دل کی باتیں

140

’’دروازہ کھولو… جلدی دروازہ کھولو۔‘‘ اتنی سی دیر میں اسامہ نے کئی بار زور زور سے دروازہ پیٹ ڈالا۔

’’کیا مصیبت آگئی… صبر نہیں ہوتا تم سے! دروازہ توڑو گے کیا؟ تھوڑی سی دیر تو لگتی ہے آنے میں۔‘‘اس کی بہن نے جھنجھلاکر دروازہ کھولا۔

’’تمہیں دھوپ اور گرمی میں باہر نکلنا پڑے تو پتا چلے… برا حال ہوگیا میرا، اوپر سے اس کھٹارا بائیک کا ٹائر بھی پنکچر ہوگیا تھا… ہر وقت کی یہی مصیبت ہے۔‘‘

اسامہ نے غصے میں بائیک کی چابی زور سے پھینکی اور فریج سے ٹھنڈا پانی نکال کر کھڑے ہوکر غٹاغٹ چڑھا گیا۔

’’اسامہ! یہ کیا طریقہ ہے! گرمی اور غصے میں ساری تمیز ہی بھول گئے ہو کیا؟‘‘ امی نے اسے ٹوکا۔ شور کی آواز سن کر ابا بھی کمرے سے باہر آگئے۔

’’میاں صاحب زادے! شکر کرو کہ تمہارے پاس بائیک ہے، کسی کے پاس تو یہ بھی نہیں ہوتی، وہ بھی تو اسی گرمی میں بسوں اور چنگ چی رکشوں میں سفر کرتے ہیں، یا جو لوگ ریڑھی لگاتے ہیں، روز کے کمانے والے ہیں وہ بھی انسان ہیں۔ ہم بھی بسوں میں سفر کرتے تھے اور کبھی کبھار تو کرائے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے تو کتنی کتنی دور پیدل ہی چل کر جاتے تھے۔‘‘ ابو نے اسے احساس دلاتے ہوئے کہا۔

’’بس ابو رہنے دیں… نہ تو دادا نے اپنی اولاد کے لیے کوئی جائداد بنائی، نہ ہی آپ نے ہمارے لیے کچھ کیا… گورنمنٹ جاب ہوتے ہوئے بھی ایک گھر تک تو آپ بنا نہیں سکے، سیکنڈ ہینڈ ہی سہی کم از کم ایک گاڑی ہی خرید لیتے۔ شاہد صاحب کو دیکھیں، آپ کے ساتھ ہی کام کرتے تھے، کیا عالی شان گھر بنایا ہے اور اُن کے بچوں کے پاس نوکریاں ہیں… اپنی اپنی گاڑیاں ہیں۔‘‘ اسامہ نے بدتمیزی کی حد ہی پار کردی۔

’’چپ ہوجاؤ بے ادب! شرم نہیں آتی باپ کے آگے زبان چلاتے ہوئے…! جاؤ اپنے کمرے میں۔‘‘ امی نے اسامہ کو دھکیلتے ہوئے کہا۔

’’صاحب زادے! جن کی مثال تم دے رہے ہو، یہ تم بھی جانتے ہو کہ انہوں نے
کون سی کمائی سے گھر بنائے ہیں اور بچوں کو گاڑیاں دی ہیں… اللہ کا شکر ہے ہم ہزاروں سے بہتر ہیں۔ میرا ضمیر مطمئن ہے، میں نے ہمیشہ ایمان داری سے کام کیا اور حلال کا لقمہ تم لوگوں کو کھلایا ہے۔‘‘ ابو کو بیٹے کی سوچ اور الفاظ نے بہت دکھ پہنچایا تھا

’’تو آپ کی اس ایمان داری کا ہمیں کیا فائدہ ہوا؟ نہ کبھی آپ نے میری جاب کے لیے سفارش کی، نہ کبھی اتنی رقم دے سکے کہ میں بیرونِ ملک جاکر کچھ کرلیتا… کب سے اچھی نوکری کے لیے خوار ہورہا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ سامنے رکھی کرسی کو ٹھوکر مارتا ہوا کمرے میں چلاگیا اور ابو نے اپنے لرزتے ہوئے وجود کو سنبھالنے کے لیے دیوار کا سہارا لیا۔

’’جس باپ نے اپنے منہ کا نوالہ تمہیں کھلایا، اپنی ضرورتوں کو نظرانداز کرکے تم لوگوں کی ضرورتیں پوری کیں، اچھی تعلیم دلوائی، آج انہیں یہ صلہ دے رہے ہو! اللہ کا دیا سب کچھ تو ہے ہمارے پاس، پھر کیوں ایسی باتیں کرکے باپ کا دل دُکھاتے ہو…! اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو گے تو خود ہی منہ سے شکر کا کلمہ نکلے گا، اور اوپر والوں کو دیکھو گے تو اللہ کی ناشکری کرتے رہوگے جوکہ تم کررہے ہو۔ رب کی نعمتوں کو گننا شروع کروگے تو شمار نہیں کرسکو گے۔‘‘ امی نے دوپٹے کے پلو سے آنسو پوچھتے ہوئے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئیں۔

اسامہ نہاکر نکلا تو برآمدے سے باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اس نے جھانک کر دیکھا تو کوئی عورت تھی جو مصالحے اور پاپڑ وغیرہ بیچنے آئی تھی۔ دھوپ کی تمازت سے اس کا چہرہ تانبے کی طرح ہورہا تھا۔

امی نے حسبِ عادت اسے گھر میں بٹھا لیا تھا اور ٹھنڈا پانی دیتے ہوئے اس سے پوچھا ’’تمہارے گھر میں کوئی مرد نہیں ہے کمانے والا جو اتنی سخت گرمی اور تپتی دوپہر میں پریشان ہورہی ہو؟‘‘

عورت نے قمیص کے دامن سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا ’’باجی! چند مہینے پہلے میرے شوہر کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا تھا، گھر میں ایک بوڑھی ساس اور دو چھوٹے بچے ہیں، اُنہی کی خاطر در در کی خاک چھان رہی ہوں… مالک مکان نے بھی کہہ دیا ہے کہ وقت پر کرایہ نہ دیا تو کہیں اور بندوبست کرلینا۔ میرے والدین بھی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں اور شوہر کے رشتے داروں نے اس کے دنیا سے جاتے ہی آنکھیں پھیر لیں۔‘‘ دکھ اور بے بسی اس کے لہجے سے ظاہر ہورہی تھی۔ عورت نے پانی پی کر گلاس میز پر رکھا اور جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ امی نے اس سے کچھ چیزیں خریدیں اور اس کے بچوں کے لیے کھانا اور گھر میں رکھے پھل وغیرہ بھی دے دیے۔

اسامہ کا غصہ اور جھنجھلاہٹ ختم ہوچکی تھی… اس نے ٹھنڈے دماغ سے سوچا کہ یہ ایک عورت ہوتے ہوئے کس طرح سختیاں برداشت کررہی ہے، اس جیسے معلوم نہیں اور کتنے لوگ ہوں گے جو دو وقت کی روٹی کے لیے کتنی تگ ودو کرتے ہوں گے۔ میں تو خوش نصیب ہوں کہ ماں باپ کے شفیق سائے میں پلا بڑھا… میرے باپ نے دن رات محنت کی۔ خود بسوں میں سفر کیا جب کہ مجھے بائیک دلوائی… خود پرانے کپڑوں پر گزارا کرکے ہمیں ہر خوشی کے موقع پر نئے کپڑے بنواکر دیے، خود کھانے سے ہاتھ کھینچ کر ہمیں پیٹ بھر کر کھانے کا موقع دیتے۔ اللہ نے مجھے صحت دی، صلاحیتیں دیں، عقل و شعور دیا… مجھے سفارش کے بجائے اللہ کی ذات اور اپنی قابلیت پر بھروسا کرنا چاہیے تھا… جیسے جیسے وہ اللہ کی نعمتیں اور ابا کے احسانات شمار کررہا تھا اُس کا سر ندامت سے جھکتا جارہا تھا۔ واقعی غصہ حماقت سے شروع ہوتا ہے اور ندامت پر ختم ہوتا ہے۔ بلاشبہ شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے، وہ کیسے وار کرتا ہے۔ اس نے سوچ لیا کہ ابا کے پیر پکڑ کر معافی مانگ لے گا… انہیں منالے گا… ان کے گلے لگ جائے گا۔ ’’پتا نہیں ابا معاف کریں گے یا نہیں؟‘‘ دل میں وسوسہ آیا، شیطان کا ایک اور وار۔ ’’نہیں میرے ابا بہت اچھے ہیں، وہ مجھے ضرور معاف کردیں گے۔‘‘ اس نے خود کو یقین دلایا اور بے اختیار اس کے قدم ابا کے کمرے کی طرف بڑھتے چلے گئے۔

حصہ