جیل روڈ اور ایم اے جناح روڈ کی مصروف شاہراہوں سے متصل میر عثمان علی پردہ پارک میں آج غیر معمولی چہل پہل تھی۔ کراچی کے حبس زدہ موسم کی نسبتاً ٹھنڈی شام کچھ خواتین ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے آنکھوں میں شوق کے دیپ جلائے پارک کے گیٹ سے اندر داخل ہوئیں، جہاں ایک بڑا سا پینا فلیکس آویزاں تھا جس پر ایک چونکا دینے والی تحریر تھی:
Cook by feel.. first blind women cooking competition
Organized by Pakistan association of blind collaboration with management of meer usman Ali parda park
دائرے میں مہمانوں کی کرسیاں اور سامنے میزوں پر کھانے کے لوازمات رکھے ہوئے تھے۔
ہم سٹی کونسل کے اجلاس سے واپسی پر شدید ٹریفک جام میں پھنسے یہ سوچ رہے تھے کہ اب شاید میر عثمان علی پردہ پارک جانا ممکن نہیں۔ سچی بات یہ تھی کہ اس پروگرام کی نوعیت سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ لیکن منتظمین کے مسلسل اصرار پر جب یہاں پہنچے تو احساس ہوا کہ ہمارا آنا خود ہمارے لیے بہت کچھ سیکھنے کا باعث بنا۔ منتظمین ہماری آمد پر بار بار شکریہ ادا کررہے تھے۔ لیکن ہم ان کے مشکور تھے کہ یہاں سے ایک نیا جذبہ اور محرومی کے اندھیروں میں جینے کی امنگ لیے کچھ نایاب اور پُرعزم لوگوں سے ملاقات ہوگئی۔ یہاں شریک نہ ہوکر ہم یقینا اس ماحول سے نکلنے والی پازیٹو انرجی سے محروم رہ جاتے۔
پروگرام آرگنائزر ناصر تقی صاحب اور آل پاکستان بلائنڈ ایسوسی ایشن کے صدر حسین صاحب کی سرپرستی میں بلائنڈ خواتین کے لیے ایک منفرد ڈش کمپٹیشن کا انعقاد کیا گیا تھا۔ یہ منفرد خیال ترتیب دینے والے یقینا مبارک باد کے مستحق تھے جنہوں نے سوچا اور کردکھایا۔
یہ مقابلہ نہ صرف باورچی خانے کی خواتین سے منسلک بامقصد سرگرمی تھی بلکہ اُن خواتین کے عزم اور حوصلے کی داستان بھی تھی جو زندگی کی مشکلات کو چکن کڑاہی کی اشتہا انگیز خوشبو میں تحلیل کررہی تھیں۔
پارک کے سبزہ زار میں ان خواتین کی دیگچیوں سے نکلتا ہوا دھواں عزم و حوصلے کی انوکھی کہانی سنا رہا تھا۔ ٹٹول ٹٹول کر سبزیاں و مصالحہ جات ہاتھ میں لیتے اور انہیں سلیقے سے کاٹتے دیکھ کر ان ہاتھوں کی مہارت کا اندازہ ہوا۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا ڈش کمپٹیشن ان افراد کے درمیان دیکھا جو دنیا کی روشنی سے محروم تھے لیکن دل کی روشنی سے مالامال۔
چکن کڑاہی کا ہر جزو، ہر مصحالہ، ہر ذائقہ ان خواتین کی محنت اور جذبے کی گواہی دے رہا تھا۔
الغرض ہم دونوں جماعت اسلامی کی سٹی کونسلرز فریحہ اشرف، خدیجہ سراج اور پارک کے منتظمِ اعلیٰ ناصر صاحب کی اہلیہ وسیمہ ناصر اس وقت ججز کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ ہم نے ہر پارٹیسیپنٹ کے پاس جاکر ان کا مختصر انٹرویو کیا۔ ان کی میز کی ترتیب متاثر کن تھی۔ والنٹیرز صرف چولہے کو سیٹ کررہی تھیں۔ باریک کٹی پیاز اور ادرک، لہسن کی باریک قاشیں، سلاد کی سجاوٹ قابل دید تھی۔
جلد ہی کمپٹیشن کا آغاز ہوا۔ ساتھ ہی انائونسمنٹ بھی جاری تھی جو ایک دل چسپ کمنٹری سے کم نہیں تھی۔ ان نابینا خواتین کے اہلِ خانہ بھی یہاں موجود تھے جو کراچی کے طول و عرض سے جمع ہوئی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں پکوان تیار ہوئے اور ججز کی ٹیبل ان پکوانوں سے سج گئی۔ حصہ لینے والوں کی دھڑکنیں تیز ہورہی تھیں۔ جلد ہی رزلٹ اناؤنس ہوا۔ اوّل، دوم اور دو انعام سوم کے تھے جنہیں گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ کیش انعامات اور بڑے سائز کے بریل یعنی ابھرے حروف والے قرآن کریم کے تحفے تمام حصہ لینے والی خواتین کو دیے گئے۔ محفل کو سجانے میں شرکت پر ناصر صاحب کے ننھے صاحب زادے واثق کو بھی میڈل دیا گیا۔ ججز نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
یہ مقابلہ تمام حصہ لینے والی خواتین کے خوابوں، ارادوں اور حوصلوں کی جیت تھی۔ ان کی محنت، لگن اور خود اعتمادی نے اس دن کو ان کی زندگی میں ایک یادگار دن بنا دیا تھا۔ یہ دن ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ سچی محنت اور لگن کے ساتھ کسی بھی معذوری کو شکست دی جا سکتی ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ ان کا عزم کسی بھی روشنی سے کم نہیں۔