عباسی خلیفہ ہارون الرشید ایک بہت عظیم الشان سلطنت کے حکمران تھے۔ جب خلیفہ بنے تو انھوں نے خزانے کے منہ کھول دیے اور اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب کو قیمتی تحائف سے نوازا۔ انھیں اُمید تھی کہ ان کے سابق استاد سفیان بھی ان کے ہاں حاضری دیں گے۔ جب وہ نہ آئے تو ہارون نے عباد نامی ایک قاصد کے ہاتھ انھیں ایک خط بھیجا۔
جب عباد پہنچا تو سفیان اپنے شاگردوں کے ساتھ ایک مسجد میں بیٹھے تھے۔ عباد نے سفیان کو خلیفہ کا خط پیش کیا تو سفیان نے اسے پکڑنے سے انکار کردیا اور پاس بیٹھے ایک شخص سے کہا کہ وہ اسے کھولے اور پڑھ کر سنائے۔
خط میں لکھا تھا: ’’ہم آپ کی آمد کے منتظر ہیں، ہمیں اپنے درمیان استاد شاگردکے تعلق کا بڑا پاس ہے۔‘‘
سفیان نے اپنے شاگردوں سے کہا: ’’میرا جواب اسی خط کی پشت پر لکھ دو۔‘‘
شاگرد بولے: ’’مرشد! آپ نیا کاغذ استعمال کیوں نہیں کرتے؟‘‘
’’نہیں، اس کاغذ کی پشت پر لکھو۔‘‘
پھر انھوں نے یہ جواب لکھوایا:
’’قرآن کی حلاوت سے محروم، گمراہ ہارون کے نام۔
تم نے مومنین کے خزانے کا منہ کھول کر اس کے مال و دولت کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے تقسیم کیا ہے۔ کیا تم نے ان لوگوں کی اجازت حاصل کرلی تھی جو اللہ کے راستے میں جنگیں کرتے ہیں، کیا تم نے یتیموں اور بیوائوں کی اجازت حاصل کرلی تھی؟ جہاں تک ہمارے تمہارے سابقہ تعلق کا سوال ہے یہ اب ختم ہوا، ہمارے بیچ اب کسی پیار محبت کا بندھن نہیں رہا۔ ہمیں اب بھی اگر آپ نے خط بھیجا تو ہم نہ تو اسے پڑھیں گے اور نہ اس کا جواب دیں گے۔‘‘
یہ سن کر عباد سیدھا بازار گیا اور معمولی اور سستے سے کپڑے لے کر پہنے اور پھر وہ خط کا جواب لے کر ہارون الرشید کے پاس پہنچا۔
جب خلیفہ ہارون نے عباد کو معمولی کپڑوں میں اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ سب کچھ سمجھ گئے اور پکار اٹھے: ’’قاصد کامیاب ہوگیا اور اس کا آقا ناکام رہا۔‘‘
جب ہارون الرشید نے استاد کا جواب پڑھا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
ان کے درباری بولے: ’’یاامیرالمومنین! استاد سفیان نے بڑی گستاخی کا مظاہرہ کیا ہے، سپاہیوں کو بھیج کر انھیں یہاں بلوایئے۔‘‘
’’خاموش! یہ تم لوگ ہی ہو، جنھوں نے مجھے گمراہ کیا ہے۔‘‘ ہارون نے چیخ کر کہا۔
کہتے ہیں کہ اس کے بعد خلیفہ ہارون نے سفیان کا وہ خط محفوظ کرلیا اور وہ گاہے بگاہے اسے نکال کر پڑھا کرتے تھے۔