آخر شب کے ہم سفر

130

(20)

ہرے بنگال کا ’’آنند کانن‘‘
پاٹ کے پیلے پھول مرجھانے لگے۔ کھیتوں میں درانتیاں چل رہی ہیں۔ گٹھے پانی ڈبو دیئے گئے۔ کمر کمر پانی میں کھڑا کسان ریشہ علیحدہ کرنے میں جُٹے ہیں۔ یہ ریشہ دھویا اور سکھایا جائے گا۔ جھونپڑوں میں چرخے اور کرگھے چلیں گے۔

بنگال کے کسان نے اس ریشے کی خاطر سال بھر اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے۔ بارش میں بھیگ کر دھوپ میں جل کر یہ شاندار فصل تیار کی ہے۔ کیچڑ اور بدبو کے سمندر میں ڈوب کر سونا نکالا ہے۔

اب یہ ’’طلائی ریشہ‘‘ کارگو کے مہیب فولادی جہازوں پر لد کر طویل دریائوں پر سے گزرتا جُوٹ اسٹیشنوں پر پہنچے گا۔ چاند پور اور مداری پور اور نرائج گنج میں اُتارا جائے گا۔ کلکتے کے تاریک کارخانے اور اسکاٹ لینڈ کے جگمگاتے بینک بنگال کے اس سنہرے دھن کی منزل ہیں۔

پاٹ کے سڑتے سڑتے برکھارت بھی بیت چلی۔ گھاٹ اور گلیاں دو تارے کی جھنکار سے گونج رہی ہیں۔ سارے میں دھان کے سر سبز پودے لہلہاتے ہیں۔ چوپال میں مُرشدی گان کی محفلیں جمیں۔ شیخ مدن بائول اور درگائی فقیر اور پگلا کنائی۔ گائوں کے نٹ مندر سے کھول اور کڑتل کی آواز بلند ہوئی۔ رادھا، کرشنا، رادھا کرشنا۔ رادھا کرشنا۔ رادھا کرشنا۔

چنڈی داس کی رادھا۔ رام پرشاد کی کالی۔ درگائی فقیر کا اللہ۔ اللہ رے۔ اللہ رے۔ اللہ رے۔

’’بادل بوڑھے ہوگئے۔ رات نے چاند نیک شگون کے گھڑے کی طرح آسمان کے آنگن میں رکھ دیا۔ بگلوں کی پرواز جھیلوں میں اسی طرح منعکس ہے جیسے اَن گنت سفید کنول کھل جائیں۔ امیروں کے ہاں بے تحاشہ کھانے والے برہمنوں کو اب گرمی محسوس ہورہی ہے‘‘۔ گائوں کے کبی نے کہا۔

پھر اشین کی تیز دھوپ پانیوں پر پھیلی۔ سیندور ایسے سُرخ سورج کی گرمی نے نازک بدن بگلوں کو دکھی کیا۔ نرسلوں میں چمکنے والے پرند اور پن ککڑیاں اداس ہوئیں۔ ایکھ پک گئی۔ اب ہیبت ناک دریا اپنی پرانی رفتار پر واپس آرہے ہیں۔ سیلاب اُتر گیا۔ درخت سطح آب سے نمودار ہوئے ٹیلوں پر بنے جھونپڑے ننھے منے زمردیں جزیروں کی طرح پانی میں کھڑے ہیں۔ ہر طرح ڈونگیاں چل رہی ہیں۔ ریت کی لہروں پر راج ہنس کے پنجوں کے نشان پڑے ہیں۔ زرخیز بھیگی دھرتی پر نئی فصلیں بوئی جاتی ہیں۔ جھونپڑوں کی مرمت کی جارہی ہے۔ دُرگا پوجا کے لیے منڈپ اور بازار سج گئے۔ سارا دیس سنگیت سے گونج رہا ہے کہ درگا میکے آنے والی ہے۔ بیاہی بیٹی کے سواگت کے لیے گھر گھر تیاری کی گئی ہے۔ ہر ہندو گرہستن دُرگا کی ماں اور ہر گرہست گری راج ہے۔ گیتوں میں دُرگا کی ماں نے کہا۔ اُدما کو میکے کب بلائو گے گری راج؟ جاڑے نکلے، برسات بیتی… خزاں آگئی۔ مگر گوری اب تک نہیں آئی۔ اُسے تم نے کیسے خبطی سنّاسی کے پلے باندھ دیا۔ اس کا تو رنگ بھی کالا پڑ گیا ہوگا۔ جب کہتی ہوں گوری کو کیلاس سے لے آئو تم ٹال جاتے ہو گری راج… میں اسے لینے کیسے جائوں… میں تو لوک لاج سے مری جارہی ہوں۔ ایسا بے تُکا بھکاری داماد۔

شنکر نے بڑی مشکل سے چار دن کے لئے گوری کو میکے بھیجا ہے۔ ہر سُو تہوار کی دھوم مچی ہے۔ وجے گاتے ہوئے دیبی کو گھروں سے وداع کیا گیا۔ دیبی سجے ہوئے بجروں میں دریائوں پر پہنچی پانی میں دبو دی گئی۔

کار تک میں رات کو آسمان کی شفاف جھیل پر چاند کا خزاں آلود کنول تیرا تیرا پھرتا ہے۔ پکی سڑک پر گننے کے چھلکے بکھرے پڑے ہیں۔ ہوا میں زعفرانی گرد اُڑتی ہے۔ جوکی بالیوں پر طوطے بیٹھے ہیں۔ تیز چاندنی میں مچھیروں نے اپنے جال دریائوں پر پھیلا دیئے۔ ان کی بانسریوں کے سُروں نے پردیس جانے والے مسافروں کو مضطرب کیا۔ فضا میں آسمان کا دریا بہہ رہا ہے۔ اُڑتے بگلے اور سفید بادل اس کے ریتیلے ساحل ہیں اور ستارے اس کے نیلوفر۔ ندی کنارے، ٹھنڈی کیچڑ میں چرواہا سوتا ہے۔ گائوں کے کبی نے کہا۔

ادگھبران مہینے میں دھان تیار ہوگیا۔ منڈیوں میں قیامت کی چہل پہل ہے۔ گانے کے مقابلے کئے جارہے ہیں۔ گھر گھر نئے چاول کی کھیر پک رہی ہے۔

چاول۔ چاول۔ چاول۔

’’سنہرا بنگال‘‘ سال میں تین بار چاول اُگاتا ہے اور بھوکا رہتا ہے۔

گلابی جاڑوں میں سپاری کے سڈول درخت گلابی سپاریوں سے لد گئے۔ پوش کی چاندنی راتوں میں مچھیروں کے جال رد پہلی مچھیلیوں سے بھرے۔ کٹی ہوئی فصلوں کی رکھوالی کے لئے مچان بنائے گئے۔ الائو کے گرد غازی گان کی مجلس جمی۔ جھونپڑوں میں پرال بچھائی جانے لگی۔ رات کو گیدڑ جنگلوں سے باہر نکل آئے۔ سرسوں پھولی۔ دریائوں پر کشتی رانی کے مقابلے شروع ہوئے۔ ساری گان کے جوشیلے سُر آبی راستوں پر پھیل گئے۔

ماگھ کی طویل راتوں میں بندر سردی سے کانپ رہے ہیں۔ کتا چولہے کے پاس بیٹھا ہے۔ لڑکیاں چراغ کی روشنی میں سوزنیاں کاڑھنے میں مصروف ہیں۔ پردیسی مسافر گائوں والوں سے پرال اور بھوسہ مانگ رہے ہیں۔ غریب بڑھیا آگ تاپتی اپنی کٹی سے باہر نہیں نکلتی۔ دھان کے گٹھوں کے پاس اُپلے جل رہے ہیں۔ آپس میں جھگڑتے مسافر چوپال کے الائو کے پاس اکڑوں بیٹھے ہیں۔ اماوس کے سرد اور تاریک اندھیرے میں چڑیلوں اور جادوگرنیوں نے اپنے اپنے چولہے جلا لئے۔

صبح کا دھندلکا سارے گائوں پر چھا جاتا ہے۔ دور اُفق پر سُرخ پھول پہنے، گھونگھٹ کاڑھے اُوشا سسرال جاتی نظر آتی ہے۔ پھر پان کی سُرخی کی طرح لال۔ جنیو پہنے، تلک لگائے، کندھے پر لال انگوچھا ڈالے سُوریہ ٹھاکر برگد کے پیچھے سے جھانکتے ہیں۔ لو بھائی۔ وہ مالی اور سنار اور تیلی کے پھپروں تک پہنچ گئے۔ مالی کی لڑکیاں باغ میں پشپ انجلی کے پھول چنتی ہیں۔ تیلی کی لڑکی تالاب پر برتن مانجھتی ہے۔ صبح تڑکے سُوریہ ٹھاکر کی کرنیں بیل کی پیٹھ پر برستی ہیں۔ جو سربسز چوراہے پر سرسوں کے پھولوں سے لدا آرام سے لیٹا ہے اور کہرا اس کی پلکوں پر جم گیا ہے۔ گڈریاں اور پیوند بھری رضائیاں اوڑھے یاتری گلیوں میں بیٹھے رادھا کرشن کے نغمے گا گا کر بستی والوں کو جگا رہے ہیں۔ کولہو چلنے لگے، گڑ کی بھیلیاں بنیوں کی دکانوں پر آگئیں۔ گائوں کے کبی نے کہا۔

اور اب جنگلوں میں پلاش کے پتے جھڑ رہے ہیں۔ بنوں میں شیر دھاڑتے ہیں۔ شیشر کے خنک چاند کے نیچے پہاڑی راستوں پر اور کِ کھلے ہیں۔ سرسوتی پوجا کے لیے مورتیاں گھڑ کر دھوپ میں سکھائی جاچکیں۔ سرسوں پک گئی۔

پھالگن میں بانس کے ہرے بھرے جھنڈوں سے گزرتی، شہد کی مکھیوں کو جلو میں لئے بہار آن پہنچی۔ دکھن کی سہانی ہوائیں چلیں۔ لڑکیوں نے بالوں میں کلیاں سجائیں، رنگین کشتیاں لے کر مانجھی دریائوں پر نکلے۔ پشپ بنوں میں بھونرے گونجنے لگے۔

پھول بن میں آدھی رات کو آنارے بھونرے۔ میں چاند کی بتی جلائوں گی اور شبنم سے باتیں کروں گی۔ اور سپنوں کی پگڈنڈی پر چلتی تمہاری اور آئوں گی۔ بہت دھیرے سے آنارے بھونرے۔ کہیں تمہارا گیت ختم نہ ہوجائے۔ میری نیند نہ ٹوٹ جائے۔ پھول اور ڈالیاں نہ جاگ اُٹھیں رے بھونرے۔ گائوں کے کبی نے کہا۔

ہرجائی ہوا جنگل جنگل منڈلاتی پھر رہی ہے۔ چاروں طرف رنگ ہی رنگ بکھر چکے ہیں۔ رنگین نائو کا مانجھی اودی موجوں پر اپنی سبک کشتی کھیتا ہے۔ بل کھاتے دریا کی موڑ پر اسے سُرخ رنگ کا جھونپڑا نظر آیا۔ ندی کے کنارے ہری گھاس پر نیلی ساری سوکھتی ہے۔ شام کی پرچھائیوں میں چھپی کالی باڑی کی سمت سے پایل کی آواز آرہی ہے۔ جُھمر جُھمر کرتی وہ گھاٹ پر آکر اپنا رنگین گھڑا پانی میں ڈبو دیتی ہے۔ اس کی شکل کی ایک جھلک نے مجھے دیوانہ کردیا۔ سورج لہروں میں ڈوبتا جارہا ہے اور میں اپنی نائو کھے رہا ہوں۔ بھٹیالی کے مغنی نے کہا۔

چیتروں کے شہد ایسے مہینے میں پلاش پھولوں سے لد گئے۔ گل مہر کی پتیاں جھڑنے لگیں۔ جنگلوں میں زرد اور سرخ پتوں کے فرش بچھ گئے۔ آم کے کنجوں میں کوئل کُوکی، طوطے کی چونچ ایسے سُرخ سورج ماما کا غصہ پل پل پڑھتا جارہا ہے۔ مچھلیاں پکڑنے کا ہنگامہ شباب پر آیا۔ کشتیوں کی مرمت کی گئی۔ میلے لگے۔ خلقِ خدا جاترا کے تماشوںسے محظوظ ہوئی۔ ندیوں اور جھیلوں پر بنسیاں اور جال سنبھالے دیہاتیوں کی بھیڑ جمع ہے۔ جگماتی مچھلیوں کے انبار ہر سو لگ گئے۔

بوئی شاک میں شیفالی مہکی اور مادھبی اور بُکل۔ اشوک اور مہوے اور املتاس اور شیشم اور لاکھ کی شاخوں پر پھول کھلے۔ پاٹ کی نئی فصل بوئی جارہی ہے۔ خوشگوار ہوائیں آندھیوں میں تبدیل ہونے لگیں۔

جوئی شٹوکی دھوپ میں تال اور پوکھر سوکھنے لگے۔ نرسلوں کے پرند اور بگلے اور دریائی باز پر پھیلا کر اُڑتے جارہے ہیں۔ خوفناک طوفان، تیز و تند جھکڑ۔ چھپر اُڑ گئے۔ جھونپڑیاں گر گئیں، بادبان بکھر گئے، ہوائوں کی غارت گری، جھکڑنے دھرتی پر پھلوں کی بارش کردی۔ بازار اور ہاٹ آم سے پٹ گئے۔ اب جارل کھل چکے ہیں۔ اور چمپا اور روجنی گندھونے راتیں معطر کردی ہیں۔ تباہ حال کسان پھر جھونپڑوں اور جالوں کی مرمت میں جٹ چکے ہیں۔ برسات کے انتظار میں نئے جال بنے جارہے ہیں۔ شدید دھوپ وحشت، خشک سالی، اللہ میگھ دے، میگھ دے رے۔ اللہ میگھ دے۔ اللہ رے اللہ۔

تب بنگال کی کھاڑی سے آشاڑھ کے ورشا کالِن بادلوں کے لشکر آگے بڑھنا شروع ہوئے۔ ’’کیتکی کے زرگل کا بھبوت مل کر کھوپڑیوں کے بجائے بگلوں کی قطار کی مالا پہنے سیاہ بادلوں کا جوڑا باندھ کر، دھنک کی چھڑی اور بجلی کی جھنڈیوں والا عصا۔ سنبھالے برہنوں کو ڈرانے کے لئے موسم نے پھر جادوگر کا روپ دھارا۔ آسمان بارش کا تاریک درخت بن گیا جس کی داڑھی زمین تلک آرہی ہے۔ سانپوں کے بھُوکے موربنوں میں چلانے لگے۔ گلابی کیلوں سے لدا درخت اپنے پتوں کا چلّو بنا کر بارش کا پانی پی رہا ہے۔ بید کے پھولوں سے مہکتی ندی جامن کے درختوں کے نیچے رواں ہے۔ مچھلی کے تعاقب میں بگلا لرزاں پتوں کو پُرامید نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ مفلس کسان کی بیوی سر پر چٹائی اوڑھے، ہر طرف ٹپکتے جھونپڑے کا بچائو کرتی پھر رہی ہے۔ جنگلوں کے آدی واسی کانن دُرگا پوجا کے لئے درختوں کی جڑوں میں خون چھڑک کر بلوا کے پیالوں میں تاڑی پی رہے ہیں۔ گائوں کے کبی نے کہا۔

دریا چڑھے۔ میگھنا اور برہم پُتر۔ پدما اور مدھومتی، بھیرب اور بھاگیرتی، شب بنشری، اور کرنافلی، سُرما اور دھالیشوری… سرابن کے پانچویں دن ناگ پنچمی منائی گئی۔ جنگلوں میں ہاتھی چنگھاڑ رہے ہیں۔ ندیوں کے ساحل کیچڑ اور کائی اور کینچوئوں اور دلدل کی راجدھانی بن گئے۔ سانپ بلوں سے نکل آئے۔ اوجھوں کا کاروبار چمکا۔ چھتریاں لگائے لوگ جلدی جلدی گھاٹ پر اُترتے ہیں۔ بانس کے پلوں پر سے گزر رہے ہیں۔ تیتریوں کی ایسی نازک کشتیوں کو طوفانی دریا نگل گئے۔ دریا گائوں اپنے ساتھ بہا لے گئے۔ درخت جڑ سے اُکھڑے۔ مویشی اور انسان غرقاب ہوگئے۔

’’میری قسمت ہی خراب ہے۔ سیلاب میں سب کچھ بہہ گیا۔ اللہ تو نے دُنیا بنائی۔ اور پھر مجھ سے میرا پاٹ، میرا دھان سب کچھ چھین لیا۔ میری قسمت میں کتنے دُکھ ہیں رے اللہ۔ میں پاٹ بیچ کر تیرے لئے سونے کی نتھ لائوں گا۔ میں نے اُس سے کہا۔ پاٹ تو سیلاب میں بہہ گیا‘‘۔

او۔ مانجھی رے کتنے منش۔ کتنے ڈھور ڈنگر طوفان کی بھینٹ چڑھے۔ اللہ رے۔ اللہ رے۔ اللہ رے۔
گائوں کے کبی نے کہا۔
(جاری ہے)

حصہ