حارث رئوف اور غیرتِ خاندانی:
امریکا میں ٹی 20 کرکٹ ورلڈ کپ چل رہا ہے۔ پاکستانی ٹیم کی بدترین کارکردگی گو کہ ایک بے کار موضوع ہے، مگر شائقین اپنی بھڑاس خوب نکال رہے ہیں۔ اس دوران امریکی ریاست فلوریڈا میں اپنی اہلیہ کے ساتھ چہل قدمی ہمارے ایک کھلاڑی حارث رئوف کو مزید موضوع بنا گئی۔ حارث رئوف سوشل میڈیا پر ٹرینڈنگ کرتے نظر آگئے، ساری دنیا کا میڈیا اپنے اینگل سے اسٹوری کو نچوڑتا رہا۔
کسی نے امریکی سرزمین پر ایک جملہ ’’کس دیا‘‘ تو بھائی نے بات دِل پر لے لی اور موضوع بن گئے۔ سوری… ایسے نہیں بنے بلکہ اس کے پیچھے بھی سوشل میڈیا نکلا۔ اس واقعے کی یا تو موبائل سے منصوبہ بند وڈیو بنائی گئی یا اتفاقی طور پر موقع جان کر کسی نے یہ لمحات محفوظ کیے۔ وڈیو دیکھ کر یہی لگ رہا ہے کہ کسی نے موقع کا فائدہ اٹھایا۔ بہرحال معاملہ اُس وقت سامنے آیا جب وڈیو سوشل میڈیا پر آئی۔ پہلے یہ بحث رہی کہ وہ ’’گالی دے کر مخاطب کرنے والا‘‘ ہندوستانی تھا، پھر جب یہ بات غلط نکلی تو یہ معاملہ چلا کہ ’’کھیل پر تنقید اور خاندان پر تنقید میں فرق ہو‘‘۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر حارث رئوف نے اس تصادم کی وڈیو کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’’عوامی شخصیات کے طور پر ہم عوام سے ہر قسم کی رائے حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں، وہ ہماری حمایت یا تنقید کرنے کے حق دار ہیں۔ اس کے باوجود جب میرے والدین اور میرے خاندان کی بات آئے گی تو میں اس کے مطابق جواب دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کروںگا، لوگوں کو خاندانوں کے ساتھ احترام کا اظہار کرنا ضروری ہے۔‘‘
حارث رئوف پاکستانی کرکٹ ٹیم میں 4 سال سے کھیل رہے ہیں۔ 2020ء سے انہوں نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے کھیلنا شروع کیا۔ رہائشی تو وہ پنڈی کے ہیں تاہم پشتون ہیں اور مانسہرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ شادی انہوں نے اپنے زمانۂ طالب علمی سے جڑی خاتون سے کی۔ حارث رئوف کی شادی اور اُن کی اہلیہ اُن کا نجی معاملہ ہے۔ دنیا کے ہر انسان کی شادی، اس کی بیوی اور بچے اس کا نجی معاملہ ہوتے ہیں۔ ’’نیو لبرل ورلڈ آرڈر‘‘ کے تحت اب دُنیا کا کوئی بھی انسان جب ’’سرمایہ دارانہ نظام‘‘ کا پرزہ بنتا ہے تو یہ نظام اس کو نمایاں کرنے کے لیے ’’سیلیبرٹی‘‘ بناتا ہے اور وہ ایک ایسے ’’شرم ناک معاشرے‘‘ کا حصہ بن جاتا ہے جس میں اُس کے ’دستخط‘ کا عکس، اُس کی پہنی ہوئی ’بنیان‘، ’ٹی شرٹ‘… سب کچھ ’’سرمایہ‘‘میں ڈھل جاتا ہے۔ اُس کا ہر ’’نج‘‘ قابل فروخت کلچر میں داخل ہوجاتا ہے۔ اِس میں ’’چار چاند‘‘ سوشل میڈیا کی ہولناکی لگا دیتی ہے۔ حارث رئوف اِن میں کوئی پہلا تو نہیں ہے۔ وہ تمام کھلاڑی جو اس ’سیلیبرٹی کلچر‘ کا حصہ بن جاتے ہیں یعنی ’’سرمایہ کی پیداوار‘‘ کا، اُن سب کا نجی مال ایسے ہی بکتا ہے۔
شادی کی تصویر کشی مہمان کے کھانے کی مانند ایک لازمی جزو بن چکی ہے، اور اس کی بدترین شکلیں مستقل سرایت کررہی ہیں، لوگ خوشی و مجبوری کے نام پر اس زہر کو بھی پیسہ لگا کر اپنا رہے ہیں۔ اس کی مختصر ترتیب دیکھیں: پہلے سیلیبرٹی کی شادی کی تقریب وائرل ہوتی ہے، پھر اس کی نقل مارتے ہوئے عوام کا خاص طبقہ یہ کرتا ہے، پھر اس کی دیکھا دیکھی عوام میں یہ زہر منتقل ہوتا ہے۔ یہ سارا عمل سرمائے کی پیداوار کرتا ہے۔ بات سمجھ میں نہیں آئی؟ مشکل لگ رہی ہو تو ذرا فوٹو گرافر اور وڈیو کے ریٹ معلوم کرلیجیے۔ یہی وجہ ہے کہ نکاح، شادی جو دینی عمل تھا، اب ایک معاشی سرگرمی بن چکا ہے، جس کے بارے میں نبی ؐ کا حکم ہے کہ ’’نکاح کو آسان بنائو‘‘۔ لیکن اب یہ مشکل ترین ہوچکا ہے۔ حارث رئوف کی بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ شادی کی تصاویر کی انٹرنیٹ پر بھرمار ہے۔ افسوس یہ ہے کہ دونوں میاں بیوی کے انتہائی نجی لمحات کو فوٹوگرافر کے ذریعے ’زینت‘ بناکر جس طرح لوگ اپنی سائٹ پر ریٹنگ کی خاطر بیچ رہے ہیں کیا وہ ہمارے ’پشتون‘ بھائی کے لیے غیرت کا مسئلہ نہیں ہے؟ میرے لیے تو دُنیا بھر میں کوئی انسان کسی قسم کی ’’غیرت‘‘ کا مظاہرہ کرے وہ طمانیت کا سبب بنتا ہے، کیوں کہ ’غیرت‘ سے شیطان لعین کو شدید تکلیف پہنچتی ہے، اس کی محنت فیل ہوتی ہے۔ اس لیے براہِ کرم اپنے ’غیرت‘ کے مادوں کو جگایئے یا زندہ کیجیے۔
فری غزہ:
تحریک ِمزاحمت نے عید سے ایک دن قبل 10 یہودی فوجی افسران کی لاشوں کے تحفے اسرائیل بھجوائے تھے جس کا سوشل میڈیا پر خوب چرچا رہا، مگر یہ عید الاضحی بھی گزر گئی۔ اہلِ غزہ پر قیامت خیز تباہی کے 9 ماہ پوری امتِ مسلمہ کے منہ پر طمانچے کی صورت برستے رہے۔ ہم تو عید الاضحی پر نئے کپڑے پہن کر، عید گاہ جا کر نماز پڑھ کر جانور کی قربانی، گوشت، تکے، لذت بھرے کھانوں، رشتے داروں اور دوستوں میں مگن رہے۔ مگر سلام ہے اہلِ غزہ پر، اُن کا کوئی مقابل نہیں۔ اُن کی ایمانی عظمت کے اظہار کے لیے الفاظ ہی نہیں۔ الجزیرہ، اے پی، انادولو سمیت بین الاقوامی ایجنسیوں نے ملبے کے ڈھیرکے درمیان ہونے والی نمازِ عید الاضحی کے جو مناظر رپورٹ کیے انہوں نے دل کئی بار چیر ڈالا۔ یکم شوال کو بھی ایسا ہی تھا، وہ بھی ہم نہیں بھولے، پورا دردناک رمضان کیسے گزرا یہ سمجھانے کے لیے لغت میں الفاظ ہی نہیں۔ اِس عید پر بھی ایک بیساکھی پر چلتا ہوا مسلمان بھائی، ایک وہیل چیئر پر مسلمان بھائی جب نمازِ عید کے لیے آرہے تھے تو اُن کے جذبے اور چہروں کو دیکھ کر میں وہ منظر خشک آنکھوں سے برداشت نہ کرسکا۔ رفح کے خیموں میں ننگے پائوں، گندے کپڑوں میں ملبوس بچوں کو نعت پڑھتے دیکھا ہی نہ گیا، اُن کا جذبہ قابل ِرشک تھا۔ یہی تو وہ تعلق تھا جس نے اُن کو اس حال میں بھی زندگی دی ہوئی تھی۔
وہ لوگ اپنے گھروں کے ملبے کے درمیان شدید گرم موسم میں، پانی و غذا کے قحط کے ساتھ کیسے عید کا دن گزار رہے تھے، یہ الفاظ میں نہیں سمجھایا جا سکتا۔ اس دوران ایک وڈیو تحریکِ مزاحمت کے کارکنان کی بھی نظر آئی جس میں وہ نامعلوم کہاں سے مٹھائی لاکر بچوں میں تقسیم کررہے تھے۔ شدید بم باری، لاشوں، خون، زخمیوں، پانی، سیوریج کی تباہ لائنوں نے پورے غزہ میں بدترین ماحولیاتی بحران اور بیماریاں پیدا کردی ہیں۔ سب عالمی ادارے چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ یہ بم باری سے بھی بدترین نسل کشی ہے، مگر مجال ہے جو ’ناٹو‘ یا کوئی اور ادارہ حرکت میں آئے اور اس کو روکے۔
یہ سب صورتِ حال دیکھ کر بہت دیر تک میں اپنے وجود کو ہی کوستا رہا کہ میرے رب اِس دُنیا میں اب میرے وجود کی کوئی ضرورت نہیں، میں کمزور ہوچکا ہوں، اپنے بھائیوں کو یہود کے ظلم سے نجات نہیں دلارہا تو مجھے بھی جینے کا حق نہیں۔ آپ غزہ کو دیکھیں، میانمر کو دیکھیں، سوڈان، شام کو دیکھیں، سب جل رہے ہیں۔ یہود کے عالمی مقام کی وجہ سے غزہ تو پوری دنیا میں مرکزی موضوع بنا ہوا ہے۔ 9 ماہ میں سوشل میڈیا صرف وہاں کے مظالم دکھانے، بائیکاٹ مہم کی جانب متوجہ کرنے اور احتجاج کی بازگشت کو پھیلانے کا ہی کام کرتا رہا ہے۔ عید سے قبل سوشل میڈیا پر ایک معروف سپر اسٹور بھی اسی وجہ سے موضوع بنا اور اُس پر ’یہود نواز‘ ہونے کا لیبل لگایا گیا، کیوں کہ وہاں پیسپی، کوک سمیت امریکی مصنوعات کو نمایاں طور پر سجایا اور بیچا جارہا تھا۔ یہ حال شہر کے تقریباً تمام اسٹورز کا تھا کہ جو لوگ بائیکاٹ کی طرف جانا بھی چاہیں تو ان کو کسی بہانے روکا جائے۔ اس کے باوجود بائیکاٹ مہم کے اثرات جاری ہیں۔
حج 2024ء:
حج کی مبارک باد اپنی جگہ، مگر اِس بار حج سوشل میڈیا پر مختلف انداز سے وائرل رہا۔ مبینہ طور پر ایک پاکستانی حاجی نے حجاج کرام کی سڑک پر پڑی لاشوں اور کچرے سے بھری سڑکوں کی وڈیو شیئر کی تو بھونچال آگیا۔ مجھے ڈر ہے کہ اگلے سال وہاں موبائل پر پابندی نہ لگ جائے۔ 1010حجاج کی اموات کی اطلاع آئی جوکہ 18 لاکھ حجاج کا اعشاریہ صفر تین فیصد ہے۔ اِن حجاج کی اکثریت کا تعلق مصر، اردن، انڈونیشیا سے تھا۔ 18 لاکھ حجاج میں 60 سال سے زائد عمر کے افراد کی اموات کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہونی چاہیے، اگر یہ تعداد ہزاروں میں چلی جائے تو بھی معمولی تعداد ہی ہے۔ جان لیں کہ اِن میں کسی کو بھی قتل نہیں کیا گیا، نہ کھانے میں زہر تھا، نہ کسی نے خودکشی کی، نہ کوئی بم حملہ ہوا، نہ کوئی فائرنگ ہوئی۔ یہ سب طبعی موت مرے ہیں، حادثاتی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اتنے لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور عمر کا فرق، باہمی تعلق کو خاطر میں نہ لانا، عدم تربیت، روحِ حج سے عدم واقفیت ایسے ہی نتائج لاتی ہے۔ ہر عبادت کی ایک روح ہے۔ نماز کی روح ’دُعا‘ ہے۔ زکوٰۃ کی روح ’مال و دنیا سے بے رغبتی‘، روزے کی روح ’تقویٰ‘ ہے، حج کی روح ’مشقت‘ ہے… اوّل تا آخر مشقت۔ اب اگر کوئی ٹیکنالوجی، کوئی سائنس، کوئی آلہ وہ ’مشقت‘ کم کردے یا ختم کردے تو عبادت بے روح ہوگی کہ نہیں؟ آپ اپنے اکابرین کے زیادہ نہیں، 80 سال قبل کے سفرِ حج کی روداد پڑھیں، حقیقت معلوم ہوجائے گی۔ سید مودودیؒ کا حج کے حوالے سے اُن کی آواز میں ایک آڈیو کلپ گردش کررہا تھا جس میں وہ بار بار یہی بتا رہے تھے کہ ’’یہ زحمتیں، مشقتیں، تکالیف، آرام کی قربانی، بے ٹھکانہ ہوجانا، صحرا میں ریت پر لیٹنا، آسائشوں کو چھڑوانا… یہ سب حج کا مقصود اور اس کی حقیقی روح ہے‘‘۔
ایک صاحب نے ’وی آئی پی ‘خیموں کی وڈیو شیئر کی اور اُن آسائشوں اور آرام کے نہ ملنے پر افسوس و دکھ کا اظہار کیا، لعن طعن بھی کی۔ یہ ’وی آئی پی‘ کیا ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ مطلب نارمل حج کی فیس اگر 20 لاکھ تھی تو ان کی فیس 40 لاکھ تک ہوگی جس کے بدلے انہیں یہ سہولیات دی گئیں۔ آپ کے پاس 20 لاکھ تھے تو آپ کو20 لاکھ والی سہولت دی گئی۔ یہ جو حرم مکی کے آس پاس ہوٹلوں کے اسٹار کا معاملہ ہے یہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ تو پہلا سوال یہ ہے کہ کیا کبھی سنا ہے کہ حج کے موقع پر حضرت عثمان غنیؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ و دیگر مالی استطاعت رکھنے والے صحابہ کرامؓ نے اپنا الگ خیمہ لگایا ہو؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ کس نے اورکب کہا کہ ’’حج کے موقع پر زیادہ سے زیادہ آسائشیں، آرام اور سہولت لینا حج کی بنیادی عبادت کا تقاضا ہے؟‘‘ جس نے بھی یہ کہا ہے کہ یہ ساری ٹیکنالوجی، اشیا کا استعمال جائز ہے تو کیا اُس نے اِس بات کا جواب دیا کہ پھر سفر حج کی مشقت، تکلیف، کہاں سے خریدکر مالک کے حضور پیش کرنی ہوگی؟
حقیقت یہ ہے کہ حج و عمرے کی عبادت سہولیات کی فراہمی کے عنوان سے ہر ملک کے لیے اب ایک معاشی سیاسی سرگرمی بن چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ روح ختم ہوچکی۔ ہم جب حکمرانوں کے لیے وہاں بیت اللہ کے دروازے کھلتے دیکھتے ہیں تو مبہوت ہوجاتے ہیں کہ یہ کیسے ہوگیا؟ اللہ نے ایسے لوگوں کو اپنے گھر کے اندر آنے کی اجازت دے دی! مگر دوسری جانب ہم یہ بھول جاتے ہیںکہ اب یہ سارا عمل ’ریاستی‘ ہوچکا ہے۔ لوگ تو انتظامات کے نام پر سہولیات کی فراہمی دیکھ کر بھی مبہوت ہوجاتے ہیں مگر وہ یہ پھر بھول جاتے ہیںکہ یہ پنکھے، ٹھنڈے کولر، ٹھنڈی مشین، وہیل چیئر ، ٹھنڈا فرش، گاڑی، بس، ہوٹل سب نے آپ کی عبادت کی روح چھین لی ہے۔