شجر سایہ دار

125

زندگی کے کینوس میں خوب صورت رنگ رشتوں سے بھرتے ہیں۔ یوں تو ہر رشتہ ہی اہم ہوتا ہے لیکن والدین کا رشتہ انوکھا اور ان کی محبت ناقابلِ بیان ہے۔ جس طرح دریا کو کوزے میں بند نہیں کیا جاسکتا اسی طرح والدین کی محبت، ان کی شفقت و عنایات اتنی لامحدود ہیں کہ انہیں لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

زندگی ہر لمحہ رنگ بدلتی ہے۔ ہر پل تبدیلی لاتا ہے۔ اس تبدیلی میں اگر کوئی شے جامد و دائمی ہے تو وہ ہے والدین کی محبت۔ دنیا کی ہر تہذیب، رنگ و نسل کے لوگوں کو دیکھ لیں، نام جدا جدا ہیں لیکن محبت کا وہی رنگ و انداز ہے۔ اولاد کی خواہش اور اس کی محبت یکساں ہے۔

’’ماں سے بڑھ کر اولاد کو کوئی نہیں چاہ سکتا۔‘‘ یہ وہ جملہ ہے جو ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں، اور یقینا ایسا ہے بھی، لیکن باپ سے زیادہ اپنی اولاد کے لیے تگ و دو کوئی کرسکتا ہے؟ دن بھرگھر کے باہر پیش آنے والے مسائل سے لڑ کر، اپنا خون پسینہ بہا کر اپنی اولاد کے سُکھ و چین کا انتظام کرتا ہے۔ ان کی راحت و آرام کے لیے اسے کیا کیا کرنا پڑتا ہے، کن مشکلوں کا مقابلہ کرتا ہے، ان سب جھمیلوں سے اپنے بچوں کو دور رکھ کر ان کی تعلیم و تربیت کے لیے پریشان رہتا ہے۔ ہر وقت اسے یہ فکر ستائے رکھتی ہے، یہ غم کھائے جاتا ہے کہ ایسا انتظام کردوں کہ میرے بعد کوئی پریشانی نہ ہو۔ ہر لحظہ اپنی اولاد کے مستقبل کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ حالات ناساز ہوں یا سازگار، فکرِ معاش اسے ہر وقت ستائے رکھتی ہے۔ باپ سراپا شفقت ہوتا ہے۔ غرض اگر ماں کی ممتا کا کوئی مقابلہ نہیں تو باپ کی محبت کا کوئی نعم البدل نہیں۔

یوں تو ہر باپ اپنے بچوں کا ہیرو اورآئیڈیل ہوتا ہے جو ابتدا ہی سے انہیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے، زمین پر قدم جما کر کھڑا ہونا سکھاتا ہے، زندگی کی اونچ نیچ سے آگہی دیتا ہے، سرد گرم حالات کا مقابلہ کیسے کرنا ہے؟ یہ بتاتا ہے۔ اولاد بالخصوص بیٹیاں اپنے والد ہی سے خود اعتمادی، دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا سیکھتی ہیں۔ اسی لیے باپ بیٹوں سے زیادہ بیٹیوں کے لیے تحفظ کا احساس ہے۔ اُن کا فخر، ان کا غرور ہے۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ہم اگر لڑکھڑائے تو ہمیں سنبھالنے والا ہمارا سائبان ہے۔ شجرِ سایہ دار ہے جس کی چھاؤں میں سُکھ ملتا اور ٹھنڈک کا احساس ہوتاہے۔ بیٹی اپنے گھر کی ہوجائے تب بھی یہ احساس کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے سسرال کے سر د وگرم میں بھی باپ ہی کی شفقت سائبان کا کام کر رہی ہوتی ہے۔ والد اگر ذمے دار ہو، نیک نام و بلند کردار ہو تو اولاد کے لیے اس کی ہستی بہارِ زندگی و نوید سحر کی مانند ہے، اور ایسا رہبر و استاد جس کے بعد کسی درس گاہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ اگر ایسا نہ ہو تو بھی اس کی اہمیت میں کمی نہیں ہوتی۔ اپنے اطراف دیکھیے، ایسے والد بھی نظر آئیں گے جو بظاہر اپنی اولاد کے لیے کچھ نہیں کررہے لیکن ان کی بیٹیاں بالخصوص ان کی چھاؤں میں بھی سُکھ تلاش کرتی ہیں۔

ان کے سائے میں بخت ہوتے ہیں
باپ گھر میں درخت ہوتے ہیں

باپ اگر سخت گیر بھی ہوں تو بظاہر ہوتے ہیں۔ یہ اندر سے کتنے نرم دل ہوتے ہیں اس کا مظاہرہ اُس وقت ہوتا ہے جب خدانخواستہ ان کی اولاد کسی تکلیف میں ہوتی ہے۔

لیکن موجودہ دور میں اس رشتے کی حساسیت و اہمیت ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ والدین جو سراپا عظمت ہیں، اپنا مقام کھو رہے ہیں۔ بدقسمت اولاد کے ہاتھوں بے توقیر ہورہے ہیں۔ والد کی ناراضی و رضا میں اللہ کی ناراضی و رضا ہے۔ ماں کے قدموں میں جنت ہے تو والد جنت کا دروازہ ہے، اس سے زیادہ عظمت و سربلندی کیا ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ بالخصوص نئی نسل اپنے والدین کے ساتھ کس طرح کا سلوک کررہی ہے۔ اولڈ ہاؤسز کا رجحان ہمارے ہاں فروغ پارہا ہے۔ الحمدللہ ابھی ہمارے معاشرے کی اکثریت اس برائی سے دور ہے لیکن اگر ہم نے اپنی نسلوں میں یہ منتقل نہ کیا کہ والدین کی کیا اہمیت ہے، اپنے رویوں سے انہیں یہ نہ بتایا کہ ان کی بات، ان کے مشورے، ان کے تجربے ہمارے لیے باعثِ خیر ہیں، اس لیے ایک دن مناکر ہم ان کا حق ادا نہیں کرسکتے، ہر دن ماں باپ کی عظمت کو سلام کا دن ہے، ہر دن ان کے لیے مسکراہٹیں و خوشیاں بکھیرنے کا دن ہے، اللہ رب العزت نے تو ان کی طرف محبت سے دیکھنے میں حج جیسی عبادت کا ثواب رکھ دیا، اور کیا چاہیے ہمیں کہ یہی تو متاعِ حیات اور دائمی کامیابی کی کنجی ہے۔

حصہ