اس کہانی کو شروع کرنے سے پہلے ہم قارئین کو ایک مرتبہ پھر سے یہ بات ذہن نشین کراتے چلیں کہ یہ دونوں ہو نہار طالبعلم یعنی کمال اور جمال، جڑواں بھائی ہیں۔ نویں جماعت کے یہ طالبِ علم گو کہ ابھی کم عمر ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہوئی صلاحیتیں اتنی مفرد ہیں کہ چھوٹی عمر ہونے کے باوجود پولیس کا سارا محکمہ، حتیٰ کہ ملک کا سب سے بڑا خفیہ کا ادارہ نہ صرف ان کی خداداد صلاحیتوں پر حیران ہے بلکہ وہ اب اس حد تک ان دونوں پر اعتماد کرنے لگا ہے کہ کئی بڑی بڑی مہمات کو سر کرنے کیلئے ان کو اکثر سارے ایسے اختیارات بھی سپرد کر دیئے جاتے رہے ہیں جو کسی بہت بڑے عہدیدار تک کو تفویض نہیں کئے جاتے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے جمال اور کمال نے بھی اپنی کم عمری کے باوجود اہم سے اہم اور خطرناک سے خطرناک مہمات کو اس طرح سر کیا ہے کہ ملک کا ہر ادارہ عش عش کر اٹھا ہے۔ بے شک یہ کم عمر ضرور ہیں لیکن اپنے قد کاٹھ کی وجہ سے یہ اپنے ہم عمروں سے بڑے لگتے ہیں۔ سنجیدگی اور بردباری نے ان کی شخصیت کو اور بھی چار چاند لگا دیئے ہیں۔ تندرست و توانا ہیں اور مناسب نقوش کی وجہ سے بہت پر کشش دکھائی دیتے ہیں۔ ان سب صلاحیتوں کے باوجود وہ اس انداز میں رہتے ہیں کہ کوئی ان کو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا یہ ملک و قوم کے یہ دو ہیرو کئی بڑے بڑے کارنامے انجام دے چکے ہوں اور کئی خطرناک مہمات سر کرنے میں اپنی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہوں۔ ان کی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ لگانے کیلئے کان کن چوہے، کالی بھیڑ، ڈبل ایجنٹ، گھوڑے کہاں چلے جاتے ہیں، ادھوری ڈکیتی، پربت کی رانی، پربت کی رانی کا انجام اور خطرناک مہم جیسی مہمات سر کرنے کے کارنامے اس بات کا ثبوت ہیں کہ آگے چل کر یہ دونوں ملک و قوم کیلئے ایسے کارنامے اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس کو آنے والی نسلیں بہت عرصے تک یاد رکھیں گی۔
یہ دونوں نو جوان جو ابھی نویں کلاس کے طالبِ علم ہیں، اعلیٰ کلاسوں تک پہنچتے پہنچتے ممکن ہے کہ کوئی ایسی منزل سر کر جائیں جس کو صرف اس ملک کے لوگ ہی یاد نہ رکھیں بلکہ دنیا کے جاسوسی کے اعلیٰ ادارے بھی اپنی رپورٹوں میں ان کے کارناموں کے حوالہ جات نہایت فخر کے ساتھ بیان کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
جمال اور کمال نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو منوانے کا آغاز اپنے محلے پڑوس سے شروع کیا تھا۔ انسپکٹر حیدر علی ان کی بستی کے تھانے میں آج بھی اپنے فرائض انجام دیے رہے ہیں۔ انسپکٹر حیدر علی سے جمال اور کمال کے والد کے اچھے مراسم ہیں۔ اس حوالے سے جمال اور کمال کا تعارف انسپکٹر حیدر علی سے خوب اچھی طرح ہو چکا تھا۔ جمال اور کمال کے محلے میں ایک دو چھوٹی چھوٹی وارداتوں میں تو جمال اور کمال کو انسپکٹر حیدر علی کی مدد لینے کی ضرورت نہیں پڑی تھی لیکن ایک مرتبہ ہوا یہ کہ ان ہی کی گلی میں رہنے والی ایک لڑکی جس کا نام فاطمہ تھا، کچھ دہشتگرد اغوا کرکے لے گئے۔ یہ بات جمال اور کمال کیلئے بہت اذیت کا باعث تھی کیونکہ جمال، کمال اور فاطمہ، یہ سب ایک ہی ساتھ کھیل کر بڑے ہوئے تھے۔ پورے محلہ میں جیسے غم کی ایک لہر سی دوڑ گئی تھی۔ محلے کے کافی لوگ جمال اور کمال کی صلاحیتوں کو کسی حد تک جان چکے تھے۔ وہ سب سمجھتے تھے کہ اب جمال اور کمال کا چین سے بیٹھنا ممکن ہی نہیں۔ انھیں اس بات کا بھروسہ تھا کہ جمال اور کمال ایک نہ ایک دن فاطمہ کو اغوا کرنے والوں تک پہنچ کر ضرور رہیں گے اور ان سب کو کیفر کردار تک پہنچا کر رہیں گے، اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اس کیس کو سمجھنے اور اس کی حقیقت کو جاننے کیلئے ضروری ہے کہ ”کورے کاغذ” والی مہم کو ضرور بڑھ لیا جائے۔
بچپنے میں کھیل کود کے دوران ہی جمال اور کمال فاطمہ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کی گئی ایسی صلاحیت جس کے متعلق فاطمہ کا خیال یہ تھا کہ اس کی اس مخفی صلاحیت کا علم یا تو خود اسے ہے یا پھر اس کے اللہ کو ہے، جمال اور کمال کو اس کا علم ہو چکا تھا لیکن یہ بات جمال اور کمال نے نہ تو کبھی فاطمہ کو بتائی تھی اور نہ ہی دیواروں سے کہی تھی۔ کہتے ہیں کہ دیواروں کے بھی کان ہوا کرتے ہیں اسی لئے اس بات کا تذکرہ کبھی جمال اور کمال نے آپس میں بھی نہیں کیا تھا۔
کورے کاغذ کی مہم میں جب جمال اور کمال نے انسپکٹر حیدر علی کے ساتھ مل کر فاطمہ کو بازیاب کرایا تو پہلی بار انسپکٹر حیدر علی کو پتا چلا کہ جمال اور کمال نہ صرف نڈر، بہادر اور جری ہیں بلکہ وہ کسی بھی معاملے کہ تہہ تک پہنچنے کی بڑی صلاحیت رکھتے ہیں۔(جاری ہے)