شاید وہ رات کا آخری پہر تھا جب میری آنکھ کھانسی کے زور سے کھل گئی۔ میں سینہ مسلتا اٹھ بیٹھا تھا۔ اسی لمحے میں نے اپنے تکیے کے کنارے پر چھوٹی چھوٹی پیلی مکڑیوں کی قطار دیکھی۔ میں زندگی میں ہزاروں بار مکڑیاں دیکھ چکا تھا، چھوٹی، بڑی، کالی، بھوری۔ مکڑی میرے لیے کبھی بھی کراہیت انگیز چیز نہیں رہی تھی۔ میں ان کے زہر سے بھی واقف تھا شاید اسی لیے رات کے اس آخری پہر انہیں اپنے تکیے کے کنارے دیکھ کر مجھے کچھ اچھا احساس نہیں ہوا تھا۔ میں بستر سے اٹھ کر بالکونی کی طرف کھلنے والے شیشے کے دروازے کے سامنے آکھڑا ہوا۔ باہر ہوا بہت سرد تھی، اس لیے میں اندر سے ہی آسمان کو دیکھتا رہا۔ روئی کے گالوں جیسے بادل ہوا کے رتھ پر سواری کرتے ہوئے اِدھر سے اُدھر اُڑتے پھر رہے تھے۔ مجھے محسوس ہونے لگا جیسے میں بھی ایک ہلکا پھلکا سا بادل بن کر آسمان کی طرف محوِ پرواز ہونے لگا ہوں۔ میں دیر تک اس کیفیت میں رہنا چاہتا تھا مگر رہ نہیں سکا۔ میں نے اپنے تکیے پر نگاہ ڈالی، مکڑیاں اب وہاں موجود نہیں تھیں۔ مکڑیوں اور بادلوں کی الجھن دل میں لیے میں سو گیا۔
دو دن بعد میں نے ایک بار پھر اپنے باتھ روم کے شیشے کے نچلے کنارے کے ساتھ ساتھ پیلی مکڑیوں کی قطار دیکھی۔ میں چاہتا تھا کہ وہ وہاں نہ ہوں مگر میں انھیں بھگا نہیں سکا۔ سوچتا رہا ابھی اگر میں نے انہیں پانی میں بہا دیا تب بھی یہ جلد ہی پھر نمودار ہوجائیں گی۔ ناشتے کی میز پر میں نے اپنی بیوی یاسمین سے اس بابت سوال کیا:
’’آج کل گھر میں پیلی مکڑیاں اتنی زیادہ کیوں دکھائی دینے لگی ہیں؟‘‘
’’نہیں، ایسا تو کچھ نہیں۔‘‘
اس کے مطمئن چہرے پہ مجھے ایسی تشویش دکھائی نہیں دی جیسی میرے دل میں تھی۔ گھر سے آفس جانے کے لیے بس میں جا بیٹھا۔ مجھ سے آگے گھنگریالے بالوں والی عورت گود میں بچہ لیے بیٹھی تھی۔ اس کے بالوں میں پیلی مکڑی دیکھ کر مجھے چند لمحوں کے لیے اپنی سانس رکتی محسوس ہوئی، میں نے ساتھ بیٹھے شخص سے کہا ’’اس عورت کو بتادو کہ اس کے بالوں میں مکڑی ہے۔‘‘
اس نے عورت کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا ’’نہیں، ایسا تو کچھ نہیں۔‘‘
میں نے حیرت سے اس شخص کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں عورت کا وجود بھرا ہوا تھا۔ میں نے گھبرا کر عورت پر نگاہ کی، مگر اب مکڑی اس کے بالوں میں نہیں تھی۔ آفس میں اپنے کام کے دوران بھی میں الجھن کا شکار رہا۔ باس کے کمرے میں ان کی مطلوبہ فائل دینے گیا تو ان کے لیٹر پیڈ کے کنارے بھی ویسی ہی پیلی مکڑیوں کی قطار دکھائی دی۔ میں نے چاہا کہ باس کو مطلع کردوں، مگر نہ کرسکا۔ مجھے لگا وہ بھی مسکراتے ہوئے کہہ دیں گے’’نہیں، ایسا تو کچھ نہیں۔‘‘
اپنی بے ترتیب سانسوں کو قابو کرتے میں باس سے چھٹی لے کر آفس سے نکل آیا۔
یونہی بلاوجہ آوارہ گردی کرتے میں سوچتا رہا، خود سے الجھتا رہا کہ آخر یہ پیلی مکڑیاں مجھے کیوں دکھائی دینے لگی ہیں؟ جلد ہی تھکن کا شدید احساس ہونے لگا تو قریب ہی ایک کتب خانے میں آرام کی غرض سے چلا گیا۔ کتب خانے میں سیکڑوں کتابیں تھیں اور ایک ادھیڑ عمر آدمی۔ اس نے مجھے مسکرا کر دیکھا۔ اس کی مسکراہٹ سے مجھے اس سے بات کرنے کا حوصلہ ہوا تھا۔ میں نے تمام بات اسے کہہ سنائی، وہ بھی غور سے سنتا رہا۔
’’کبھی کبھی جو ہمارے اندر ہوتا ہے وہ ہمیں باہر بھی دکھائی دینے لگتا ہے۔‘‘
اُس کی بات نے مجھے تشویش میں مبتلا کردیا۔ کیا میرے اندر پیلی مکڑیاں ہیں؟ میں اندر ہی اندر کانپنے لگا تھا۔
’’فکر نہ کرو۔ کیفیات مستقل نہیں ہوتیں۔ تمھارے اندر کی کیفیت بھی بدل جائے گی اور تم پھر سے مطمئن ہوجائو گے۔‘‘
ایک باریک سا کانٹا میرے اندر چبھنے لگا۔
’’تو کیا… میں مکڑیوں کی موجودگی میں تکیے پر سر رکھ کر سونے لگوں گا؟‘‘
وہ میری حالت پر مسکراتا رہا۔
’’میں… میں انتظار نہیں کر سکتا۔ مجھے ان مکڑیوں کے ساتھ نہیں رہنا۔‘‘
وہ آدمی میری مدد نہیں کرے گا اس کا مجھے یقین ہوچلا تھا۔ میں نے اپنی توجہ کتابوں کی جانب کرلی۔ آخر کو دنیا کے ہر مسئلے کا حل لوگوں نے ان ضخیم کتابوں کو پڑھ کر ہی تو حاصل کیا ہے۔ مجھے بھی ان ہی سے مدد ملے گی۔ میں نے کتابیں الٹنا پلٹنا شروع کیں، مگر ہر کتاب میں مکڑی کے جالے تھے۔ کہیں یہ پیلے پیلے مکڑی کے جالے میری آنکھوں کا دھوکا تو نہیں تھے؟ میں نے استفہامیہ نظروں سے اُس آدمی کو دیکھا جو اب بھی میری حالت سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ میں نے اُس سے نگاہ پھیر کر کتابوں کی طرف توجہ کرلی۔ نہ جانے کتنی ہی کتابوں میں سوائے پیلے جال کے کچھ نہیں تھا، مگر جب ایک کتاب میرے ہاتھ آئی تو وہ چیخ اٹھا ’’مکڑی کا جالا تمہارا مقدر ہے۔‘‘
میرا دل اس پر ایمان لانے کو تیار نہیں تھا۔ میں نے کتاب کھول لی۔ اس کتاب میں جالا نہیں تھا مگر اس کی عبارت میں جال کی طرح میری سوچ پھنس گئی تھی۔
’’وسوسہ ڈالنے والا تمہارے اندر دبک کر بیٹھا ہے۔‘‘
میں نے الجھ کر اس سے پوچھا ’’یہ وسوسہ ڈالنے والا کون ہے؟‘‘
لیکن وہ وہاں نہیں تھا، اس کی جگہ پیلی مکڑیوں کی قطار تھی۔