انسان نے ہزاروں برس کے دورانیے میں قدرتی ماحول کو جو نقصان پہنچایا تھا وہ کچھ بھی نہ تھا۔ صرف سو سال کے عرصے میں جو کچھ بھی روئے ارض پر ہوا ہے وہ اس قدر خطرناک ہے کہ اب اُس کے نتائج دیکھ کر دل دہل رہے ہیں۔ جو کچھ بھی اس کائنات کے خالق نے ہمارے لیے محفوظ کر رکھا تھا وہ ہم نے محض استعمال نہیں کیا ہے بلکہ ضایع بھی کیا ہے۔ اس ضیاع کے بطن سے ایسی خرابیاں ہویدا ہوئی ہیں جنہیں دیکھ کر دل و دماغ قابو میں نہیں ہیں تو اِس پر افسوس تو ہوسکتا ہے، حیرت کا محل نہیں۔ سبھی کو اندازہ تھا کہ ایسا ہوگا اور ہورہا ہے۔
قدرتی وسائل کو بے ذہنی سے بروئے کار لانے کی ذہنیت انسان نے سو سے ڈیڑھ سو سال میں پروان چڑھائی ہے۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ ایک بڑا سبب تو اس کا یہ ہے کہ دنیا کی آبادی مسلسل بڑھتی گئی ہے۔ آبادی کا بڑھنا آج بھی وسائل کے تناسب سے بہت زیادہ پریشان کن نہیں، تاہم مسئلہ یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں اپنی سوچ کو بدلنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ یوں ایسا بہت کچھ ہوا ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔
دنیا بھر میں قدرتی وسائل کو اپنے مفاد کے لیے بروئے کار لانے کی ذہنیت اصلاً خودغرضی پر مبنی رہی ہے۔ انسان صرف وقتی فائدہ دیکھتا ہے اور وہ بھی محدود پیمانے پر۔ اِسے کہتے ہیں اپنی چند بوٹیوں کے لیے پورا بکرا ذبح کردینا۔
دنیا بھر میں ماحول تہس نہس ہوکر رہ گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے آپ کو سنبھال کر رکھا ہے۔ وہاں بیشتر معاملات میں کوئی نہ کوئی نظام کام کررہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک نے اس معاملے پر پوری توجہ تو نہیں دی تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہاں معاملات کو بالکل نظرانداز کردیا گیا ہے۔ پس ماندہ ممالک کا حال بہت برا ہے۔ وہ کسی گنتی ہی میں نہیں۔ اِن ممالک میں معاشی امکانات کی تلاش انسان کو ماحول کی تباہی کی طرف لے جانے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتی۔ پس ماندہ ممالک میں قدرتی وسائل کو معاشی فوائد کے لیے بروئے کار لانے کی ذہنیت اس قدر پنپ چکی ہے کہ اس کے نتیجے میں عدم توازن کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا کرنے والے انگلیوں پر گِنے جاسکتے ہیں۔
ماحول کو شدید عدم توازن سے دوچار کرنے میں انسان کا کردار انتہائی گھناؤنا رہا ہے۔ دنیا بھر میں قدری وسائل کو بے دردی سے استعمال کرکے محدود، ذاتی نوعیت کے معاشی فوائد بٹورے جارہے ہیں۔ عمومی انفرادی سطح پر تو کوئی کیا سوچے گا، بیشتر معاملات میں حکومتیں بھی اس حوالے سے شدید بے حِسی اور بے نیازی کا مظاہرہ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
قدرتی وسائل پر مبنی نظام کو انگریزی میں ایکو سسٹم کہا جاتا ہے۔ جس طور کسی انسان کے جسم میں تمام نظام ڈھنگ سے کام کریں تو انسان ڈھنگ سے جی پاتا ہے بالکل اُسی طور ایکو سسٹم کے تمام حصے بھی اپنے اپنے حصے کا کام ڈھنگ سے کرتے رہیں تو دنیا ڈھنگ سے چل پاتی ہے۔ انسان نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ جو کچھ قدرت نے بخشا ہے وہ سوچے سمجھے بغیر جتنا چاہو استعمال کرو، قدرت کی فیاضی تو ختم ہونے والی نہیں۔ قدرت کی فیاضی ختم نہیں ہوسکتی مگر قدرت نے اپنی فیاضی سے مستفید ہونے کے جو اصول مرتب کررکھے ہیں اُن پر کاربند رہنا تو بہرحال لازم ہے۔ اِن اصولوں کو نظرانداز کرنے کی صورت میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں وہ محض افراد کو نہیں بلکہ پوری پوری قوم کو لے ڈوبتی ہیں۔
یورپ کے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں مشینی دور شروع ہوا۔ مشین چونکہ ایندھن سے چلتی ہے اس لیے ایندھن کے استعمال کے نتیجے میں دھواں پیدا ہونے لگا اور یوں ماحول کے لیے خرابیاں بڑھتی گئیں۔ کم و بیش ڈیڑھ سو سال کے دوران انسان نے زمین سے تیل نکال نکال کر اُسے دھویں میں تبدیل کیا ہے۔ یہ دھواں خلا میں تحلیل نہیں ہوا بلکہ اِسی ماحول کا حصہ بن کر اِسے نقصان پہنچاتا رہا ہے۔ کہیں کسی جگہ چند گاڑیاں محض تھوڑی سی دیر کے لیے دھواں چھوڑیں تو سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ سو سال سے بھی زائد مدت سے دنیا بھر میں لاکھوں گاڑیاں مستقل دھواں اگلتی رہی ہیں تو اِس کے نتیجے میں ماحول کے لیے کتنی خرابیاں پیدا ہوئی ہوں گی۔
انسان نے ماحول سے جو سلوک روا رکھا ہے اُس کے نتائج اب کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ ایک طرف دھویں کی آمیزش سے ماحول کو شدید نقصان پہنچتا رہا ہے اور دوسری طرف ماحول کو سلامت رکھنے کے معاملے میں بھی بے حِسی اور بے نیازی نمایاں رہی ہے۔ یہ تصور کرلیا گیا تھا کہ ماحول کو جو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اُس کا ازالہ خودبخود ہوجائے گا، یعنی ماحول اپنی تمام خرابیوں کو خود ہی دور کرلے گا۔ مگر ایسا نہ ہوسکا کیونکہ قدرت کا نظام ایسا ہے ہی نہیں۔
دنیا بھر میں گاڑیاں جس قدر دھواں اگل رہی تھیں اُس کے پیشِ نظر وسیع پیمانے پر شجر کاری لازم تھی۔ زیادہ سے زیادہ شجر لگائے جاتے تو دھویں کے شدید منفی اثرات سے بہت حد تک بچاؤ ممکن ہوسکتا تھا۔ شجرکاری انسان کی ترجیحات میں کبھی نمایاں نہیں رہی۔ ہاں، قدرت نے ہمارے لیے جو جنگل کھڑے کر رکھے تھے اُن کے درخت کاٹ کاٹ کر اپنی اپنی جیبیں بھرنے کا چلن عام رہا ہے۔ جنگلات کا رقبہ گھٹنے سے ماحول میں شدید عدم توازن پیدا ہوا ہے اور اِس کے نتیجے میں ایک طرف بارشوں کا نظام متاثر ہوا ہے اور دوسری طرف سیلابی ریلے اب شہری علاقوں کو بھی نہیں بخش رہے۔ چند برسوں کے دوران ’اربن فلڈنگ‘ کی اصطلاح عام ہوئی ہے۔ اربن فلڈنگ یعنی شہری علاقوں میں سیلابی کیفیت۔
قدرتی وسائل اس لیے ہوتے ہیں کہ ہم اُن سے مستفید ہوں اور اپنی زندگی کا معیار بلند کریں، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ وسائل سوچے سمجھے بغیر استعمال کیے جاتے رہیں اور جواب میں اُن کی صلاحیت و سکت برقرار رکھنے کے لیے کچھ نہ کیا جائے۔ انسان نے ایک صدی کے دوران جس طور ماحول کو برتا ہے اُس کے وہی نتائج نکل سکتے تھے جو نکل رہے ہیں۔ عالمی سطح پر درجۂ حرارت بڑھتا ہی گیا ہے۔ جنگلات کی کٹائی، شجرکاری کے کمزور رجحان، زرعی اراضی کی سکت کے کمزور پڑنے اور جنگلی جانوروں کے لیے قدرت کی طرف سے پروان چڑھائے ہوئے ٹھکانوں کی تباہی سے پوری دنیا کے ماحول کے لیے جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں وہ اب انسان کے لیے حقیقی دردِ سر کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔
ماحول کے گرم ہونے سے بہت کچھ بدل چکا ہے۔ بارشوں کا نظام کچھ کا کچھ ہوگیا ہے۔ کہیں اچانک بہت زیادہ بارشیں ہوجاتی ہیں اور کہیں ایک مدت تک ایک بوند نہیں برستی۔ ڈھائی تین ماہ قبل متحدہ عرب امارات میں ایسی بارشیں ہوئیں کہ لوگ نتائج دیکھ کر کانپ اٹھے۔ دنیا کے جدید ترین شہروں میں شمار ہونے والا دبئی ڈوب گیا۔ یہ تصور کرلیا گیا تھا کہ دبئی اور اُس سے ملحق چھوٹی شہری ریاستیں علاقائی جنت ہیں، مگر اِن بارشوں نے دبئی کا وہ حال کیا کہ یو اے ای کی حکومت کے لیے لازم ہوگیا کہ دبئی میں بارشوں سے ہونے والی تباہی کی وڈیوز پھیلانے پر پابندی عائد کرے۔ یو اے ای کی حکومت نہیں چاہتی تھی کہ دنیا کو بارش کے ہاتھوں دبئی کی حالتِ زار کا پتا چلے۔ ایسی صورت میں وہاں سرمایہ کاری بھی متاثر ہوسکتی تھی اور سیاحت پر بھی شدید منفی اثرات مرتب ہوسکتے تھے۔
پاکستان سمیت متعدد ممالک میں غیر متوقع بارشوں کے ہاتھوں تباہی واقع ہوتی رہی ہے۔ پاکستان میں ڈیڑھ عشرے کے دوران کئی مواقع پر غیر متوقع موسلا دھار بارشوں نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ لوگ دہل کر رہ گئے ہیں۔ 2019ء میں کراچی میں ایسی بارش ہوئی کہ محض چند گھنٹوں میں پورا شہر زیرِ آب آگیا اور لاکھوں افراد اپنے اپنے مقاماتِ کار سے واپس آتے ہوئے راستوں میں پھنس کر رہ گئے۔ ایسی بارش کسی نے دیکھی تو کیا، سوچی بھی نہ تھی۔ کراچی کے متعدد علاقے شدید خرابی سے دوچار ہوئے اور وہاں جمع ہونے والا پانی ہفتوں کھڑا رہا۔ پانی کی نکاسی کا نظام نہ ہونے کے باعث دھوپ سے پانی کے بھاپ بن کر اُڑنے کا تماشا دیکھنے کے سوا چارہ نہ تھا۔
اس سے قبل سندھ میں مسلسل دو سال تک ایسی بارشیں ہوئیں کہ کئی علاقے سیلاب کی نذر ہوئے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور اُن کی بحالی کے نام پر یار لوگ اب تک اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں۔ ایسا صرف پاکستان میں نہیں ہوا۔ جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور افریقا کے بہت سے ممالک میں غیر متوقع موسلا دھار بارشوں نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ لوگ دیکھتے ہی رہ گئے ہیں۔ کبھی کبھی یورپ میں بھی بے موسم کی بارشیں ہوئی ہیں اور کئی مقامات پر اربن فلڈنگ رونما ہوئی ہے۔ فرانس، اسپین، جرمنی، اٹلی اور چند دوسرے ممالک میں بے موسم کی بارشوں نے ایک عشرے کے دوران غیر معمولی تباہی کی راہ ہموار کی ہے۔
یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ جو کچھ قدرت نے ہمارے لیے لاکھوں سال سے سنبھال کر رکھا تھا وہ ہم نے اپنے معاشی مفادات کے لیے بروئے کار لاتے ہوئے پورے ماحول یعنی ایکو سسٹم میں شدید عدم توازن پیدا کردیا ہے۔ اس عدم توازن کے نتیجے میں حیاتیاتی تنوع بھی متاثر ہوا ہے۔ بہت سے جانور اب معدم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ پرندوں، چرندوں اور درندوں کی متعدد نسلیں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ جنگلات کا رقبہ بہت کم رہ جانے اور شہروں میں شجر کاری نہ کیے جانے کے نتیجے میں لاکھوں پرندوں کو گھونسلے بنانے کی جگہ نہیں مل پارہی۔ شہری ماحول اس قدر کثیف ہے کہ اُس میں پرندوں کے بسنے کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ کہیں کہیں درخت ہیں بھی تو دھویں کے اثرات سے اَٹے ہوئے۔ پانی نہ دیے جانے کے باعث شہری علاقوں کے درخت بھی نیم جان سے ہیں۔
ماحول میں بڑھتی ہوئی گرمی انتہائی سرد خطوں کو بھی متاثر کررہی ہے۔ جو علاقے ہر وقت برف کی دبیز چادر اوڑھے رہتے تھے وہ بھی اب ماحول کو پہنچنے والے نقصان سے اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب نہیں ہو پارہے۔ ماہرین نے برسوں کے تجزیے کی روشنی میں بتایا ہے کہ انتہائی سرد خطوں میں پہاڑوں پر اور گلیشیرز میں جمی ہوئی برف کی تہیں اب کمزور پڑ رہی ہیں۔ برف کے جمے رہنے کی میعاد گھٹ رہی ہے۔ یہ سب کچھ ماحول کے گرم ہوتے رہنے کا نتیجہ ہے۔ برف کے جمے رہنے یا اپنے آپ کو برقرار رکھنے کی سکت میں رونما ہونے والی کمی سے تیز رفتار پگھلاؤ واقع ہورہا ہے۔ برف کے پگھلنے کی رفتار بڑھنے سے زیریں علاقوں میں اچانک پانی بہت بڑھ جاتا ہے۔ دریاؤں میں غیر متوقع طور پر بہت زیادہ پانی آجانے سے سیلابی کیفیت رونما ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں بعض علاقے تیزی سے زیرِِآب آجاتے ہیں۔ یوں اُن علاقوں میں کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں اور زمین تادیر ناقابلِ کاشت رہتی ہے۔
برف کا تیز رفتار پگھلاؤ دنیا بھر میں پینے کے صاف پانی کے مسئلے کی سنگینی بڑھا رہا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں یہ سب کچھ اور بھی خطرناک ہے کیونکہ دریاؤں میں اچانک آجانے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت برائے نام ہے۔ منگلا اور تربیلا ڈیم کے بھر جانے کے بعد دریائے سندھ اور اُس کی شاخوں میں موجود پانی سمندر بُرد ہوجاتا ہے۔ پانی کا سمندر میں جانا فطری عمل ہے، لیکن اگر یہی پانی پہلے استعمال کرلیا جائے، اِس سے مستفید ہوا جائے تو ایسا کرنے میں کیا ہرج ہے؟ اس حوالے سے سوچنے والے بھی انگلیوں پر گِنے جاسکتے ہیں۔
بہت سے علاقوں سے قدرتی وسائل اس قدر نکالے جاچکے ہیں کہ وہاں خلا پیدا ہوچکا ہے۔ زمین سے تیل نکالنے کا سلسلہ سو سال سے بھی زیادہ مدت سے جاری ہے۔ خام تیل کی مصنوعات کے استعمال سے دنیا بھر میں دھواں پھیلا ہے۔ یہ تو اس معاملے کا صرف ایک پہلو ہے۔ زمین میں خلا بھی تو پیدا ہوا ہے۔ کیا یہ تبدیلی گُل نہیں کھلائے گی؟ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی علاقے سے اربوں بیرل تیل نکالا جائے اور وہاں اندر ہی اندر اِتنا خلا پیدا ہو کہ اُس کی بھرپائی کے لیے ٹیکٹونک پلیٹیں اِدھر کی اُدھر ہوجائیں۔ قدرت نے بہت کچھ طے کر رکھا ہے مگر ہم قدرت کے معاملات میں مداخلت کرتے رہیں تو سب کچھ اچھا کہاں رہ پائے گا؟ ماہرین نے اس حوالے سے بھی بہت کچھ سوچا ہوگا مگر شاید اس خوف سے نہیں بتارہے کہ لوگوں کے دل مزید دہل جائیں گے۔
انسان نے کم و بیش تین ہزار سال کے سفرِ ترقی کے دوران جو کچھ بھی ممکن بنایا تھا وہ اپنی بہترین شکل میں تقریباً ایک صدی کے دوران سامنے آیا ہے۔ ہزاروں سال کی محنت کے نتیجے میں جو کچھ ایجاد اور دریافت ہوا ہے اُس نے محض ایک صدی کی مدت میں لاتعداد خرابیاں پیدا کرکے دنیا کو کچھ کا کچھ بنادیا ہے۔ ماحول میں رونما ہونے والے عدم توازن کے نتیجے میں کہیں موسم انتہائی گرم ہوچلا ہے اور کہیں انتہائی سرد۔ برف باری بھی زیادہ ہورہی ہے اور بارش بھی۔ اور پھر شدید گرمی پڑنے سے وہ برف بھی پگھل رہی ہے جو صدیوں سے نہ پگھلی تھی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ قطبین کی برف بھی تیزی سے پگھل رہی ہے اور مختلف زیریں ممالک کے پہاڑوں پر اور گلیشیرز میں جمی ہوئی برف بھی۔ پاکستان میں کم و بیش سات ہزار گلیشیر ہیں اور اب اُن میں برف کی وہ تہیں بھی پگھل رہی ہیں جو صدیوں محفوظ رہی تھیں۔ یہی حال انٹارکٹیکا کا بھی ہے۔ وہاں بھی برف تیزی سے پگھل کر معاملات کو خراب کرتی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔ انسان کو سوچنا ہوگا کہ قدرت کے نظام سے کِھلواڑ اچھی بات نہیں۔ یہ سلسلہ رُکنا چاہیے تاکہ دنیا کو بہتر بنانے کے حوالے سے کچھ سوچا جائے، کیا جائے۔ اس معاملے میں انفرادی مساعی کی کچھ خاص بساط نہیں۔ حکومتوں کو مل کر سوچنا ہوگا کہ دنیا کو مکمل خرابی سے کیونکر محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔