یوں تو ہر رات ہی ہیبت ناک، اندھیری، پراسرار اور خوف ناک ہوتی… لیکن آج نہ جانے کیوں سکوت کچھ زیادہ ہی تھا۔
پلاسٹک کے خیموں کی اس بستی میں غموں سے چُور مگر جذبوں سے لبریز وہ انسان بس رہے تھے جو ایمان کے سوا اپنا سب کچھ گنوا چکے تھے۔ اب یا تو ان کی اپنی جانیں باقی تھیں یا پھر وہ ایمان، جو اس بستی کے رہنے والوں کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔
سالم عبداللہ گرمی اور حبس سے گھبرا کر قریبی پہاڑی پر جا بیٹھا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد اس کا بڑا بیٹا معاذ بھی اس کے پاس آ بیٹھا۔
’’کیا ہوا، نیند نہیں آرہی؟ سعد کہاں ہے؟‘‘ سالم نے بیٹے کا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور سر میں ہاتھ پھیرنے لگا۔‘‘
’’سعد سو رہا ہے ابی! فاطمہ خالہ ہیں اُس کے پاس، وہ اسے اپنے بچوں کی کہانی سنا رہی تھیں تو وہ امی کو یاد کرکے رونے لگا اور روتے روتے سو بھی گیا۔ ابی! کیا اب ہم کبھی اپنے گھر واپس نہیں جا سکیں گے؟‘‘
سالم کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
معاذ نے اپنے والد کے چہرے کو دیکھا اور خود ہی بات کرنے لگا ’’ہاں ویسے بھی اب وہاں بچا ہی کیا ہے، صرف ہماری عمارت کے کھنڈرات… لیکن ابی! وہاں امی بھی تو ہیں اور دادی اور دادا…‘‘
وہ ایک ایک کرکے اپنے گھر کے اُن تمام افراد کو گِن رہا تھا جو ملبے تلے دب کر شہید ہوگئے تھے… ان کی وہ بستی اب قبرستان ہی تو بن چکی تھی۔
ایک دم اسے کچھ یاد آیا… ’’ابی! آپ کو پتا ہے ایک دن دادی مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ میں بالکل آپ کے جیسا ہوں، لیکن میری آنکھیں بالکل امی کے جیسی ہیں، بالکل نیلی، ہیرے جیسی… ابی! دیکھیں، کیا آپ کو بھی میری آنکھوں میں امی نظر آتی ہیں؟‘‘
سالم، معاذ کے اس طرح آنکھیں کھول کر چہرہ سامنے کرنے پر بے اختیار مسکرایا۔ اتنے اندھیرے میں جیسے ہی چاند بادلوں سے ذرا جھانکا، معاذ کی نیلی آنکھیں ہیروں کی مانند چمکیں… ایک لحظہ کے لیے سالم کو یاد ہی نہیں رہا کہ وہ اس وقت کہاں اور کس حال میں ہے؟ وہ نیلی آنکھیں عائشہ کا پیکر بن کر سامنے جھلملا رہی تھیں… اس کے معصوم بچوں کی ماں اور اس کے لیے پیکرِ وفا۔
’’سالم! اگلے سال بس تم مجھے قدس لے کر جاؤ گے، جب سے شادی ہوئی ہے میں جا ہی نہیں سکی۔ اب تو بچے بھی اتنے بڑے ہوگئے ہیں، بس اب ہم سب چلیں گے وہاں… مجھے اپنے گھر کا وہ زیتون کا پیڑ بہت یاد آتا ہے۔‘‘
’’عائشہ! اِن شاء اللہ کہو، اِن شاء اللہ… میں نے بات کی ہے تمہارے بابا جان سے، وہ کسی طرح بندوبست کروا ہی دیں گے۔ یہاں غزہ سے القدس جانا وہ بھی یہودیوں کے درمیان سے…آسان ہے کیا؟‘‘ سالم نے ٹھیر ٹھیر کر کہا۔
’’وہ بزدل یہودی؟ جو ہمارے پتھروں سے بھی ڈرتے ہیں… ہماری مقدس زمین پر قبضہ کرنے والے! دیکھنا سالم، ایک دن ہم ان سب کو اسی طرح قدس کے آس پاس سے باہر کردیں گے جیسے انہوں نے ہمیں کیا… یا تو قدس ہمارا ہوگا یا پھر ہم اس کی خاطر اپنی جانیں دے دیں گے۔‘‘ وہ یونیورسٹی میں مقررہ رہ چکی تھی اور جذبات کی شدت اس کے حسین چہرے سے نمایاں تھی۔
سالم جانتا تھا کہ اس موضوع پر وہ کئی گھنٹے بول سکتی ہے۔ اس نے قدس کی یہ محبت اپنے بچوں میں بھی اسی طرح اتار دی تھی۔
’’اور وہ یہودی جو شادی سے پہلے تمہارے پیچھے پڑا تھا، اس نے دیکھ لیا تو…؟‘‘ سالم نے اسے چھیڑنا چاہا۔
’’تو میں اپنے ہٹے کٹے پہلوان جیسے شوہر کو آگے کردوں گی اور وہ اسے ایسا سبق سکھائے گا کہ وہ کوئی غلط جرأت بھی نہ کرسکے گا۔‘‘عائشہ کی بات پر وہ زور سے ہنس پڑا۔
’’ابی! کیا ہوا …؟‘‘اس کو اچانک زور سے ہنستا دیکھ کر معاذ حیران رہ گیا۔ معاذ کی آواز اسے دوبارہ حال میں لے آئی جہاں اب عائشہ نہیں تھی مگر اس کی آنکھیں تھیں۔ اس نے معاذکے ماتھے پر پیار کیا اور ایک بار پھر اس کی آنکھوں کو بغور دیکھا۔ یکایک اسے معاذ کی آنکھوں میں ایک تیز چمک نظر آئی۔ اس سے قبل کہ وہ مڑ کر دیکھتا، دل دہلا دینے والے بم دھماکے شروع ہوگئے۔ اس نے معاذ کو اپنے ساتھ بھینچ لیا اور زمین سے بالکل چپک گیا۔
ایک کے بعد ایک متواتر دھماکوں نے جیسے زمین پر زلزلہ بپا کردیا تھا۔
’’یہ تواقوامِ متحدہ والوں کے اجازت نامے کے ساتھ خیموں کی بستی بنائی گئی تھی… یہاں بھی ان درندوں نے پیچھا نہ چھوڑا۔
کیسا ظلم پر ظلم ہے۔ یارب…! یہ ہماری زمین پر ہمیں ہی رہنے نہیں دیتے۔ یہ کیسے لوگ ہیں جن کے دل رحم سے خالی ہیں… جنہیں بے گھر انسانوں پر بھی رحم نہیں آتا۔ عورتوں اور بچوں تک کا خیال نہیں کیا… امت میں کوئی صلاح الدین اور سلطان محمد فاتح نہیں بچا… یاخدا!… یااللہ! رحم کر اور ان ظالموں کو نیست و نابود کردے۔‘‘ سالم بآوازِ بلند گڑگڑا رہا تھا۔
دھماکوں کی آواز کے ساتھ چیخ و پکار کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ آگ لگنے کے باعث کئی خیمے جل چکے تھے۔ وہ بے بس انسان جن کے پاس پینے کے لیے پانی نہ تھا، وہ آگ بجھانے کے لیے پانی کہاں سے لاتے؟
معاذ جو اپنے ابی کو ایسے بلکتے دیکھ رہا تھا، بمشکل اپنے منہ سے آواز نکال سکا ’’ابی…! ابی…! سعد…‘‘
سعد کا نام سن کر سالم ’’سعد… سعد…!‘‘ پکارتا اپنے خیمے کی جانب بھاگا۔ راستے میں جو نظر آیا، اُس سے پوچھا مگر کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ لوگ جان بچاتے، اپنے پیاروں کے لاشے گھسیٹتے اور کپڑوں سے آگ بجھاتے نظر آتے۔
سالم جلتے خیموں، بکھری لاشوں اور سامان کو پھلانگتا بہ مشکل اُس جگہ پہنچا جہاں سعد سو رہا تھا۔ اس نے اپنے بچے پر سے چیتھڑے ہٹائے اور اپنے چار سالہ شہزادے کو دونوں ہاتھوں میں اٹھا لیا۔ وہ یقیناً سعد تھا مگر بغیر سر کے اور لہولہان جسم کے ساتھ… سالم بے اختیار چیخ اٹھا… مگر وہ چیخ نہیں تھی بلکہ بے حس اور سوتے مسلم حکمرانوں کے چہروں پر تھپڑ تھا۔
اس کی چیخ سوائے چند ایک لوگوں کے، کسی کو متوجہ نہ کرسکی۔ ایک کیمرے نے خاموشی سے اسے محفوظ کرلیا۔ اب وہ زور زور سے کہہ رہا تھا ’’ظالمو! تم نے ہم سے سب کچھ چھین لیا مگر تم ہمارے دلوں سے قدس نہیں نکال سکتے، ہم سے آزادی کا جذبہ نہیں چھین سکتے… ہم ان ٹوٹے گھروں کو پھر سے آباد کریں گے… تم جسموں کو ختم کرسکتے ہو مگر ہماری روحیں آزاد ہیں… میرا بچہ مرا نہیں ہے، وہ آزاد ہوگیا ہے اور اب اپنی ماں کے پاس خوش ہے، تم چاہو تو بھی وہ خوشی نہیں چھین سکتے۔‘‘
وہ اپنی متاع کو… اپنے شہزادے کو سینے سے لگائے پھر پہاڑی کی جانب چل پڑا۔