گزشتہ ہفتے بزمِ نگار ادب پاکستان کے زیر تحت حمایت علی شاعر کی یاد میں مذاکرہ اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ شاہ فیصل کالونی میں واقع ڈاکٹر خالد احمد کی رہائش گاہ پر ہونے والی دو نشستی تقریب کی صدارت گلنار آفرین نے کی۔ اختر سعیدی‘ پروفیسر ڈاکٹراوجِ کمال اور زاہد حسین جوہری اس پروگرام میں مہمانانِ خصوصی تھے۔ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ سحر تاب رومانی‘ دل شاد احسن ایڈووکیٹ‘ سید افسر علی افسر‘ مسعود وصی‘ آفتاب عالمی قریشی اور ڈاکٹر سلیم حیدر مہمانانِ اعزازی کی حیثیت سے اس محفل میں موجود تھے۔ نظامت کے فرائض تنویر سخن نے انجام دیے جو کہ شاعری کے ساتھ ساتھ نظامت کاری میں بھی اپنا مقام بنانے میں مصروف ہیں۔ معروف نعت خواں ہما ناز نے نعت رسولؐ پیش کی۔ پروگرام کے پہلے حصے میں تنویر سخن نے کہا کہ حمایت علی شاعر ایک ہمہ گیر شخصیت تھے‘ وہ شاعر‘ ادیب‘ ڈراما نگار‘ فلم ساز ہونے کے علاوہ ماہر تعلیم بھی تھے۔ ان کے شعری مجموعوں میں بادِ نیم رس‘ آگ میں پھول‘ مٹی کا قرض‘ تشنگی کا سفر‘ ہارون کی آواز‘ ثلاتی‘ میری دھرتی میرے خواب‘سرگرم اور زاویے شامل ہیں۔ نثری تصانیف میں فاصلے‘ مہران موج‘ کتابی چہرے اور شیخ ایاز شامل ہیں۔ وہ نظم کے بڑے آدمی تھے یا کہ ان کی نثر نگاری قابل تعریف ہے اس کے بارے میں ناقدانِ سخن کہہ چکے ہیں کہ حمایت علی شاعر بھی اردو زبان و ادب کے عظیم الشان قلم کار تھے انہوں نے اپنی شاعری اور نثرنگاری کے ذریعے عوام میں شعورِ آگہی بیدار کیا ہے۔ لغت نگاری میں بھی بہت کام کیا ہے۔ انہوں نے نعتیہ شاعری کے اصول و قواعد بھی بیان کیے ہیں نعت گو شعرا سے یہ بھی کہا کہ نعتیہ شاعری میں غلو اور جھوٹ سے پرہیز کریں۔ کوئی ایسا شعر نہ لکھیں جو شرک و بدعات کے زمرے میں آئے۔
حمایت علی شاعر کے صاحبزادے پروفیسر ڈاکٹر اوجِ کمال نے کہا کہ میں سخاوت علی خالد کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میرے والد کے بارے میں یہ نشست سجائی۔ اوج کمال نے مزید کہا کہ فی زمانہ اردو ادب میں قحط الرجال کی کیفیت اس لیے طاری ہے کہ نوجوان نسل کی دل چسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ تربیت کے فقدان‘ باہمی رسہ کشی اور جینوئن قلم کاروں کی بے توقیری ایک بڑا سانحہ ہے۔ کراچی کے قلم کاروں میں گروہ بندیاں رائج ہو چکی ہیں اردو زبان و ادب کی ترقی متاثر ہو رہی ہے۔ شعرائے کرام کے مسائل بڑھ رہے ہیں‘ مختلف ادبی تنظیمیں اپنے من پسند لوگوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ادبی فضا میں بہت سے لوگوں نے زہر بھردیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آپس کے اختلافات بھلا کر زبان و ادب کی ترقی میں اپنا اپنا حصہ شامل کریں۔
اختر سعیدی نے حمایت علی شاعر کو منظوم خراج تحسین پیش کیا جس میں حمایت علی شاعر کی زندگی کی عکاسی شامل تھی۔ ڈاکٹرخالد احمد کے علاوہ الطاف رانا نے حمایت علی شاعر کی کئی نظمیں انتہائی خوش الحانی سے سنا کر خوب داد حاصل کی۔ ڈاکٹر خالد احمد نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کا گھر شعر و سخن کے لیے حاضر ہے‘ وہ سخاوت علی نادر کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے کراچی کے بہت سے اچھے شعرائے کرام کو میرے گھر پر جمع کیا اور بہت عمدہ شاعری ہمیں سننے کو ملی۔
بزمِ نگار ادب پاکستان کے چیئرمین سخاوت علی نادر نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کی ادبی تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت مذاکرے‘ تنقیدی نشستیں اور مشاعرے آرگنائز کر رہے ہیں۔ ہماری تنظیم نے یادِ رفتگاں کے سلسلے میں کئی پروگرام کیے ہیں کیوں کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم اردو ادب کے محسنوں کو یاد رکھیں‘ ان کی خدمات پر سیر حاصل گفتگو کریں تاکہ نوجوان نسل تک بھی ان شعرا کے نظریات پہنچ جائیں جنہوں نے اپنی زندگی میں ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں‘ ان میں ایک اہم نام حمایت علی شاعر کا بھی ہے جو شاہ فیصل کالونی کراچی میں رہائش پزیر تھے ان کے چراغ علم و فن سے میدانِ علم و فن روشن ہے۔ ان کی تصانیف اردو ادب کے لیے بہت قیمتی ہیں وہ اب اس دنیا میں نہیں لیکن ان کا کلام انہیں ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔ انسان مر جاتا ہے لیکن زندہ اس کے اعمال اسے ادبی یات عطا کرتے ہیں۔
گلنار آفرین نے کہا کہ انہوں نے حمایت علی شاعر کے ساتھ بہت سے مشاعرے پڑھے ہیں‘ وہ مجھ سے بہت سینئر تھے میں نے بھی ان سے بہت کچھ سیکھا ہے‘ وہ ہر مشاعرے کی ضرورت تھے‘ انہیں بہت داد و تحسین سے نوازا جاتا تھا۔ ان کے اشعار ہمارے دل پر راج کر رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم حمایت علی شاعر جیسے تمام شعرا کے لیے تقریبات سجا کر انہیں خراج تحسین پیش کریں۔ یادِ رفتگاں کے حوالے تقریبات منعقد کرنا اچھا عمل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری سے انسانی خیالات میں تبدیلی آتی ہے لہٰذا ہر شاعر کو چاہیے کہ وہ بامقصد شاعری کرے۔ گل و بلبل کے افسانے اب کوئی نہیں سنتا‘ اب زمینی حقائق سامنے لائے جائیں‘ ظلم و استبداد کے خلاف آواز بلند کریں کہ شاعری کے نصاب میں شامل ہے۔ مزاحمتی شاعری کبھی بھی نہیں مرتی بہت سے مزاحمتی اشعار آج بھی حالتِ سفر میں ہیں اور انہیں ’’کوڈ‘‘ کیا جا رہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہم سب مل کر اردو زبان و ادب کی ترقی میں اپنا اپنا حصہ شامل کرتے رہیں گے۔
مشاعرے میں گلنار آفرین کے علاوہ اختر سعیدی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ زاہد حسین جوہری‘ سلیم فز‘ سحرتاب رومانی‘ دل شاد احسن ایڈووکیٹ‘ سید افسر علی افسر‘ فخراللہ شاد‘ سخاوت علی ناز‘ تنویر سخن‘ امجد علی امجد‘ فرید خاور‘ خلیل قریشی‘ نعمت منتشاء اور عفت مسعود نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔