گل دستہ سخن کے زیر اہتمام مشاعرہ

107

گلدستۂ سخن کراچی ایک ادبی تنظیم ہے جس کے کریڈٹ پر کئی شان دار پروگرام موجود ہیں۔ اس ادارے کے تحت ناظم آباد نمب1 کراچی میں سحرتاب رومانی کی صدارت میں بہاریہ مشاعرہ منعقد ہوا جس میں نسیم شیخ مہمان خصوصی اور راقم الحروف ڈاکٹر نثار مہمان اعزازی تھے۔ اس پروگرام میں تلاوت کلام مجید کی سعادت عارف قدیر نے حاصل کی۔ ابراہیم شوبی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ نظر فاطی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ سحر تاب رومانی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ نسیم شیخ‘ شاعر علی شاعر‘ کشور عدیل جعفری‘ رانا خالد محمود افتخار حیدر‘ عارف پرویز نقیب‘ احمد سعید خان‘ ضیا حیدر زیدی‘ مرزا عاصی اختر‘ سید غضنفر علی‘ یاسر سعید صدیقی‘ عبدالرزاق سحر‘ شاہد علی‘ عارف نظیر‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ اقبال شاہین‘ وفا مدراسی‘ دلاور عابدی‘ مفتی کوثر جمالی‘ شبیر احرام‘ سلیم شہزاد‘ کامران صدیقی‘ ابراہیم شوبی‘ شہزاد گجر‘ یوسف عابدی‘ اسد بخاری اور سرفراز احمد نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ سلیم شہزاد نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ وہ گلدستہ سخن کراچی کے تحت باقاعدگی سے ادبی پروگرام مرتب کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت کراچی میں ادبی تعصب بہت بڑھ گیا ہے اس طرز عمل سے شاعری متاثر ہو رہی ہے۔ عارف نظیر نے کہا کہ ہم تمام سامعین اور سفرا کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ سامعین کے بغیر مشاعرہ پھیکا پھیکا لگتا ہے۔ آج کے دور میں اچھے سامعین بڑی مشکل سے دستیاب ہوتے ہیں لیکن ہمارے علاقے ناظم آباد میں عوام شاعری سے جڑے ہوئے ہیں۔ آج ہمارے مشاعرے میں نوجوان شعرا بھی آئے ہیں اس مطلب یہ ہے کہ شاعری نئی نسل تک منتقل ہو رہی ہے۔ آج کے مشاعرے میں ہر شاعر نے اپنا منتخب کلام سنا کر خوب داد وصول کی ہے۔ آج بہت اچھی شاعری پیش کی گئی ویسے بھی جو شعرا زمینی حقائق بیان کرتے ہیں وہ کامیاب رہتے ہیں۔ اب گل و بلبل کے افسانوں کا زمانہ نہیں ہے‘ اب معاشرتی مسائل‘ سیاسی مسائل اور غم جاناں ہماری شاعری کا محور ہیں‘ ہم اپنی شاعری میں کوئی پیغام دیں تاکہ معاشرے میں اچھائیاں پروان چڑھیں۔ نسیم شیخ نے کہا کہ فنونِ لطیفہ کی تمام شاخوں میں شاعری سب سے زیادہ پُر اثر ہوتی ہے شاعری میں زندگی کے تمام مضامین لکھے جاتے ہیں شعرائے کرام کے سفیر میں معاشرے کی تباہی اور عروج میں شعرائے کرام حصہ دار ہیں۔ ہر شاعر نے ظلم و تشدد کے خلاف آواز بلند کی ہے تاکہ معاشرے میں امن و سکون قائم ہو۔ راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے کہا کہ شاعری ایک ایسا فن ہے جو ہر آدمی کو نہیں آسکتا‘ یہ ودیعت الٰہی ہے‘ ہر زمانے میں شاعری کی ترقی کے لیے مشاعرے ہوتے ہیں اس وقت کراچی میں امن وامان بہتر ہونے کے سبب ادبی ماحول ہے اس وقت بہت سی ادبی محفلیں سجائی جا رہی ہیں۔ سحر تاب رومانی نے خطبۂ صدارت میں کہا کہ شاعری ہماری روح کی غذا ہے‘ ہر معاشرے میں شعرائے کرام اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ مزاحمتی شاعری ہر دور میں زندہ رہتی ہے۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا شاعری کا نصب العین ہے شاعری ہمارے ذہن کو تحریک دیتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری کی اصناف میں غزل سب سے طاقت ور عنصر ہے لیکن دنیا کی بڑی شاعری نظم کے اندر جمع ہے اس وقت نظم کہنے والے شعرائے بہت کم ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ ہم سہل پسند ہو گئے ہیں۔ میں کراچی کی ادبی اداروں سے ملتمس ہوں کہ وہ غزل کے ساتھ نظم کے مشاعروں کو بھی فروغ دیں اور تنقیدی نشستوں کا بھی اہتمام کریں۔ تنقیدی نشستوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ استاد شعرائے کرام کا کلام بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔

احمد سعید کے اعزاز میں تقریب پزیرائی اور مشاعرہ

ادارہ فکرِ نو کراچی ایک معتبر ادبی تنظیم ہے جس کو معروف دانش ور اور نقادِ سخن نور احمد میرٹھی نے قائم کیا تھا۔ گزشتہ ہفتے ادارۂ فکر نو نے کراچی کے معروف شاعر احمد سعید خان کے شعری مجموعے ’’ستاروں پر آسمان‘‘ کے سلسلے میں تعارف تقریب اور مشاعرہ ترتیب دیا جس میں رفیع الدین راز صدر مشاعرہ تھے۔ مہمانان خصوی میں مظہر ہانی‘ پروفیسر شاہد کمال اور انور انصاری شامل تھے۔ قاسم جمال نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ ادارہ فکر نو کراچی پابندی کے ساتھ ادبی پروگرام جاری رکھے گا۔ ہماری خواہش ہے کہ اردو زبان و ادب کی ترقی ہو۔ ہم دبستان کراچی کے خدمت گزار ہیں۔ اردو ہماری زبان ہے‘ عدالتی فیصلے کے مطابق اس اردوکو سرکاری زبان بنایا جائے۔ محمد علی گوہر نے کہا کہ ادارہ فکر نو کی تشکیل نو کی گئی ہے‘ ہم نوجوان شعرا کی حوصلہ افزائی چاہتے ہیں تاہم ہم سینئرز شعرا کے خلاف نہیں‘ ہمیں ان سے استفادہ کرنا ہے۔ لانڈھی کورنگی زندہ دل لوگوں کا علاقہ ہے‘ ایک زمانے میں یہاں شعرا کی کہکشاں آباد تھی اپنے وقت و حالات کے سبب لوگ اس علاقے سے دوسری جگہوں پر شفٹ ہوتے گئے اب یہاں چند اہم شعرا بچے ہیں۔ غزالی بن جاوید نے کہا کہ ہم نور احمد میرٹھی کے ادارے کو زندہ رکھیں گے‘ ان کی خدمات فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ انہوں نے زبان و ادب کے لیے بہت کام کیا ہے میرے والد ڈاکٹر جاوید بھی شاعر تھے‘ شاعری تھے مجھے ورثے میں ملی ہے میں ادب نواز گھرانے کا فرد ہوں علم و آگہی کے خلاف روشن رکھوں گا میں ادارہ فکر نو کی ترقی میں اپنا حصہ شامل کرتا رہوں گا۔ مظہر ہانی نے کہ کہ وہ شاعر بھی ہیں اور شعرا سے محبت بھی کرتے ہیں شعرائے کرام کی پروموشن میرا نصب العین ہے‘ آج کی تقریب کا مقصد احمد سعید خان کی پزیرائی ہے‘ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’ستاروں پر آسمان‘‘ منظر عام پر آگیا ہے جس میں جدید لفظیات کے ساتھ زندگی کے تمام عنوانات پر شاعری شامل ہے۔ احمد سعید نے خان ایک زندہ دل انسان ہیں‘ ان کی ادبی تنظیم تقدیس ادب ایک معیاری تنظیم ہے جس کے تحت احمد سعید خان ادبی پروگرام چلا رہے ہیں‘ ان کی شاعری میں غنائیت‘ گہرئی اور گیرائی شامل ہے۔ رفیع الدین راز نے کہا کہ احمد سعید خان کا پہلا شعری مجموعی قارئین کے لیے سرمایۂ حیات ہے‘ ان کی شاعری سے ذہنی آسودگی حاصل ہو رہی ہے۔ انہوں نے مشرقی اقدار کی پامالی کا تذکرہ بھی کیا ہے اور غزل کے روایتی مضامین بھی باندھے ہیں۔ یہ شعرائے کرام کے ہجوم میں گم نہیں ہوں گے۔ ان کے اشعار حالتِ سفر میں رہیں گے۔ احمد سعید خان نے کہا کہ وہ ادارۂ فکر نو کے شکر گزار ہیں کہ اس نے میرے پروگرام ترتیب دیا۔ اس مشاعرے میں رفیع الدین راز‘ مظہر ہانی‘ احمد سعید خان‘ انور انصاری‘ پروفیسر شاہد کمال‘ ڈاکٹر نثار‘ یوسف چشتی‘ محمد علی گوہر‘ انجم جاوید‘ تنویر سخن‘ احمد خیال‘ شجاع الزماں شاد‘ افضل ہزاروی‘ کامران صدیقی‘ تاج علی رانا‘ زبیر صدیقی اور غزالی جاوید نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ اس موقع پراحمد خیال نے احمد سعید خان کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ ادارہ فکر نو کی جانب سے احمد سعید خان کو شیلڈ‘ اجرک اور گلدستے بھی پیش کیے گئے۔
nn

حصہ