اسلام دین ِ فطرت ہے اور اُس کی تعلیمات میں زندگی کے ہر شعبے اور ضروریات کے لیے ہدایت اور رہنمائی موجود ہے جس کا تعلق قرآنی تعلیمات اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔
یوں تو دنیا کی تمام قوموں کے اپنے اپنے شعائر ہیں جن کا تعلق ان کی تہذیب، ثقافت، علاقائی رسم و رواج اور لباس سے ہے جن کا نہ صرف وہ احترام کرتے ہیں بلکہ اپنی شناخت کے طور پر اپناتے بھی ہیں، بالخصوص مذہبی طبقہ تو اس پر سختی سے کاربند ہوتا ہے۔ اہلِ کتاب میں یہودیوں کے مذہبی طبقے یا رہنماؤں کو دیکھا جائے تو وہ نہ صرف داڑھی رکھتے ہیں بلکہ ایک مخصوص وضع قطع کا لباس بھی پہنتے ہیں۔ یہ اپنی تمام مذہبی علامات کی شدت سے حفاظت کرتے ہیں اور سبت کے دن تو عام تعطیل کے ساتھ اس کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ 1967ء میں تمام عرب دنیا پر حملے کے لیے انہوں نے سبت کے دن کا انتخاب کیا اور پوری اسرائیلی قوم روزے سے تھی۔ ان کا کوئی مذہبی پیشوا عام یہودیوں کا لباس نہیں پہنتا۔
عیسائی گو کہ مذہب بے زاری کا شکار ہیں مگر پوری عیسائی دنیا اتوار کو ہی عام تعطیل کرتی ہے۔ ان کے پادریوں، تمام پیشواؤں اور پوپ اعظم کا لباس مذہبی ہوتا ہے، اور چرچ کی خدمت گار نن بھی مخصوص باحجاب لباس پہنتی ہیں اور اپنے سماج میں قابلِ احترام بھی ہیں۔ احترام سے ان کو ہر عیسائی ’’سسٹر‘‘ کہتا ہے۔ صلیب ان کا مقدس ترین نشان ہے جو اکثر مذہب پرست عیسائی گلے میں ڈال کر رکھتا ہے، اور تو اور عام عیسائی تو ٹائی کو صلیب کی علامت کے طور پر گلے میں باندھتے ہیں۔
ہندوؤں کے سادھو سنت اور پنڈت، بدھوں کے مونک اور راہب، جینیوں کے مذہبی پیشوا سب کے سب ایک مخصوص وضع قطع کا لباس پہنتے ہیں۔ رام کرشنا مشن جو کہ ہندوستان میں اعلیٰ تعلیمی نظام چلاتے ہیں، اُن کے اساتذہ اپنے بانی سوامی وویکانند کا لباس زیبِ تن کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ نوبیل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور بھی ہندو مذہبی پیشوا تھا۔ داڑھی رکھنا تو ہر مذہب کے پیشوا کی پہچان ہے۔ سکھ واحد قوم ہے جس کے تمام مرد اپنے مذہب کی پانچ علامتوں یعنی شعائر کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ سر کے لمبے بال، داڑھی، پگڑی اور ہاتھ میں کڑا اور کمر میں کٹار… حتیٰ کہ انہوں نے ہندوستان سے باہر یورپ، امریکا اور دیگر ملکوں میں بھی اس کو ترک نہیں کیا۔
اسلام میں کچھ شعائر تو مجرد ہیں اور کچھ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہیں۔ کچھ متحرک ہیں اور کچھ اختیاری ہیں، مگر قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک مسلمانانِ عالم نے نہ صرف ان کو اپنایا ہے بلکہ ان کی حرمت کی حفاظت بھی کی ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج نے تمام قوموں میں اس کی انفرادیت کو قائم رکھا ہے۔ ہماری مساجد کی منفرد تعمیرات تمام مذاہب کی عبادت گاہوں سے الگ ہیں۔ گنبد و مینار اور محراب کی مجموعی تعمیراتی انجینئرنگ مسلم تعمیرات کا ایک شاہکار ہے۔ ہماری عبادات نماز روزہ، حج ، زکوٰۃ اور قربانی سب دیگر مذاہب سے منفرد ہیں۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے کو اللہ کی بخشی ہوئی داڑھی کے نور سے منور کیا، لہٰذا دنیا کا ہر مسلمان اس سنت کو اپناکر نہ صرف فخر محسوس کرتا ہے بلکہ ہر داڑھی رکھنے والا مسلمان دنیا کے جس کونے کا باسی ہے، وہ ایک جیسا لگتا ہے اور دور سے ہی پہچان میں آجاتا ہے، کیوں کہ مسلمانوں کی داڑھی دیگر مذاہب سے منفرد ہوتی ہے۔ اسلام میں لباس کا ڈیزائن تو بیان نہیں ہوا ہے بلکہ ستر پوشی کی حدود مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ بیان کی گئی ہیں۔ مسلمان دیگر مذاہب کے کسی شعائر پر معترض نہیں لیکن آج پوری عیسائی دنیا مسلمانوں کے تہذیب و ثقافت، بہنوں کے باحجاب ہونے اور مسجدوں کے میناروں پر نہ صرف معترض ہے بلکہ ان کو مٹانے کے درپے ہے۔
قرونِ اولیٰ کے مسلم سائنس دان ہوں یا افریقہ، وسط ایشیا اور ہندوستان کے اکابرین… سب کے سب مخصوص وضع قطع کا لباس پہننے والے اور داڑھی سے مزین چہرے والے تھے۔
عربوں کا ایک مخصوص لباس ہے جو ہادیِ برحق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس ہے جسے عرب دنیا کا ہر مرد زیب تن کرتا ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہندوستان کا پاجامہ پیش کیا گیا تو آپؐ نے اس کی تعریف کی اور اسے ستر پوش قرار دیا مگر کہا کہ اس کی تیاری ذرا مشکل ہے۔ چین، جاپان، انڈونیشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں لوگوں کے داڑھی کے بال نہیں اُگتے مگر قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ چین کے مشہور عالم دین مولانا ہاؤکاؤ جان کا داڑھی کا صرف ایک بال تھا جس کو آپ نے بڑھا کر رکھا اور مرتے دم تک اس کی حفاظت کی۔ ہر خطے کا لباس الگ الگ ہے پھر بھی وہاں مسلمانوں کے لباس کی انفرادیت سر پر پگڑی اور دستار سے قائم ہے۔ مسلمان قبائل تو اپنی دستار اور شملے کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ سر پر ٹوپی رکھنا بھی مسلمانوں کا شیوا ہے۔ جان بوجھ کر خالی سر نماز پڑھنے سے نماز مکروہ ہوجاتی ہے۔
برصغیر ہند و پاک میں اگر مسلمانوں اور ہندوؤں کے لباس، کھانے پینے کے برتن اور دیگر چیزوں کا جائزہ لیں تو وہ بالکل الگ ہیں۔ مثال کے طور پر مسلمان مرد شلوار قمیص پہنتے ہیں اور ہندو دھوتی۔ مسلمان زلفیں رکھتے ہیں جب کہ ہندو چٹیا رکھتے ہیں۔ عام مسلمان داڑھی رکھتے ہیں مگر عام ہندو نہیں رکھتے۔ ہندو تھالی میں کھاتا ہے مسلمان رکاب میں کھاتے ہیں۔ ہندو کا بدھنا ہوتا ہے، مسلمان لوٹا استعمال کرتے ہیں۔ ہندو عورتیں ساڑھی پہنتی ہیں جبکہ مسلمان خواتین شلوار قمیص اور دوپٹہ پہن کر برقع یا عبایا زیب تن کرتی ہیں۔ ہندوؤں کا کھانا الگ، لباس الگ۔ وہ شرک کے علَم بردار، مسلمان توحید پرست۔ اگر کسی مسلمان کی داڑھی نہ ہو، سر پر ٹوپی نہ ہو اور وہ آج کل کے عام انگریزوں جیسا لباس پہنتا ہو تو گھر اور محلے سے باہر اس کی شناخت مسلمان کے طور پر کیسے کی جائے! اس پر مستزاد یہ کہ وہ مذہبی پیشوا اور دینی تحریک کا رہنما بھی کہلاتا ہو۔
مسلمان مختون ہوتے ہیں ہندو نہیں ہوتا۔ مسلمان بیٹھ کر پیشاب کرتے ہیں جب کہ ہندو کھڑے ہوکر۔ مسلمان استنجا کرتے ہیں، ہندو ہر وقت ناپاکی کی حالت میں ہوتے ہیں بلکہ عیسائی بھی۔ مسلمان اپنے مُردوں کو احترام کے ساتھ دفناتے ہیں، ہندو اپنے مُردوں کو جلاتے ہیں، جبکہ زرتشتی مُردوں کو گِدھوں کے حوالے کردیتے ہیں، سکھ بھی مُردوں کو جلاتے ہیں۔
دورِ غلامی میں ہمارے اکابرین نے اپنی شناخت مسلمان کی حیثیت سے کرائی۔ داڑھی، ٹوپی اور مسلمانوں کے لباس میں آزادی کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ حالانکہ اُس زمانے میں خود کو انگریزی تعلیم اور لباس میں ظاہر کرنا ترقی کی علامت تھی۔ مولانا مودودیؒ، مولانا شوکت علیؒ، مولانا محمد علی جوہرؒ اور تمام دینی علما اور تحریکِ آزادی کے اکابرین اسلامی شعائر کے ساتھ میدانِ عمل میں اترے اور کبھی بھی نہ سوچا کہ کمیونسٹ اور سیکولر عناصر کو لبھانے کے لیے عام لباس زیب تن کریں۔ ڈنکے کی چوٹ پر کفر کو للکارا۔ عجب طرفہ تماشا دیکھیے کہ سرسید احمد خان جو انگریزی تعلیم اور انگریزوں کو مسلمانوں کا نجات دہندہ سمجھتے تھے وہ بھی خود کو مسلمانوں کا رہنما ثابت کرنے کے لیے مسلم وضع قطع کے ساتھ میدان میں اترے، جن کی تقلید آج بھی لبرل طبقہ کرتا ہے۔
آج یورپ اور امریکا میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ جب بھی کوئی مشہور و معروف شوبز اداکار، لادین سیاست دان یا سائنس دان مرد و زن اسلام سے بہرہ مند ہوتے ہیں وہ اپنی جسمانی ہیئت اور لباس بدل کر اسلامی تہذیب و ثقافت کے علَم بردار بن جاتے ہیں، بالخصوص خواتین جو اسلام سے پہلے نیم عریاں لباس پہنتی تھیں فوراً باحجاب ہوکر اسلامی لباس زیبِ تن کرلیتی ہیں۔
قرآن میں فرمایا گیا ’’یہ یہود ونصاریٰ تم سے اُس وقت تک راضی نہیں ہوں گے جب تک تم اپنے آپ کو ان جیسا نہ بنا لو۔‘‘ آج ہمارا تعلیمی نظام و نصاب انگریزوں سے مستعار ہے، جس کی وجہ سے ہمارا کوئی قومی بیانیہ نہیں ہے۔ موجودہ تعلیم یافتہ نسل احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ اسلام نے دیگر اقوام کے مقابلے میں ہماری شناخت کو انفرادیت بخشی ہے۔ اشیائے خورونوش کے معاملے میں بھی حرام و حلال کے معیارات الگ ہیں۔ دورِ غلامی میں 1940ء کی دہائی میں جب علمائے دیوبند نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ ہندو مسلم بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے مسلمان گائے کی قربانی نہ کریں، اُس وقت مولانا مودودیؒ نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا کہ ’’مسلمانوں کو گائے کی قربانی لازمی کرنی چاہیے کیوں کہ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں اور اس کو مقدس مانتے ہیں، اگر آج نہیں کریں گے تو بنی اسرائیل کی طرح یہ بھی اس کو مقدس جان کر پوجا کرنے لگیں گے۔‘‘ اسی لیے اللہ نے بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تھا۔ جب اکبر بادشاہ نے ہندوئوںکو خوش کرنے کے لیے گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگائی تو حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اس کے خلاف جد وجہد کی اور اس حکم کو منسوخ کروایا۔
مختصر یہ کہ اسلام کا نظام، تہذیب ثقافت، خوراک، لباس سب کچھ دیگر اقوام سے جدا ہے، لہٰذا ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ اسلامی شعائر کی حرمت کی حفاظت کرے اور اس کو ببانگ دہل اپنائے۔
تہذیب پھر سے آئی ہے پتھر کے دور کی
یہ اور بات ہے کہ نئے پیرہن میں ہے