مہک کا راز

156

ایک جانب تو انسپکٹر حیدر علی کو جمال اور کمال کی صلاحیتوں کا علم ہوا، دوسری جانب جب رہائی کے بعد فاطمہ نے اس بات کا اظہار کیا کہ جب جب جمال اور کمال کو اس کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ اُن کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے، ساتھ ہی ساتھ اس نے یہ بھی کہا کہ حقیقت میں اس کا دل جمال اور کمال کے ساتھ کام کرنے کو بہت چاہتا ہے اور وہ چاہتی ہے کہ وہ بھی ان دونوں کے ساتھ مل کر ملک و قوم کے لیے کوئی کارنامہ انجام دے، بس یہی وجہ تھی کہ ایک مرتبہ جمال اور کمال نے ایک مہم کے دوران یہ فیصلہ کیا کہ اس مہم میں فاطمہ کا ان کے ساتھ ہونا بہت مفید ثابت ہوگا۔
دنیا جانتی ہے خفیہ کے جتنے بھی کام اور مہمات ہوتی ہیں وہ بہت خطرناک ہوتی ہیں۔ ایک جانب تو مہمات کا خطرناک ہونا ہی کسی کو اپنے ساتھ لے کر چلنے میں شدید رکاوٹ ہوتا ہے، اور دوسری جانب ایسے کام کے لیے ہر فرد پر اعتماد کرلینا بھی ایک دقت طلب کام ہے۔
جمال اور کمال کے کارناموں کو دیکھتے ہوئے پولیس ڈپارٹمنٹ ہی کو نہیں خفیہ کے اعلیٰ عہدیداروں تک کو بڑا اعتماد تھا، لیکن جب جمال اور کمال نے اپنی آنے والی بہت ہی اہم مہم میں فاطمہ کو شامل کرنے کی درخواست کی تو انسپکٹر حیدر علی سے لے کر خفیہ کے اعلیٰ عہدیدار تک تذبذب کا شکار ہوگئے۔ ان کے پیشِ نظر دو مسئلے تھے۔ اول یہ کہ فاطمہ بھی جمال اور کمال کی طرح کم عمر اور ان کی نظر میں ابھی پختہ سوچ کی حامل نہ تھی، دوئم یہ کہ جو مہم درپیش تھی وہ بہت اہم اور خطرناک تھی، اس لیے فوری طور پر جمال اور کمال کو کسی جانب سے بھی ’’اوکے‘‘ کا سگنل نہیں ملا، لیکن جب جمال اور کمال نے ان کو یقین دلایا کہ فاطمہ ایک بہادر اور بڑی صلاحیتوں کی حامل لڑکی ہے تو خفیہ کے ڈپارٹمنٹ نے ایسا کرنے کی ہامی بھرتے ہوئے اسے فاطمہ کے گھر والوں کی خوش دلی کے ساتھ رضامندی سے مشروط کردیا۔ یہ کام بظاہر تو بہت آسان نہیں لگتا تھا لیکن جب فاطمہ کے والدین کے سامنے تمام معاملات رکھے گئے تو حیرت انگیز طور پر وہ بصد خوشی فاطمہ کو جمال اور کمال کے ہمراہ بھیجنے پر راضی ہوگئے، ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری بیٹی کو جب دہشت گردوں نے اغوا کرلیا تھا تو ہمیں اس کے لوٹ آنے کی کوئی امید نہ تھی، لیکن جمال اور کمال کی صلاحیتوں اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی کی بدولت ہماری بیٹی ہمیں صحیح سلامت واپس مل گئی۔ جب اللہ ایک بار ہمیں ہماری بیٹی واپس دلا سکتا ہے تو سوبار بھی واپس دلا سکتا ہے۔ ملک کی حفاظت صرف جوانوں ہی کی ذمہ داری نہیں، ملک کے ہر فرد کی ذمہ داری اور فرض ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق اپنا حصہ ڈالے۔ اگر ایسا کرنے کے دوران جان بھی چلی جائے تو یہ خسارے کا سودا نہیں، لہٰذا ہماری جانب سے فاطمہ کو پوری اجازت ہے کہ وہ ان دونوں کے ساتھ کام کرے۔ اس ساری گفتگو کے دوران خفیہ کی نمائندگی ہورہی تھی اور ان کو بھی فاطمہ کے والدین کے جذبات جان کر بہت خوشی ہورہی تھی کہ جس ملک و قوم کے بزرگوں کے یہ احساسات ہوں اس قوم کو کوئی کیسے شکست دے سکتا ہے!
فاطمہ بہت خوش تھی کہ آخرکار اس پر اعتماد کرتے ہوئے ایک اہم مہم میں اس کو شریک کرلیا گیا۔ اس میں جرات، ہمت اور شجاعت تو پہلے ہی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس میں سونگھنے کی حس (قوتِ شامہ) تھی، یہ ایک ایسی صلاحیت تھی جو موجودہ مہم میں اس کے بہت کام آسکے گی۔ اسے اب تک یہ گمان تھا کہ اُس کی اِس صلاحیت کا اس کے سوا کسی کو علم نہیں، لیکن مہم ہی کے دوران جب اس کے علم میں یہ بات آئی کہ جمال اور کمال اس کی اس حیرت انگیز صلاحیت سے واقف ہیں تو وہ حیران اور ششدر رہ گئی، لیکن وہ معترف بھی ہوئی کہ جمال اور کمال واقعی بہت ہی کمال کے ہیں۔ اس طرح فاطمہ بھی جمال اور کمال کی ٹیم کی ایک اہم رکن بن گئی۔
انسپکٹر حیدر علی ان دنوں مختلف کیسوں میں مصروف تھے۔ جمال اور کمال کے پاس جس وقت بھی فرصت ہوتی وہ کچھ وقت انسپکٹر حیدر علی کے پاس ضرور گزارتے تھے۔ ایک دن وہ شام کے وقت ان کے تھانے گئے تو وہ کہیں جانے کی تیاری کررہے تھے۔ ان کے لیے ایک اسپیشل گاڑی باہر کھڑی تھی اور دو گاڑیاں جن میں پولیس کے جوان بیٹھے تھے، وہ بھی الرٹ نظر آئیں۔ جمال اور کمال نے سوچا کہ تھانے کے باہر ہی سے لوٹ جائیں تو بہتر ہے۔ ابھی وہ لوٹ جانے کے لیے پر تول ہی رہے تھے کہ انسپکٹر حیدر علی کی نظر ان دونوں پر پڑی۔ انھوں نے ایک اردلی کو اشارہ کیا جس نے تیزی کے ساتھ بڑھ کر جمال اور کمال کو رکنے کا اشارہ کیا۔ جاتے جاتے وہ دونوں رک گئے۔ مڑ کر دیکھا تو انسپکٹر حیدر علی نے ان کو اپنے پاس آنے کا اشارہ کررہے تھے۔ (جاری ہے)

حصہ