آج اسکول کا آخری دن تھا۔ حسن نے علی سے پوچھا’’تم چھٹیاں کیسے گزارو گے؟‘‘ علی نے کہا ’’میں تو کل سے ہی اپنی نانی کے گھر رہنے جارہا ہوں، وہاں سے ہم پکنک کے پروگرام بنائیں گے اور پھر ماموں کے ساتھ پہاڑی علاقوں کی سیر کریں گے۔ ہمیں تو بہت مزا آئے گا۔ میں نے تو ابھی سے گرم کپڑے بھی خرید لیے ہیں۔ اونچے اونچے پہاڑ، برف کے گولے، چاروں طرف ہریالی… یہ سب میں نے آج تک تصویروں میں یا ٹی وی پر ہی دیکھا تھا، مگر اب پہلی بار خود دیکھوں گا، مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا!!!‘‘
حسن نے اس کی پیٹھ تھپکی اور کہا ’’واہ دوست واقعی بہت مزے کرو گے۔‘‘
’’اور تمھارا کیا پروگرام ہے حسن؟‘‘
’’میرے تو دادا جان رکنے آرہے ہیں، وہ مجھے روزمرہ کی چیزیں پابندی سے کروائیں گے۔ مجھے روزانہ نماز کی ادائیگی پابندی سے کرنی ہوگی، روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرنی ہوگی، اس کو ترجمے کے ساتھ پڑھنا ہوگا، اور اس کے علاوہ امی کے ساتھ مل کر گھر کے کاموں میں مدد کروں گا اور اپنی چھوٹی بہن کا ہوم ورک مکمل کروائوں گا۔‘‘
’’ تم چھٹیوں میں گھومنے پھرنے نہیں جائو گے؟‘‘ علی نے حیرت سے پوچھا؟
’’ہاں ہاں جائوں گا، اپنے کزن اور چاچا کے ساتھ گھومنے جائوں گا، لیکن ہمیں وہاں بھی نماز کی پابندی کرنی ہوگی۔‘‘
’’واہ بھئی واہ، تمھیں تو مزا آئے گا۔ میں اپنی نانی کے گھر جانے سے پہلے تمھارے دادا جان سے مل کر جائوں گا اِن شاء اللہ۔‘‘
’’تم آجانا، دادا جان تم سے مل کر خوش ہوں گے۔‘‘