قدرت کے بے شمار حسین نظاروں سے بھرپور وادی کشمیر کی خوبصورتی، رعنائی اور دلکشی بے مثال ہے، جسے اگر نہیں دیکھا تو سمجھیں کچھ نہیں دیکھا۔ پریوں کے دیس کی کہانیاںتو بچپن میںضرور نانی ،دادی سے سنیں ہونگی،یہ جگہ بھی خوابوں کی دنیائیں یہاں کے نظاروں کو ویسے ہی بیان کرتی ہیں۔ گنگناتے جھرنے، شفاف ندیوں کی دلکش موسیقی، بادلوں میں لپٹے پہاڑ اور سرسبز جنگلات اس خطے کے جنت نظیر ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ یہاں کا ہر منظر سیاحوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔
اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ کشمیر پاکستان کا خوبصورت ترین حصہ ہے اور منفرد حسن سے مالامال ہے! تاہم کشمیر کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی سطح سمندر سے 13400 فٹ بلندی پر واقع رتی گلی جھیل بھی ہے۔ سطح سمندر سے بلند ہونے کی وجہ سے یہ جھیل سال کے زیادہ تر وقت برف سے ڈھکی رہتی ہے اور صرف چند مہینے ہی سیاحوں کے لیے کھلتی ہے۔ اس کی خوبصورتی زبان زدِ عام ہے۔لیکن بسااوقات کئی بار کوششوں کے باوجود برف باری اور راستہ بند ہونے کی وجہ سے یہاں پہنچنا ممکن نہیں ہوتا ۔
میرا خیال ہے جس نے کشمیر کے سفر میں رتی گلی کی خوبصورتی اور دل کو لبھانے والے نظارے نہیں دیکھے اُس نے بہت کچھ نہیں دیکھا۔ یہ ایک ایسا پُرفضا مقام ہے جو آپ کے ذہن پر گہرے نقش چھوڑے گا اور آپ بھلانا بھی چاہیں تو نہیں بھلا پائیں گے۔
یہ برف پوش چوٹیوں اور سرسبز و شاداب وادیوں کا ایک حسین سفر ہے۔ اس میں رتی برابر بھی شبہ نہیں ہے کہ بلند و بالا پہاڑوں کے دل میں واقع رتی گلی جھیل قدرت کا حسین اور انمول تحفہ ہے۔ اس جھیل کے اردگرد وسیع و عریض سرسبز میدان انتہائی خوبصورت اور دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔ جابجا موجود آبشاریں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ بلند و بالا چوٹیوں، سرسبز میدانوںاور متحرک جنگلی جانوروں اور پھولوں سے گھرا یہ پوشیدہ جوہر شہر کی ہلچل سے بھرپور زندگی کے مقابلے میں پُرسکون ماحول دیتا ہے۔ جھیل کا کرسٹل نما صاف فیروزی پانی آس پاس کے پہاڑوں کی حیرت انگیز خوبصورتی کی عکاسی کرتا ہے، ایک دلکش ماحول بناتا ہے جو دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔
اس خطے پر صدیوں سے مختلف سلطنتوں نے حکومت کی ہے، جن میں مغل، سکھ اور انگریز شامل ہیں۔ ہر سلطنت نے خطے پر اپنا الگ نشان چھوڑا، اور قلعوں اور مندروں کے کھنڈرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
مجھے یاد ہے، میں اپنے دوستوں کے ساتھ پیدل سفر کررہا تھا، ہم پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو جھیل ہمارے بالکل سامنے تھی، اور یہ میرے تصور سے بھی زیادہ خوبصورت تھی۔ پانی اتنا صاف تھا کہ ہم نیچے خوب صورت پتھروں اور قدرت کا حسن پانی کے اندر بھی دیکھ سکتےتھے۔ ذرا سر اٹھائیں توپہاڑ جھیل میں جھلک رہے تھے، اور یہ ایک پینٹنگ کی طرح لگ رہا تھا۔
جسیا کہ ذکر ہوا رتی گلی تک پہنچنے کے لیے دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔یہاں پہلےتو صرف لوگ دوواریاں سے ہائکنگ کرکے ہیجاتے تھے۔ لیکن اب اتنا زیادہ مشکل راستہ بھی نہیں، بس ان راستوں میں کہیں بڑے بڑے پتھر، کہیں گلیشیر، تو کہیں گہری کھائیاں ہیںجو وہاںکے مقامی لوگوں کے لیے دیکھی بھالی ہےاور آپ کا سفر جیپ کا سفر ہوتوکوئی مسئلہ نہیں اورجیپ کا سفر کسی ایڈونچر سے کم نہیں ہوتا،بلند و بالا پہاڑ، بادلوں کی اڑان اور دلکش نظارے خوف کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ وادی کا حسن دل میں بس جاتا ہے اور انسان قدرت کی خوبصورتی پر حیران رہ جاتا ہے۔
جھیل کے چہار اطراف کھلے میدانوں میں علاقے کے چرواہے ہزاروں مویشیوں کو پالتے ہیں۔ ان وادیوں میں بسنے والے لوگ پہاڑوں پر اس طرح چڑھتے ہیں جس طرح ہم گھروں کی سیڑھیاں۔ ان میں سر پر بھاری چارے کی گٹھریاں اٹھائے بزرگ مرد اور خواتین بھی آپ کو نظرآئیں گے۔ رتی گلی جھیل کا نیلگوں پانی اور کناروں پر جمی برف یہاں آنے والوں پر سحر طاری کرتے ہیں۔ وادی نیلم کی اس قدرتی جھیل کا نظارہ کرنے کے لیے آنے والے دواریاں زیروپوانٹ کے مقام سے مخصوص جیپوں اور گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔پھر سوال آئے گا کہ راستہ کیسا ہے؟ اس کے لیے یہ کہنا ہی کافی ہے کہ بہت خراب ہے، خطرناک موڑوں سے گزر کر اور پتھروں پر صرف 18 کلومیٹر کا مگر دو سے ڈھائی گھنٹے کا سفر ذرا مشکل اور دشوار ضرور ہے لیکن جھیل کے مقام پر پہنج کر آپ سفر کی تکلیف بھول جاتے ہیں۔ یہ بتانا بھی اہم ہوگا کہ امسال جیپ کا دوطرفہ کرایہ دس سے بارہ ہزار روپے ہے، اور اگر خوبصورتی سے متاثر ہوکر آپ رات رکنا چاہیں تو کچھ زیادہ کرایہ دے کر رک سکتے ہیں۔ میں تو یہی کہوں گا کہ آپ جب یہاں جائیں، یہاں خیمے لگے ہیں جہاں کھانے میں دال، لوبیا،کڑم ساگ،کڑھائی اور انڈہ گھوٹالا بنواسکتے ہیں۔ سفر کچھ اس طرح ہے کہ دومیل پرجیپ ایک خاص مقام پر رک جاتی ہے، مزید آگے کا سفر سیاح پیدل یا گھوڑوں پر طے کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ صرف ایک خوبصورت جھیل کا ذکر ہے، کہتے ہیں یہاں پہاڑوں کے قلب میں چھوٹی بڑی تقریباً15 جھیلیں ہیں۔ آسمان سے باتیں کرتے پربتوں کے قلب میں قدرت کے حسین رنگ لیے ہوئے رتی گلی جھیل کا ملحقہ علاقہ اور ہر سو بکھرے قدرت کے رنگ یہاں آنے والوں کو دعوتِ نظارہ دیتے ہیں۔ لیکن اس خوبصورتی اور دلکشی کو مئی تا ستمبر دیکھا جا سکتا ہے، باقی مہینوں میں یہ علاقہ برف کی چادر اوڑھ لیتا ہے، راستے بند ہوجاتے ہیں، لوگ اپنی خوراک، جانوروں کے چارے اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے ساتھ محصور ہوجاتے ہیں۔ کشمیر کا سفر ہو اور رتی گلی نہ جائیں تو سفر ادھورا ہے۔ آپ کا یہ سفر فیملی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے لیکن اُن لوگوں کے لیے جو مضبوط ارادہ رکھتے ہوں اور تکالیف کو انجوائے کرسکتے ہوں۔
رتی گلی جانے کا بہترین وقت گرمیوں کے مہینوں میں جون سے ستمبر تک ہوتا ہے جب موسم خوشگوار ہوتا ہے اور وادی تک رسائی ممکن ہوتی ہے۔ برف پگھلنا شروع ہوجاتی ہے اور گھاس کے میدان رنگ برنگے پھولوں کے ساتھ زندہ ہوجاتے ہیں۔ یہ ٹریکنگ، کیمپنگ اور خطے کے قدرتی عجائبات کی کھوج کے لیے بہترین وقت ہوتا ہے۔ تاہم یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ پہاڑوں میں موسم غیر متوقع ہوسکتا ہے، لہٰذا اپنے سفر کی منصوبہ بندی کرنے سے پہلے مقامی حالات کو چیک کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
رتی گلی، کیمپنگ کے شوقین افراد کے لیے ایک اہم جگہ ہے۔ جھیل کے گرد گھاس کے میدان کیمپ لگانے اور تاروں بھرے آسمانوں کے نیچے رات گزارنے کے لیے کافی جگہ مہیا کرتے ہیں۔ ٹریکنگ کے شوقین مختلف پگڈنڈیوں پر جا سکتے ہیں، جیسے رتی گلی بیس کیمپ ٹریک یا گنگبل جھیل کا ٹریک، جو ہمالیہ اور وادی نیلم کے شاندار نظارے پیش کرتے ہیں۔ رتی گلی مختلف قسم کے نباتات اور حیوانات کا گھر ہے۔ فطرت کے شائقین کے لیے خبر ہے کہ جنگلی حیات کی یہاںکثرت ہے لیکن انسانوں کے پہنچنے کی وجہ سے یہ جنگل کے اندر کہیں چھپ گئے ہیں۔
مقامی افراد مہمان نواز ہیں۔ گرم جوش اور مہمان نواز مقامی لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنا ایک بھرپور تجربہ ہوگا۔بی بی سی کے مطابق دو سال قبل بادل پھٹنے (کلاؤڈ برسٹ) اور نالے میں طغیانی کے بعد لوگ پریشان ہوئے تھے ،لیکن مقامی لوگوں نے اس واقعے کے بعد رتی گلی بیس کیمپ سے واپس آنے والے سیاحوں کو رات کی تاریکی میں دواریاں زیرو پوانٹ تک پہنچایا اور بہت سے سیاحوں کو مقامی لوگوں نے رضاکارانہ طور پر گھروں میں قیام کروایا۔
مقامی لوگوں نے نالے میں پھنسی گاڑیوں کو نکالنے میں ضلعی انتظامیہ کی مدد بھی کی۔سوشل میڈیا پر ایک سکول ٹیچر کی تصویر وائرل ہے جس میں وہ سیاحوں کے بچوں کو کندھوں پر اٹھا کر نالے کے قریب پہاڑیوں سے نیچے اتر رہے ہیں۔
وادی نیلم کے لوگ اپنی ثقافت، روایتی دستکاری اور لذیذ کھانوں کے لیے جانے جاتے ہیں، اس طرح آپ مقامی پکوانوں کا مزا چکھ سکتے ہیں۔چاہے آپ ایڈونچر کے شوقین ہوں، فطرت سے محبت کرنے والے ہوں، یا ثقافتی ایکسپلورر ہوں، رتی گلی آپ کی روح پر ایک انمٹ نقش چھوڑے گی، اور آپ کو واپس آنے اور اس کے مزید چھپے ہوئے خزانوں کو دریافت کرنے کا اشارہ دے گی۔
اگر آپ واقعی ایک ناقابلِ فراموش تجربہ کرنا چاہ رہے ہیںاور جون جولائی کی چھٹیاں اپنے بچوں کے ساتھ یادگار بنانا چاہتے ہیں، تو میں کشمیر رتی گلی تک پیدل سفر کرنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جسے آپ کبھی نہیں بھولیں گے۔ ہمارے دوست ناصر خلیل جو ٹورازم کا خاصا کامیاب نظام چلا رہے ہیں اور بڑی ذمہ داری کے ساتھ دوسروں کے مقابلے میں کم پیسوں میں یہ کام کررہے ہیں، بار بار دعوت دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کشمیر جائوتو رتی گلی ضرور جانا۔ میری بھی یہی خواہش ہے کہ اس جگہ کو پھر دیکھوں۔ مجھے معلوم ہے دس بار بھی دیکھوں گا تو یہ پہلے سے منفرد جگہ ملے گی۔ میرا پروگرام بنے نہ بنے، آپ تو جانے کا سوچ سکتے ہیں۔
لہٰذا اپنے بیگ پیک کریں، اپنے جوتے کے تسمے باندھیں، اور رتی گلی کے ایک ناقابلِ فراموش سفر کا آغاز کریں، جہاں بے مثال خوبصورتی اور حیرت انگیز نظارے آپ کی آمد کے منتظر ہیں۔