بابر نے خواب میں ابو کو پریشان حال دیکھا۔
ابھی کچھ دن پہلے امجد صاحب کا انتقال ہوا تھا۔ سب جانتے تھے کہ امجد صاحب نیک اور پرہیزگار انسان تھے۔
بابر نیند سے بیدار ہوا تواُس نے اس خواب کا ذکر اپنی بیوی فائزہ سے کیا تو اُس نے کہا: آپ ٹینشن نہ لیں۔ ہم مل کر قرآن پڑھ کے ابو کے لیے ایصالِ ثواب کرتے ہیں۔
دوسری دفعہ بھی بابر نے ابو کو اسی حالت میں دیکھا تو اس نے امام صاحب سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا ’’امجد صاحب دین پر عمل کرتے تھے۔ آپ ایسا کریں صدقہ یا خیرات کریں۔‘‘
بابر نے ایسا ہی کیا۔ اِس دفعہ اُس نے نماز کے بعد دعا کی کہ ’’یا تو ابو اچھی حالت میں نظر آئیں یا خواب نہ آئے۔‘‘
خواب میں ابو پھر آئے، اس دفعہ پریشان نہیں تھے بلکہ کچھ کہہ رہے تھے۔ بابر نے سنا ابو کہہ رہے تھے ’’حق دار کو حق دو۔‘‘
بابر نے صبح ابو کے دوستوں سے رابطہ کیا اور پوچھا ’’ابو نے کسی سے قرض لیا تھا یا کسی نے ابو کے پاس کوئی امانت رکھوائی تھی؟‘‘
سب نے کہا ’’قرض لیا تھا تو ادا کردیا تھا اورکسی نے امانت نہیں رکھوائی۔‘‘
ایک دن انشرح گھر آئی۔ ’’بہت دن بعد گھر آئی ہو انشرح۔‘‘ بابر نے کہا۔
’’جی بھائی جان! کچھ پریشان ہوں۔ گیس اور بجلی کے بل زیادہ آرہے ہیں، اوپر سے کرایہ دیر سے دوں تو مالک مکان کہتے ہیں گھر خالی کردو۔‘‘
’’اچھا، مجھ سے کچھ پیسے لے لو۔‘‘بابر نے فراخ دلی سے کہا۔
’’نہیں بھائی جان! مجھے ادھار نہیں چاہیے۔ ابو کی جائداد میں میرا بھی حصہ ہے، آپ وہ دے دیں۔‘‘
’’مگر امی تو کہتی تھیں تمہیں شادی میں جو دیا وہ تمہارا حصہ تھا۔‘‘
’’نہیں بھائی! وہ تحفہ تھا جو مجھے یہاں سے ملا۔ ابو نے مجھے خواب میں کہا ہے بھائی کے پاس جاؤ۔‘‘
اچانک بابر کو وہ خواب یاد آتے ہیں۔
’’اچھا انشرح تم بیٹھو میں ابھی آتا ہوں۔ فائزہ تم کھانا بناؤ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘
’’نہیں بھائی جان! بچے گھر آتے ہوں گے، میں پھر آئوں گی۔‘‘ انشرح یہ کہہ کر چلی گئی۔
’’بابر! آپ کہاں گئے تھے؟‘‘
میں پراپرٹی ڈیلر کے پاس گیا تھا مکان کی قیمت معلوم کرنے، تاکہ انشرح کا حق دے سکوں۔‘‘
’’مگر بابر! ہمارے بچے بڑے ہورہے ہیں، اُن کے پڑھائی کے خرچے اور پھر اپنے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟‘‘
’’فائزہ! میں نے ابو کو کرب میں دیکھا ہے، میں ابو کے پاس جاکر شرمندہ نہیں ہونا چاہتا۔ فائزہ! میری ایک بہن ہے۔ دس بھی ہوتیں تو ضرور دیتا، کیوں کہ آخرت کے مقابلے میں یہ دنیا کچھ نہیں ہے۔‘‘ پھر بابر نے انشرح کو بلا کر اُس کے حصے کی رقم اسے دے دی۔
انشرح کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا،کیوں کہ جو رقم اس کے حصے میں آئی تھی اس سے وہ بآسانی اپنے علاقے میں گھر خرید سکتی تھی۔ ابو کا گھر پوش علاقے میں تھا جب کہ وہ کچی آبادی میں رہتی تھی۔ انشرح نے اپنے بھائی کو بہت دعائیں دیں۔
اس رات بابر نے ابو کو اچھی حالت میں دیکھا، وہ خوش تھے اور کہہ رہے تھے ’’کاش میں یہ وصیت اپنی زندگی میں کرتا۔‘‘