یگانہ چنگیزی
کیوں کسی سے وفا کرے کوئی
دل نہ مانے تو کیا کرے کوئی
نہ دوا چاہیے مجھے نہ دعا
کاش اپنی دوا کرے کوئی
مفلسی میں مزاج شاہانہ
کس مرض کی دوا کرے کوئی
درد ہو تو دوا بھی ممکن ہے
وہم کی کیا دوا کرے کوئی
ہنس بھی لیتا ہوں اوپری دل سے
جی نہ بہلے تو کیا کرے کوئی
موت بھی آسکی نہ منہ مانگی
اور کیا التجا کرے کوئی
درد دل پھر کہیں نہ کروٹ لے
اب نہ چونکے خدا کرے کوئی
عشق بازی کی انتہا معلوم
شوق سے ابتدا کرے کوئی
کوہ کن اور کیا بنا لیتا
بن کے بگڑے تو کیا کرے کوئی
اپنے دم کی ہے روشنی ساری
دیدۂ دل تو وا کرے کوئی
شمع کیا شمع کا اجالا کیا
دن چڑھے سامنا کرے کوئی
غالب اور میرزا یگانہؔ کا
آج کیا فیصلہ کرے کوئی
احمد فراز
اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
زندگی تیری عطا تھی سو ترے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی ترا احساں جاناں
دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہے فسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں
اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پیے بھی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں
آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگ مینا سلگ اٹھی کہ رگ جاں جاناں
مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں
ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں
اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
سر بہ زانو ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں
جس کو دیکھو وہی زنجیر بہ پا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخلِ زنداں جاناں
اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں
ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں
ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں
قابل اجمیری
نئے چراغ لیے شامِ بے کسی آئی
کہ دل بجھا تو ستاروں میں روشنی آئی
جنونِ شوق نے پہنچا دیا کہاں مجھ کو
نگاہِ دوست بھی اکثر تھکی تھکی آئی
ہمارے پاس کہاں آنسوؤں کی سوغاتیں
کسی کو اپنا بنا کے بڑی ہنسی آئی
جہانِ دار و رسن ہو کہ بزمِ شعر و ادب
ہمارے سامنے اپنی ہی زندگی آئی
تمہاری یاد کو آرامِ جاں بنایا تھا
تمہاری یاد بھی لیکن کبھی کبھی آئی
ہزار رنگ دیے جس نے زندگانی کو
اسی نظر سے محبت میں سادگی آئی
مرے خلوص کا عالم نہ پوچھیے قابل
شکستِ جام سے آوازِ زندگی آئی
اعجاز رحمانی
ہنسی لبوں پہ سجائے اداس رہتا ہے
یہ کون ہے جو مرے گھر کے پاس رہتا ہے
یہ اور بات کہ ملتا نہیں کوئی اس سے
مگر وہ شخص سراپا سپاس رہتا ہے
جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سورج
اسی جگہ وہ ستارہ شناس رہتا ہے
گزر رہا ہوں میں سودا گروں کی بستی سے
بدن پہ دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے
لکھی ہے کس نے یہ تحریر ریگِ ساحل پر
بہت دنوں سے سمندر اداس رہتا ہے
میں وحشتوں کے سفر میں بھی ہوں کہاں تنہا
یہی گماں ہے کوئی آس پاس رہتا ہے
میں گفتگو کے ہر انداز کو سمجھتا ہوں
کہ میری ذات میں لہجہ شناس رہتا ہے
وہ فاصلوں میں بھی رکھتا ہے رنگ قربت کے
نظر سے دور سہی دل کے پاس رہتا ہے
جب ان سے گفتگو کرتا ہے کوئی بھی اعجازؔ
اک التماس پس التماس رہتا ہے
وسیم بریلوی
اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئنہ ہو جاؤں گا
اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاؤں گا
تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں
میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاؤں گا
مجھ کو چلنے دو اکیلا ہے ابھی میرا سفر
راستہ روکا گیا تو قافلہ ہو جاؤں گا
ساری دنیا کی نظر میں ہے مرا عہد وفا
اک ترے کہنے سے کیا میں بے وفا ہو جاؤں گا
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
(بشیر بدر)
ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو
کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا
(ساحر لدھیانوی)
ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
(قتیل شفائی)
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
(غلام محمد قاصر)
مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے
تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا
(جون ایلیا)
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
خیر تم نے تو بے وفائی کی
(فراق گورکھپوری)
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
(ناصر کاظمی)
میں تو غزل سنا کے اکیلا کھڑا رہا
سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے
(کرشن بہاری نور)
انجام وفا یہ ہے جس نے بھی محبت کی
مرنے کی دعا مانگی جینے کی سزا پائی
(نشور واحدی)