حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ

218

بالعموم یہ کہا جاتا ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں بگاڑ ہمہ گیر اور گہرا ہو‘ اصلاحی کوشش بار آور ہونے کے لیے ایک طویل عرصہ لیا کرتی ہے اور فی الواقع اصلاح و تعمیر کا کام نہایت کٹھن اور صبر آزما ہے۔ خیالات و معتقدات‘ معیشت و معاشرت اور تہذیب و تمدن کے برسوں پرانے نظام کو توڑ پھوڑ کر ایک جہان تازہ کی تخلیق و تعمیر ایک ایسا عمل ہے جو بتدریج‘ تسلسل اور دھیمے پن کا متقاضی ہے۔ تخریبی عمل تیزرو اور سیلاب صفت ہوتا ہے۔ لیکن تعمیری عمل اس کم آب ندی کے مانند ہے جو راہ کیسنگ ریزوں سے گاہے ٹکرا کر اور گاہے رک کر آہستہ آہستہ بہتی ہے۔

لیکن تاریخِ انقلاباتِ عالم میں کچھ ایسے مقام بھی آتے ہیں جہاں ایک شخصیت نے عزم و استقلال‘ خلوص و دیانت اور فکر و عمل کی بے پناہ صلاحیتوں کے ساتھ چند برسوں میں ایک وسیع معاشرے کی ہیئت کذائی کو کلیتاً بدل کر رکھ دیا۔

عمر بن عبدالعزیزؒ ان عظیم المرتبت شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اڑھائی سال کی قلیل مدت میں اپنی ذات‘ اپنے خاندان اور نظامِ حکومت میں ایک ایسا عظیم انقلاب پیدا کیا جس نے آن کی آن میں وقت کے دھارے کا رُخ بدل دیا۔ گو چند وجوہ و اسباب کی بنا پر اس انقلاب کے اثرات زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے۔ تاہم اس حقیقت کو علمائے متشرقین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انقلابات اپنی جگہ نہایت مؤثر‘ معجزہ اور عظیم تھا۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی اصلاحات تاریخ کا ایک وسیع باب ہے۔ انہوں نے افکار و عقائد‘ تہذیب و اخلاق‘ دستور و قانون‘ معیشت و تمدن میں جاہلیت کے اثرات کو ختم کرکے اسلام کی بالادستی قائم کی۔ یہ اصلاحات اتنی جامع و دقیع اور متوازن ہیں کہ آج بھی اسلامی معاشرے کی تشکیل و تعمیر کے لیے ہمیں ان ہی اصلاحات کو عملی جامہ پہناناہوگا۔ لیکن ان اصلاحات سے بھی زیادہ بیش قیمت اور لائق تقلید و تدریجی عمل ہے جو حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنی اصلاحات کو نافذ کرنے کے لیے اختیار کیا۔

عمر بن عبدالعزیزؒ 62 ہجری میں مدینہ کے مقام پر پیدا ہوئے۔وہ خلیفہ وقت سلیمان بن عبدالملک کے چچا زاد بھائی تھے۔ وہ عیش و تنعم میں پلے اور ولید بن عبدالملک کے عہد میں مدینہ منورہ کے گورنر مقرر ہوئے۔ ان کی شادی سلیمان بن عبدالملک کی بیٹی فاطمہ سے ہوئی۔ اپنے ماحول اور مزاج کے اعتبار سے وہ ایک ایسے اموی شہزادے تھے جس کا تجربہ اور احیائے دین کے کام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ لیکن جب 99 ہجری میں خلافت کا بار آپ کے کاندھوں پر رکھ دیا گیا تو یکلخت آپ کی زندگی کا سارا نقشہ تبدیل ہو گیا اور اس طرح اس دورِ سعید کا آغاز ہوا جس کی تابناکی صدیوں کے دریچوں سے آج بھی جھلکتی ہے۔ یہ دورِ اصلاحات ہمارا قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کا تذکرہ قوم کے لیے حیات آگین پیغام عمل ہے اس لیے ہم ذیل میں اصلاحات کے تدریجی عمل کا ایک تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہیں۔

اصلاح ذات:
جیسا کہ ہم پہلے لکھ آئے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیزؒ شاہی خاندان کے رکن ہونے کی حیثیت سے عیش و تنعم میں پلے تھے‘ ان کی زندگی بڑی شاہانہ تھی۔ رئیسوں کی طرح بڑی شان سے رہتے تھے۔ لباس‘ خوراک‘ مکان‘ چال ڈھال‘ عادات و خصائل اور زندگی کے تمام ڈھنگ وہی تگھے جو بادشاہت کی گود میں پلے ہوئے شہزادوں کے ہوتے ہیں۔ خوش لباس اور نفاست طبع کا یہ عالم تھا کہ جس لباس پر ایک مرتبہ نظر پڑ جاتی تھی پھر اسے نہیں پہنتے تھے۔ جسم و لباس کو خوشبو سے اتنا معطر کر لیتے تھے کہ جس راستہ سے گزرتے وہ خوشبو سے مہک اٹھتا۔ ان کی شوخ چال وقت کا فیش بن گئی تھی۔ ان کی شاہانہ زندگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب وہ مدینہ کی گورنری پر گئے تو تیس اونٹوں پر ان کا ذاتی سامان تھا۔

شاہان بنی امیہ نے جن جاگیروں سے اپنے خاندان کو نوازا تھا‘ ان میں عمر بن عبدالعزیزؒ کا اور ان کے گھرانے کا بھی بہت بڑا حصہ تھا۔ ان جاگیروں کی سالانہ آ مدنی چالیس ہزار دینار سے زائد تھی۔ فی الحقیقت ان کے سارے ٹھاٹھ باٹھ کا انحصار اسی آمدنی پر تھا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ انہوں نے مدینہ کے اسلامی ماحول میں تربیت پائی تھی اور وہ اپنے وقت کے امام تھے‘ لیکن مصر اور دمشق میں رہ کر ان پر ایک دوسرا ہی رنگ غالب آگیا تھا۔ خاندان اور ماحول کے زیر اثر وہ سب کچھ بھول گئے تھے جو مدینہ کے ارض پاک سے لے کر چلے تھے۔ خدام‘ باندیاں‘ عیش و عشرت کے سامان‘ ان سب چیزوں نے آپ کو مزادلت علمیہ کا موقع نہیںدیا بلکہ ایک اس راہ پر لگا دیا جس پر خلفائے بنی امیہ چل رہے تھے۔

خلیفہ بننے کے بعد سب سے پہلے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنی زندگی کا نقشہ دفعتاً بدل دیا۔ اپنی زندگی کے ہر شعبے کو جاہلیت کی آلائشوں سے پاک کیا۔ شاہانہ تزک و احتشام ترک کرکے سادہ زندگی اختیارکی۔ اپنے زمانے کا سب سے بڑا خوش پوشاک اب پیوند لگے ہوئے لباس میں ملبوس نظر آتا تھا۔

خلیفہ بننے سے پہلے ان کو پوشاک کی قیمت دس اشرفیوں سے زیادہ دینی پڑتی تھی۔ لیکن اب ان کے لباس کی مالیت 12 درہم سے زیادہ نہ تھی۔ خوراک میں انتہا درجے کی سادگی اختیار کی۔ مصر اور مدینہ کی زندگی کے خوش ذائقے کھانے اب ان کے دستر خوان پر نہیں چنے جاتے تھے۔ محمد بن زبیر الخبطی کا بیان ہے کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز کو دیکھا کہ وہ روٹی کے ٹکڑے زیتون کے ساتھ کھا رہے تھے۔ پھر شاہانہ کروفر اور بادشاہوں کے درباری طریقے سب رخصت کیے اور پہلے ہی روز لوازم شاہی کو رخصت کرکے عام مسلمانوں کا سا طرز زندگی اختیار کیا۔

وہ مال و اسباب اور جاگیریں جو انہیں وراثتاً ملی تھیں ان سے بلا تامل دستبردار ہو گئے۔ خلیفہ بنتے ہی تمام غیر ضروری اور زائد مال و اسباب فروخت کر دیا اور اس طرح انہیں جو 23 ہزار کی رقم وصول ہوئی وہ خیرات کر دی اور صرف سویدا کی جائداد باقی رکھی جس سے ڈیڑھ سو دینار سالانہ کا غلّہ آجاتا تھا اور یہی ان کی کل آمدنی تھی۔

صاحب عقد الفرید کے بیان کے مطابق وہ اپنے لیے بیت المال سے کچھ نہیں لیتے تھے۔ خلیفہ ہونے سے پہلے شہزادوں کی طرح ٹھاٹھ باٹھ سے رہتے تھے لیکن خلیفہ ہوتے ہی فقیر بن گئے۔ ایسے فقیر جن سے بے سروسامانی میں اور کوئی فروتر نہ تھا۔ الغرض ان کی پوری زندگی میں ایک انقلاب عظیم رونما ہوا جس کا علامہ ذہبی نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:

’’لیکن جب خلیفہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بالکل نئے قالب میں ڈھال دیا۔ اب وہ عدل و انصاف میں نانا عمرؓ، زہد میں حسن بصریؒ اور علم میں امام زہریؒ کی مثالِ ہو گئے۔

گھر اور خاندان کی اصلاح:
اپنی ذات میں ایک ہمہ گیر تغیر لانے کے بعد انہوں نے اپنے گھر کی اصلاح کی طرف توجہ دی۔ اپنی بیوی فاطمہ سے صاف صاف کہہ دیا کہ اس گھر میں ایک غیر اسلامی طرزِ زندگی کے لیے قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ فاطمہ نے زندگی کو اسلامی سانچوں میں ڈھال لینے کا عہد کیا۔ اس کے پاس باپ کا دیا ہوا ایک قیمتی ہار تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اسے بیت المال میں داخل کر دیا۔ تمام باندیوں اور کنیزوں کو رخصت کیا اور گھر کے ماحول سے ان محرکات کا قلع قمع کیا جو ایک پاکیزہ اور صالح زندگی کی نشوونما میں حائل ہو سکتے تھے۔ اس کے بعد ان امتیازات کی طرف توجہ کی جو شاہی خاندان کے لوگوں کو حاصل تھے۔ شاہان بنی امیہ کو تمام حیثیتوں سے عام مسلمانوں کے برابر لے آئے۔ جن جائدادوں اور جاگیروں پر شاہی خاندان کے افراد نے قبضہ کیا ہوا تھا وہ حق داروں کو لوٹا دی گئیں یا انہیں بیت المال میں جمع کروا دیا یا۔ اس کام کی تکمیل میں گونا گوں مشکلات پیش آئیں۔ شاہ بنی امیہ جاگیریںواپس کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ابن جوزی لکھتا ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے اپنے خاندان کے لوگوں سے کہا کہ وہ غضب شدہ جاگیریں واپس کر دیں تو انہوں نے جواباً کہا ’’خدا کی قسم! جب تک ہمارے سر تن سے جدا نہ ہو جائیں‘ اس وقت تک جائدادیں واپس نہیں ہوسکتیں۔ خدا کی قسم نہ ہم اپنے آبا و اجداد کو کافر بنا سکتے ہیں اور نہ اپنی اولاد کو مفلس بنائیں گے۔‘‘

حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے کمال اعتماد اور استقلال کے ساتھ فرمایا ’’خدا کی قسم! اگر اس حق میں تم میری مدد نہ کروگے تو میں تمہیں ذلیل اور رسوا کرکے چھوڑوں گا۔‘‘

اس کے بعدجاگیروں کی اسناد کی فائلیں منگو ائیں‘ تمام غلط اسناد کو حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے قینچی سے چاک کیا۔ صبح سے لے کر ظہر یہی سلسلہ جاری رہا اور اپنی اور اپنے پورے خاندان کی ایک ایک جائداد کے کاغذات چاک کر دیے۔

اس اقدام سے شاہی خاندان میں ناراضی اور برہمی کی لہر دوڑ گئی۔ پورا خاندان دشمن ہوگیا۔ مگر وہ اپنے مشن کی خاطر آخری وقت تک نامساعد حالات سے نبرد آزما رہے اور حتی المقدور اپنے گرد و پیش کو غیر اسلامی اثرات سے پاک کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنی ذات‘ اہل و عیال اور عزیز و اقرباء کے وہ تمام بت توڑ ڈالے جو انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں اور جن پر وہ ایمان اور ضمیر کو بھینٹ چڑھا دیا کرتا ہے۔

عمر بن عبدالعزیز کا یہ اصلاحی کام کتنا کٹھن اور جاں گسل تھا اس کا صحیح اندازہ وہی اربابِ فکر و نظر لگا سکتے ہیں جو انسانی نفسیات اور علوم‘ تاریخ اور عمرانیات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ جو عادات وخصائل پختہ ہو چکے ہوں انہیں یک لخت بدل دینا انسان کے لیے نئے دشوار ترین مرحلہ ہے بالخصوص اس وقت جب یہ تبدیلی کسی خارجی دبائو کے بغیر ازخود لائی جائے۔ درحقیقت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنی ذات میں ایک ہمہ گیر انقلاب لا کر انسانی قوتِ ارادی اور ضبط نفس کے ایسے لافانی نقوش صفحہ عالم پر ثبت کر دیے ہیںجو پوری انسانیت کے لیے چراغِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ گو صحابہ کرامؓ کی زندگیاں اس نوع کی مثالوں سے خالی نہیں لیکن ان کی اصلاحِ نفس اور احتساب کے لیے ان کے درمیان پیغمبر علیہ الصلوٰۃ و السلام کی پُرکشش اور انقلاب انگیز شخصیت موجود تھی اور پورے ماحول میں نیکی کو فروغ دینے کے لیے اجتماعی جدوجہدکی جا رہی تھی لیکن عمر بن عبدالعزیزؒ کا شاہانہ مزاج‘ گرد و پیش کا غیر اسلامی ماحول اور سوسائٹی کی جاہلی ہیئت ترکیبی ان سے کچھ دوسرے ہی تقاضے کر رہے تھے۔ لیکن جب انہوں نے اسلام کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کر لیا تو بغیر کسی تامل اور خارجی دبائو کے اپنی زندگی کا سارا تانا بانا بدل دیا اور ایک ایسی زندگی کا آغاز کیا جو گزشتہ زندگی سے یکسر مختلف تھی۔

اصلاح نفس گو بجائے خود ایک نہایت ہی کٹھن کام ہے لیکن اس سے زیادہ دشوسار کام یہ ہے کہ گھر کے ماحول میں اپنے خیالات و نظریات کے مطابق تبدیلی لائی جائے۔ تاریخ میں ایسی مثالیں مل جاتی ہیں کہ افراد اپنی زندگیوں کو بدلنے میں کامیاب ہوگئے لیکن بال بچوں اور قریبی رشتے داروں کی محبت اور کشش ان کے پائوں کی بیڑیاں بن گئیں اور وہ گھر کے نظام میں حسب منشا تغیر نہ لاسکے۔ اس پس منظر میں عمر بن عبدالعزیزؒ کا کردار مثالی اور منفرد نظر آتا ہے۔ ان کی اہلیہ فاطمہ کا سیاسی مرتبہ اور معاشرتی وقار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن عمر بن عبدالعزیزؒ نے اسے صاف صاف کہہ دیا کہ اس گھر میں صرف ایک موِمنہ کے لیے جگہ ہے اور اگر وہ اپنی زندگی کو نئے قالب میں ڈھالنے کے لیے تیار نہیں تو اس کا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں۔

فاطمہ کو یہ بات کہہ دینا کوئی معمولی کام نہ تھا۔ یہ دراصل پورے خاندان بنی امیہ کی شاہانہ وجاہت کو ایک چیلنج تھا۔ عمر بن عبدالعزیزؒ نے شاہی خاندان کے تمام امتیازات ختم کرکے خاندانی عصبیت پر آخری ضرب لگائی اور یہ ثابت کر دیا کہ وہ ہر اس محبوب شے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں جو ان کے مقصد عظیم کی راہ میں سنگِ گراں ثابت ہوتی ہے۔ اس اصلاحی کام کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ عمر بن عبدالعزیزؒ نے اصلاح کا آغاز اپنی ذات سے کیا۔ جس قسم کا تغیر وہ سوسائٹی میں لانا چاہتے تھے‘ وہ تغیر سب سے پہلے اپنی ذات میں لائے یہی وہ ما بہ الامتیاز بات ہے جو عمر بن عبدالعزیزؒ کو مصلحین کی تاریخ میں ایک امتیازی مقام عطا کرتی ہے۔ تاریخ عالم میں ایسے مفکرین اور مصلحین کی کمی نہیں جنہوں نے وقت کے تقاضوں کو سمجھ کر انسانیت یا قوم کی اصلاح کے لیے منصوبے تیارکیے اور انہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے قوم میں ایک تازہ روح پھونکنے کی کوشش کی۔ لیکن بسا اوقات انہوں نے اصلاح کا آغاز اپنی ذات سے کرنے کے بجائے دوسرے لوگوں سے کیا اور اپنی ذات میں وہ تمام نقائص باقی رہنے دیے جنہیں معاشرے سے دور کرنے کے لیے مصطرب نظر آتے تھے۔

اُس دور میں اکثر مصلحین اور ریفارمرز ایسے ہی کردار ادا کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ بیش قیمت لباس زیب تن کرکے قوم کے سامنے آتے ہیں اور اسے کفایت شعاری‘ میانہ روی اور سادہ زندگی اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور قوم ان کے قول و فعل کے تضاد سے ان کو خلوص نیت‘ سنجیدگی اور اخلاص کا اندازہ لگا سکتی ہے۔ صرف اس شخص کی اصلاح کی کوششیں بار آور ہو سکتی ہیں جو حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی طرح سب سے پہلے وہ خود اس طرزِ زندگی کا بہترین عملی نمونہ بن جائے جو طرز زندگی وہ دوسروں کے لیے پسند کرتا ہے۔

حصہ