آئی تھی۔ آپ کے وہ جو ایک کٹر رومن کیتھولک دوست ہیں۔ ڈاکٹر فرانسس باسو۔ جب ان کی بڑی لڑکی نے ایک مسلمان سے شادی کی جو بے چارہ ایک اعلیٰ خاندان بنگالی ہے تو انہوں نے فوراً بیٹی کو عاق کردیا۔ اور آپ بھی کس قدر خفا ہوئے تھے۔ افوہ۔ اور ابھی پچھلے دنوں ان کی چھوٹی لڑکی نے ایک معمولی امریکن فوجی سپاہی سے بیاہ رچایا تو انکل باسو فخر سے پھولے نہیں سمائے حالانکہ… وہ رومن کیتھولک تو کیا عیسائی ہی نہیں سرے سے یہودی ہے۔ اور جناب آپ نے بھی فوراً فلومینا کو مبارک باد کا تار بھیجا۔ تو پاپا یہ تو غلامانہ ذہنیت اور گوری چمڑی کا رعب‘‘۔

’’بس کر روزی‘‘۔ ایستھر بنرجی نے سراسیمگی سے کہا اور چپکے سے اشارہ کیا کہ کمرے سے چلی جائے۔ وہ گہرا سانس لے کر کرسی سے اُٹھی۔
’’اچھا۔ اچھا۔ بیٹی‘‘۔ پادری بنرجی نے ملول آواز میں جواب دیا۔ ’’نکال دو انگریزوں کو ہندوستان سے پھر دیکھنا کیا حشر ہوتا ہے۔ تم سب الٹرا نیشنلسٹوں کا۔ جوں ہی یہ ہٹے تمہارے لاڈلے ہندو مسلمانوں میں وہ جوتا چلے گا، وہ بھیانک خانہ جنگی ہوگی کہ دیکھ لینا۔ تب تمہیں اس جاہل بوڑھے پادری کی باتیں یاد آئیں گی‘‘۔ ان کی آواز بھرا گئی۔

روزی نے بڑی نرمی سے کہا۔ ’’پاپا۔ میں تو یونہی آپ سے تفریحاً بحث کررہی تھی۔ آخر مجھے کالج کی ڈبیٹوں میں یونہی ترافیاں ملتی رہی ہیں، مفت! میں قوم پرست تو یقیناً ہوں پاپا مگر آج کل جو تباہ کاری مچ رہی ہے میں خود اس کے خلاف ہوں‘‘۔

’’تم جانتی ہو بیٹی کہ ایسے نازک موقع پر جبکہ برطانیہ ہر محاذ پر ہار رہا ہے…‘‘
’’ہمیں اس کی مدد کرنی چاہئے…بالکل… بالکل‘‘۔ روزی نے جوش سے ان کی بات پوری کردی۔

’’اچھا بس ہوگئی تم لوگوں کی ڈبیٹ۔ اب پاپا کو جا کر سونے دو روزی‘‘۔ اسیتھر نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔

’’یس ماما‘‘۔ روزی نے دروازے میں جا کر باہر جھانکا۔ مینھ تھم چکا تھا۔ ’’افوہ کتنی گھپ اندھیاری رات ہے ماما۔ دیکھنا سبزی باڑی پر جگنو کیسے چمک رہے ہیں پاپا‘‘۔ اس نے مڑ کر پادری بنرجی سے دوبارہ کہا۔ ’’کیا آپ واقعی خفا ہوگئے؟ میں تو آپ کو TEASE کر رہی تھی۔ سچ مچ پاپا…‘‘ کرسی کے پیچھے آکر اس نے بڑے لاڈ سے ان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ پادری بنرجی خوش ہوگئے۔ عینک اُتار کر اسے رومال سے صاف کیا۔
’’سچ مچ پاپا۔ یونی ورسٹی تو بند ہوچکی ہے، مگر ہماری لٹریری سوسائٹی ٹیگور کا تعزیتی پروگرام کررہی ہے۔ کل جلسہ ہوگا بڑا‘‘۔
’’دیپالی اس جلسے میں شامل ہے؟ وہ بھی آئی تھی؟‘‘
’’جی نہیں… جی ہاں… پاپا۔ رابندر سنگیت کا پروگرام اس کے بغیر کیسے مکمل ہوسکتا ہے‘‘۔
’’ہوں‘‘۔ انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔
’’گڈ نائٹ پاپا‘‘۔ اس نے جھک کر ریورنڈ بنرجی کا سر چوما۔
’’گڈ نائٹ ماما‘‘۔
’’گڈ نائٹ۔ گوڈ بلیس یُو مائی چائلڈ‘‘۔ والدین نے تقریباً ایک زبان ہو کر کہا۔

روزی ایک لحظے کے لئے ٹھٹھکی۔ ان دونوں پر اچٹتی سی نظر ڈالی۔ اور تیزی سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔

ریورنڈ بنرجی کرسی سے اُٹھے۔ اور دوبارہ ٹہلنے لگے۔ سائیڈ بورڈ پر رکھے گلدان کو چھوا۔ ’’گوڈ بلیس آور ہوم‘‘۔ کے طغرے پر نظر ڈالی جس کے مقابل میں یسوعؑ کے ’’آخری طعام‘‘ کا بڑا سا رنگین پرنٹ دوسری دیوار پر آویزاں تھا۔ وہ چند سیکنڈ تک اس تصویر کو دیکھا کئے۔ پھر حسب عادت کمر کے پیچھے ہاتھ باندھے، سرجھکائے، مطمئن اور خداوند تعالیٰ کے مشکور اپنے کمرے کی طرف چلے گئے۔

کوئی پون گھنٹے بعد مسز بنرجی نے گھر کے سارے کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد حسب معمول اوولٹین کی دو پیالیاں تیار کیں، ایک پیالی طشتری سے ڈھانپ کر سائیڈ بورڈ پر رکھی اور دوسری لے کر روزی کے کمرے میں گئیں۔ وہ کمرے میں نہیں تھی۔ انہوں نے پیالی میز پر رکھ دی اور غسل خانے کی طرف مڑکر آواز دی۔ ’’روزی بیٹا۔ صبح کو دھوبی آئے گا، اپنے کپڑے نکال…‘‘ وہ اپنا جملہ پورا نہ کرسکیں کیونکہ نہ جانے کیوں آپ سے آپ ان کا دل دھک سے رہ گیا۔ نہ جانے کیوں ان کو خیال آیا کہ روزی بھاگ گئی وہ اپنی جگہ پر منجمد رہ گئیں۔ پھر انہوں نے نوٹس کیا کہ غسل خانہ اندھیرا پڑا ہے۔ اور تیز ہوا اندر آرہی ہے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر دیکھا۔ غسل خانے کا باہر کی رُخ کا دروازہ کھلا پڑا تھا۔

شاید وہ جگنو پکڑنے سبزی باڑی میں اُتر گئی ہو۔ مسز بنرجی نے دروازے میں جا کر آواز دی۔

’’روزی… روزی بیٹے…‘‘ پھر وہ چھتری لگا کر اندھیرے اور کیچڑ میں باہر نکلیں۔ ڈیزی سرشام سے جا کر اپنے کوارٹر میں سو رہی تھی۔ اسے کیا معلوم ہوگا۔ انہوں نے پورے کمپائونڈ کا چکر لگایا۔ سارے کوارٹروں میں سونا پڑا تھا۔ گرجا کی برساتی میں روشن بلب پر پتنگے چکر کاٹ رہے تھے۔ سارے میں ہُو کا عالم طاری تھا۔ بچی ایسی بھیانک رات میں تو کہاں چلی گئی… یہ کیا ہوا؟۔

وہ میں گھر میں واپس آئیں۔ کیچڑ میں لت پت چپلیں پائیدان پر اُتار کر آہستہ آہستہ چلتی سارے کمروں میں گئیں دروازے بند کئے۔ بتیاں بجھائیں، اور پھر اپنے بیڈ روم میں داخل ہوئیں جہاں ان کے شوہر شب خوابی کا لباس پہنے اولٹین کے منتظر غنودگی کے عالم میں بید کی کرسی پر بیٹھے تھے۔ نیند میں ان کا سر سامنے جھک آیا تھا۔ بیوی کی آہٹ پر وہ چونکے اور ان کی طرف دیکھے بغیر عادت کے مطابق پیالی کے لئے ہاتھ بڑھایا۔

ایستھر بنرجی نے ان کے قریب جا کر آہستہ سے کہا … ’’پال… ہماری لڑکی گھر سے بھاگ گئی‘‘۔
پادری بنر جی نے سر جھٹکا، پلکیں ملیں اور بیوی کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔ ان کے صرف ہونٹ ہلے، منہ سے آواز نہیں نکلی۔

ایستھر گری بالا نے اقرار میں سر ہلایا، وہ ان کے قریب فرش پر دوزانو بیٹھ گئیں۔
باہر بجلی زور سے چمکی اور شکست خوردہ میاں بیوی کے ٹیبلوں کو روشن کر گئی۔ (مناظر وقت میں معدوم نہیں ہوں گے)

پادری بنر جی چند منٹ تک بالکل چپ، ساکت، منجمد بیٹھے رہے۔ پھر انہوں نے لرزاں ہاتھوں سے عینک ٹٹولی۔ ایستھر نے میز پر رکھے سیاہ کیس میں سے عینک نکال کر ان کو دی۔ پادری بنر جی نے اپنے پلنگ کے سرہانے سے انجیل مقدس اُٹھائی۔ ایستھر ان کے نزدیک دوسری کرسی پر بیٹھ گئیں اور آنچل سے سر ڈھانپ لیا۔

’’LET US PRAY‘‘ پادری بنر جی نے آہستہ سے کہا۔
اس ساری رات پادری بنر جی حضرت ایوبؑ کی گریہ دزاری کا باب پڑھتے رہے۔
اور دیکھو، کہ دنیا کے سارے مقدس صحیفوں کے یہ سارے ابواب کتنے ہزار ہا برسوں سے کتنے ان گنت انسانوں کی مصیبت کے وقت میں پڑھے گئے ہیں۔ اور وہ چند الفاظ اسی طرح موجود ہیں۔
وقت اور الفاظ انسان کے شکاری ہیں۔
(جاری ہے)

حصہ