کراچی میں خونخوار کتے :مسئلے کا حل تھوڑی سی قلاقند

131

’’وقار بھائی، آپ کی آنکھیں سرخ ہورہی ہیں، کیا ہوا؟ اپنی آنکھیں چیک کروائیں، کہیں انفیکشن تو نہیں ہوگیا!‘‘

’’نہیں نہیں ایسی بات نہیں، رات سو نہیں سکا اس لیے محسوس ہورہا ہے۔‘‘

’’کیوں، خیریت تو تھی؟‘‘

’’ہاں ہاں سب خیریت ہے، دراصل رات ہمارے محلے میں کتوں کے درمیان بھونکنے کا عظیم الشان مقابلہ ہورہا تھا، ایک کے بعد دوسرا، پھر تیسرا کتا اپنی بے سُری آواز کا جادو جگانے میں مصروف تھا۔ کتوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے اس مظاہرے نے سونے نہ دیا، اسی لیے آنکھوں میں سرخی دکھائی دے رہی ہے۔‘‘

’’واقعی کتے تو بہت ہوگئے ہیں، ہر محلے کی یہی صورتِ حال ہے۔ شکور بھائی بتارہے تھے کہ پچھلے دنوں اُن کے پوتے کو کتے نے کاٹ لیا تھا، علاج کروانے میں بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ پنڈلی کا گوشت بھرنے میں ابھی خاصا وقت لگے گا۔ ویسے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں کتے آئے کہاں سے؟ چلو اگرآہی گئے ہیں تو عوام کی زندگیاں محفوظ بنانے کے لیے بلدیاتی ادارے ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتے؟‘‘

’’اس میں حیران اور پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، صوبہ سندھ خاص طور پر ہمارا شہر کراچی کتوں کی افزائشِ نسل کے لیے آئیڈیل اور محفوظ خطہ بنتا جارہا ہے، ایسا علاقہ جہاں ان کی زندگیوں کو کوئی خطرہ نہیں، ایسا علاقہ جہاں وہ بآسانی اپنے شکار پر جھپٹ سکیں اورکوئی پوچھنے والا نہ ہو، یعنی یہ خطہ کتوں کا علاقہ غیر بن چکا ہے جہاں صوبائی و بلدیاتی اداروں کے بجائے ان کے اپنے قوانین چلا کرتے ہیں۔‘‘

’’مذاق چھوڑیں وقار بھائی! ایسا تو نہ کہیں۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ سرکاری اداروں نے ہمیشہ آوارہ کتوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔‘‘

’’میں مذاق نہیں کررہا، یقین نہیں ہے تو صوبہ سندھ کی سرحد پر جاکر دیکھ لو، کس طرح سارے ملک سے کتوں کی مع اہل وعیال آمد جاری ہے۔ ظاہر ہے جہاں شکار کرنے کے بہتر مواقع دستیاب ہوں شکاری وہیں کا رخ کیا کرتے ہیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے آوارہ کتوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے باعث ملک کے طول وعرض سے تعلق رکھنے والے کتوں کے مختلف جتھوں نے اِس مرتبہ اپنا سالانہ کنونشن بھی ہمارے ہی صوبے میں رکھا ہے۔‘‘

’’آپ کی باتوں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے جیسے سندھ سرکار جانوروں کے تحفظ کے نام پر آوارہ کتوں کے خلاف اقدامات کرنے یعنی اُن کا خاتمہ کرنے کے بجائے اُن کی محافظ بنی ہوئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس حکومت اور مودی سرکار میں کیا فرق؟ وہ بھی تو گائے کو ذبح نہیں کرنے دیتے، اُن کے نزدیک گائے کو ذبح نہ کرنا بھی تو جانوروں کے تحفظ ہی کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘

’’نہیں نہیں ایسا بالکل نہیں ہے، گائے ہمارے لیے حلال جانور ہے۔ وہاں گائے ذبح کرنے پر پابندی اٹھارہویں صدی میں سکھوں کی طرف سے چلایا جانے والا ایسا سیاسی چکر ہے جس کی وجہ سے لاکھوں مسلمانوں کی جان جاچکی ہے، یہ سیاست ہندو مذہب میں اس قدر سرایت کرچکی ہے کہ آج بھارت میں ہندوؤں کی طرف سے گائے کو ’گاؤ ماتا‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو مت کے احکامات پر عمل کرنے والے بہت سے افراد کے نزدیک گوشت کے لیے گائے کو ذبح کرنا ’توہینِ مذہب‘ کے زمرے میں آتا ہے، اسی لیے ہندو برادری کی اکثریت کے نزدیک گائے ایک مقدس جانور ہے۔ یہی وہ ذہنیت ہے جس کے باعث بھارت کی دھویں میں ڈوبی ہوئی سڑکوں پر گائے مزے سے ٹہلتی پھرتی ہے، جہاں کوئی اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرتا، بلکہ مختلف تہواروں پر اس کی پوجا تک کی جاتی ہے۔ مذہبی تہواروں سے پہلے مندروں سے منسلک لوگ گائے کی پیشانی پر رنگ لگا کر نہ صرف اسے گلیوں محلوں میں لیے پھرتے اور خیرات اکٹھی کرتے ہیں بلکہ اب تو بھارت میں ایک رسالہ بھی شائع ہوتا ہے جس کا نام ہے ’انڈین کاؤ‘ یا بھارتی گائے۔ اس کے علاوہ ایک خیراتی ادارہ یا ٹرسٹ بھی ہے جس کا نام ’لو فور کاؤ‘ یا گائے سے پیار ہے۔ ایک ہندو قوم پرست جماعت نے تو بناؤ سنگھار یا میک اپ کی ایک نئی قسم بھی متعارف کرائی ہے جس میں گائے کا پیشاب اور گوبر استعمال کیا جاتا ہے۔ اور تو اور بھارت کی ایک ریاست میں وزیر گائے کا منصب بھی ہے۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ مودی کا تیسری مرتبہ وزیراعظم بننا بھی گائے کی کرپا ہے۔ ہاں ایک اعتبار سے دونوں سرکاریں ضرور ایک جیسا کام انجام دے رہی ہیں، یعنی دونوں طرف انسانوں کے بجائے جانوروں کا ہی تحفظ کیا جارہا ہے۔‘‘

’’آپ کہہ رہے ہیں کہ بھارت میں حلال جانور (گائے) کے ذبح پر لگائی جانے والی پابندی سیاسی نوعیت کی ہے تو ہمارے ہاں آوارہ کتوں (حرام جانور)کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے پیچھے کون سی سیاست کارفرما ہے؟‘‘

’’یہ سب دبائو کا نتیجہ ہے۔ مختلف این جی اوز بناکر بین الاقوامی فنڈنگ پر موج اڑانے والے اسی طرح کیا کرتے ہیں، مثلاً جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے کی سربراہ کی ہی بات سن لو، وہ کہتی ہیں کہ ہمارا مقصد جانوروں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا، خاص طور پر شہروں اور دیہاتوں میں موجود آوارہ کتے، بلیوں،گدھوں،گھوڑوں اور اونٹوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ ہمیں لوگوں کی جانب سے آوارہ جانوروں کے حوالے سے کالز موصول ہوتی ہیں جس پر اب تک ہم ہزاروں کتوں اور بلیوں کو ریسکیو کرچکے ہیں۔ محترمہ مزید فرماتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ایک عجیب سوچ نے جنم لیا ہوا ہے کہ آوارہ کتوں کو زہر دے کر مار دیا جائے، جبکہ باہر کے ممالک کے لوگ مختلف نسلوں کے کتوں اور بلیوں کو اپنے گھروں میں پالتے ہیں۔ جانوروں کے حقوق کے ادارے کی سربراہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ آوارہ کتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کاٹتے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے، بلکہ اس کی وجہ لوگوں کا کتوں کے ساتھ برا رویہ ہے۔ اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے وہ کچھ یوں فرماتی ہیں ’’میں نے اب تک پانچ ہزار سے زائد کتوں کو ریسکیو کیا ہے، مجھے تو اب تک کسی ایک کتے نے بھی کچھ نہیں کہا، جانور پیار کے بھوکے ہوتے ہیں، اگر ہم نے جانوروں کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا تو یہ انسانیت کے ساتھ بھی ظلم ہوگا‘‘۔ دیکھا تم نے، جب اس قسم کے اداروں کی جانب سے دی جانے رائے کا احترام کیا جائے گا تو انسانیت سے زیادہ تحفظ خونخوار جانوروں کا ہی کیا جائے گا۔‘‘

’’کبھی آپ کہتے ہیں یہ مسئلہ مذہبی نوعیت کا ہے، کبھی اسے معاشرتی بتاتے ہیں، کہیں اسے حکمرانوں کی نااہلی گردانتے ہیں تو کبھی کہتے ہیں کہ دبائو ہے۔ یقین کیجیے آپ کی باتیں میرے پلے نہیں پڑ رہیں، جبکہ سندھ حکومت تو ان آوارہ کتوں کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ میرے علم میں ہے کہ سندھ حکومت نے صوبے بھر کے دیہی وشہری علاقوں میں آوارہ کتوں کی بہتات سے نمٹنے کے لیے جامع منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے تحت آوارہ کتوں کو اینٹی ریبیز انجکشن لگائے جانے تھے اورآوارہ کتوں پر اسپرے کرکے ان کی نس بندی کے لیے بھی منصوبہ بندی کی جارہی تھی۔ میرے نزدیک ایسے اقدامات سے کتوں کی افزائشِ نسل کو روکا جاسکتا ہے۔ حکومت اس کے علاوہ کیا کرے؟ آپ کیا چاہتے ہیں کہ سندھ حکومت بھی بھارت میں لگائے جانے والے وزیرکائو(گائے)کی طرح وزیر ڈوگ(کتا) کا محکمہ بنادے!‘‘

’’میری باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آئیں گی، لہٰذا تمہاری جانب سے بیان کردہ سندھ حکومت کی کارکردگی پر ہی بات کرلیتے ہیں۔ تم نے جس پروگرام کا حوالہ دیا وہ ماضی کی بات ہے۔ اس پر کتنا عمل ہوا، اس کے متعلق تم خود اچھی طرح جانتے ہو۔ اگر یاد نہیں تو بتا دیتا ہوں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سندھ بھر میں 6سے 7لاکھ آوارہ کتے ہیں اور سندھ حکومت کے ٹی این آر منصوبے… جس کا تم نے ذکر کیا… کے ذریعے آوارہ کتوں کو زہر دے کر مارنے کے بجائے آئندہ 5سال میں ان کی افزائشِ نسل روک کر انہیں مکمل طور پر ختم کردیا جائے گا، یہی کہا ہے نا تم نے؟ اب سنو، اس منصوبے پر 40سے 50کروڑ روپے کی لاگت آئے گی اور آوارہ کتوں سے محفوظ رہنے کے لیے پیسوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ عوام کوپانچ سال مزید انتظار کرنا پڑے گا۔ سوچو اگر پانچ سال بعد مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوئے تو کیا ہوگا؟ ظاہر ہے یہاں انسانوں سے کہیں زیادہ کتے ہوں گے۔ جب ابھی یہ صورتِ حال ہے تو اُس وقت کیا ہوگی! بات سیدھی سی ہے، کسی کو اگر جانوروں کے تحفظ کے نام پر آوارہ کتوں کی زندگیاں عزیز ہیں تو وہ ان خونخوار جانوروں کو انسانی بستیوں سے دور رکھنے کے انتظامات کرے، ان کے لیے خوراک اور پانی کا بندوبست کرے اور دل کی گہرائیوں سے محبت کرے۔ ایسا کرنے سے مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔‘‘

’’آپ کی باتوں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سارا قصور سندھ حکومت کا ہے، جبکہ یہ بھی تو سچ ہے کہ کتوں کے حملہ آور ہونے میں انسانی رویّے کا بھی بڑا دخل ہے۔ یعنی چند احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے ان کے حملوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ عوام کو بھی آگاہی دینی ہوگی کہ اگر کسی شخص کو اکیلے میں کہیں اچانک کتا نظر آجائے تو اسے سب سے پہلے ہنسنا بالکل نہیں چاہیے۔ مشتعل کتے کو مسکراہٹ کے ذریعے ٹھنڈا کرنے کی کوشش نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ جانور مسکراہٹ کا مطلب انسانوں سے مختلف لیتا ہے۔ انسانوں کے لیے مسکراہٹ ایک دوستانہ عمل ہوتا ہے مگر کتے کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص دانت نکال کر اسے چیلنج کررہا ہے۔ اس موقع پر فرد کو ہرگز دہشت زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ کتے اور دیگر جانور انسانی خوف کا احساس کرلیتے ہیں، اگرچہ کتا جارحانہ انداز سے کسی کی جانب بڑھ رہا ہو تو پھر پُرسکون رہنا خاصا مشکل ہوتا ہے، مگر چیخنا، اپنے بازو ہلانا یا دوڑنا حالات کو بدتر بنا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص پہلے سے تیز قدموں سے چل رہا ہے تو اسے اپنی رفتار ہلکی کردینی چاہیے۔ کتے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا بھی مناسب نہیں۔کتے کی توجہ بھٹکانے سے بھی بچنا چاہیے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو انسان کو کتے کے فوری حملے سے کسی حد تک بچا سکتی ہیں۔‘‘

’’تم اپنی تجویز اپنے پاس ہی رکھو۔ میرے نزدیک اس مسئلے کا سیدھا سا حل تھوڑی سی قلاقند ہے۔ قلاقند سے متعلق فارمولا بلدیہ کراچی خوب جانتی ہے۔‘‘

حصہ