ہم الجھتے جارہے ہیں۔ کیا صرف ہم؟ نہیں، یقیناً نہیں۔ پوری دنیا الجھی ہوئی ہے اور مزید الجھتی جارہی ہے۔ کیوں؟ اِس کیوں کے جواب میں گھنٹوں نہیں بلکہ ہفتوں، مہینوں تک بحث کی جاسکتی ہے۔
ہر دور کا انسان الجھا ہوا ہی رہا ہے۔ ہاں، جب دنیا زیادہ پھیلی نہیں تھی اور پَھلی پُھولی نہیں تھی تب انسانی ذہن پر دباؤ بھی بہت کم تھا۔ ایسے میں الجھنے کی گنجائش بھی کم تھی۔ انسان جیسے جیسے اِس دنیا کو پروان چڑھاتا گیا، خود بھی مادّی طور پر پروان چڑھتا گیا۔ یہ ہر دور کا قصہ ہے۔ اب یہ قصہ اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے، بلکہ پہنچ چکا ہے۔
آج ہم اُس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں سے سبھی کچھ بہت الجھا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے دیکھنے کا انداز بدل گیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ سبھی کچھ الجھا ہوا ہے۔ جو معاملات بظاہر بہت سادہ ہیں وہ بھی اچھے خاصے الجھے ہوئے ہیں، بے ربط ہیں۔
خالص عقل یعنی ’’عقلِ محض‘‘ کی روشنی میں دیکھیے تو دنیا کا کوئی بھی معاملہ کسی بھی اعتبار سے پیچیدہ نہیں، الجھا ہوا نہیں۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی بھی طرح اور شدت کا الجھاؤ کسی بھی معاملے میں نہیں بلکہ ہماری نظر اور ذہن میں ہے۔ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے ہم اُسے اُس سے ہٹ کر دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیوں؟ ذہن کی پرداخت ہی ایسی ہے۔ ہمارے ذہن کو صدیوں کے عمل میں یہی سکھایا گیا ہے کہ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے اُسے کسی اور روپ میں دیکھو یعنی اپنی خواہشات کے عکس تلاش کرو، ہر چیز کو اپنی امنگوں اور آرزوؤں کے آئینے میں دیکھتے رہا کرو۔
اس مشق کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ہر دور میں حقیقت پسندی کو تج کر خالص آرزومندی اور اُمید پرستی کو اپنایا جاتا رہا ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ ہم کھلے آسمان تلے یعنی سُورج کے نیچے کھڑے ہیں، سر گرمی سے پگھلا جارہا ہے مگر ہم سورج کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کررہے ہیں اور یہ سوچ سوچ کر دل کو بہلا رہے ہیں کہ سر پر جتنی بھی تمازت ہے وہ دراصل ٹھنڈک ہی کی ایک قسم ہے!
ذہنی امراض کب نہیں تھے اور کب نہیں ہوں گے؟ مگر ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں ’’بے فضول‘‘ کے معاملات بھی زندگی کا حصہ بن بیٹھے ہیں اور اِس کے نتیجے میں ہم زبردستی کے ذہنی مریض بنے ہوئے ہیں۔
دنیا پرستی کب نہیں تھی اور اپنی لیاقت و استطاعت سے بڑھ کر کچھ پانے کی خواہش کب نہیں تھی؟ مگر اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ تمام زمینی حقائق کو یکسر نظرانداز کرکے صرف خیال و خواب کی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں۔
پھر وہی کیوں؟ اِس کی وضاحت میں پھر بہت کچھ بیان کرنا پڑے گا۔ اگر آسان الفاظ میں یعنی علمِ نفسیات کی دقیق اصطلاحات سے کنارہ کش رہتے ہوئے کہا جائے تو بات یوں ہے کہ انسان صبر اور تحمل کی دولت سے محروم ہوچکا ہے، یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اُس نے صبر و تحمل کو دولت سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ جب انسان کسی چیز کو دولت میں شمار نہیں کرتا تو اُس کے حصول کے لیے سرگرداں بھی نہیں رہتا۔ اور ہاتھ بھی آئے تو دامن کش رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔
قدم قدم پر یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ؎
لوگ دیوانے ہیں، کیا کام کیا کرتے ہیں
پھولوںکو چھوڑ کے کانٹوں میں جیا کرتے ہیں
جی ہاں، لوگ اچھے خاصے گلزاروں کو چھوڑ کر خارزاروں کو اپناتے پھرتے ہیں اور اِس پر شرمسار ہونے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ سوال یہ ہے کہ شرمسار ہونے کی توفیق ہوتی تو گلزاروں کو چھوڑ کر خارزاروں کو اپناتے ہی کیوں!
وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے اٹک میں تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اٹک کی ضلع کچہری میں 2 وکلا کو موت کے گھاٹ اتارنے والے پولیس اہلکار کے خلاف بھرپور قانونی کارروائی ہوگی اور انصاف یقینی بنایا جائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ اعظم نذیر تارڑ نے یہ بھی کہا کہ عدالتوں کی سیکورٹی کا معیار بلند کرنے کے لیے وہاں تعینات کیے جانے سے قبل سیکورٹی اہلکاروں کی سائیکالوجیکل اسکریننگ کا بھی نظام لایا جائے گا، یعنی یہ دیکھا جائے گا کہ وہ بے داغ ذہنی صحت کے حامل ہوں، اُن میں کوئی بڑی یا خطرناک نفسیاتی پیچیدگی نہ ہو اور وہ کسی کے لیے بلا جواز طور پر خطرہ نہ بن سکیں۔
وفاقی وزیرِ قانون نے سائیکالوجیکل اسکریننگ کی بات خوب کہی ہے اور اِس پر عمل بھی ہونا چاہیے، مگر سوال یہ ہے کہ کس کس کی اسکریننگ کی جائے گی؟ یہاں تو پوری قوم ہی الجھے ہوئے ذہن کی حامل دکھائی دیتی ہے۔ حقیقت پسندی دور دور تک نظر نہیں آتی۔ قدم قدم پر ایسے لوگوں سے نپٹنا پڑتا ہے جو خیال و خواب کی دنیا میں رہتے ہیں اور اِس دنیا سے باہر آنے پر آمادہ بھی نہیں ہوتے۔
حقیقت پسندی کی راہ سے ہٹ کر خیال و خواب کی دنیا میں جینے کے حوالے سے پاکستان کوئی انوکھا معاشرہ نہیں۔ یہ بیماری تو اب دنیا بھر میں عام ہے۔ ہاں، شدت کا تھوڑا بہت فرق ضرور پایا جاتا ہے۔ ہر اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسے لوگوں کی تعداد اچھی خاصی ہے جو حقیقت کی دنیا میں پائی جانے والی جادوئی نوعیت کی سہولتوں اور آسانیوں کے ہوتے ہوئے ایسا کچھ اور تلاش کرتے پھرتے ہیں جس کی مدد سے زندگی کو مزید پُرتعیش اور پُرسکون بنایا جاسکے۔ پس ماندہ معاشروں میں لوگ جن سہولتوں کو اِس دارِ فانی اور یہاں کی زندگی کا نقطۂ عروج سمجھتے ہیں وہ سہولتیں ترقی یافتہ دنیا میں اس قدر عام ہیں کہ کوئی اُن کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا، یعنی وہ ذہنی ساخت کا حصہ بن چکی ہیں مگر پھر بھی لوگ کچھ اور پانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں اور اس بے تابی ِ شوق ہی کے ہاتھوں اوٹ پٹانگ حرکتیں کرکے اپنی اور متعلقین کی زندگی کا تیا پانچا کر بیٹھتے ہیں۔
پاکستان جیسے معاشرے انتہائی درجے کی پستی کا شکار ہیں۔ قدم قدم پر نفسی الجھنیں دامن گیر رہتی ہیں، پاؤں پکڑ اور جکڑ لیتی ہیں۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ جب ترقی یافتہ دنیا کے لوگ خیال و خواب کی دنیا سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں تو کسی بھی پس ماندہ معاشرے کے لوگ کس طور حقیقت کی دنیا میں جی سکتے ہیں اور زمینی حقیقتوں کو گلے لگاسکتے ہیں! بات بالکل درست ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کے لوگ اگر خیالی دنیا کی سیر کرتے پھریں تب بھی اُن کی حقیقی دنیا کہیں نہیں جاتی، ہاتھ میں رہتی ہے۔ جب بھی وہاں کے لوگ خیالات، تصورات، آرزوؤں اور امنگوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں واپس آتے ہیں تب اُنہیں سب کچھ اُسی حالت میں ملتا ہے جس حالت میں ہونا چاہیے۔ پس ماندہ معاشروں کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگ جب خیالوں میں بھٹکتے ہیں تب اُن کے لیے حقیقی زندگی اور زمینی حقیقتوں کی دنیا میں اُن کے حصے کے امکانات کا تیا پانچا ہوچکا ہوتا ہے۔
جب حقیقت کی دنیا اور خیال و خواب کے دنیا میں فرق بہت بڑھ جاتا ہے تب انسان کے لیے ذہنی توازن برقرار رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے اور بیشتر معاملات میں لوگ ناکامی ہی کا سامنا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی یہی تو ہورہا ہے۔ ہم قبولیت کی منزل سے گزریں یا نہ گزریں، جو کچھ ہمارے خیال و خواب میںہے اُس کا عشرِ عشیر بھی حقیقت کی دنیا میں نہیں پایا جاتا۔ جب ہم فرق دیکھتے ہیں تو مایوسی کا گراف مزید بلند ہوجاتا ہے۔
کیا مایوسی کے گراف کا بلند ہونا فطری امر ہے؟ اس سوال کے کئی جواب ہوسکتے ہیں۔ انتہائی پس ماندہ معاشروں میں بھی ہمیں ایسے لوگ دکھائی دے جاتے ہیں جو خاصے پُرسکون انداز سے جی رہے ہوتے ہیں۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ حقیقت کی دنیا میں رہتے ہیں۔ خیال و خواب کی یعنی تصورات کی دنیا میں سانس لینا اُنہیں زیادہ اچھا نہیں لگتا۔ وہ زمینی حقیقتوں کو لگے لگائے ہوئے جیتے ہیں۔
کیا ایسا ممکن ہے؟ اگر ہاں، تو پھر ہم بالعموم زمینی حقیقتوں کو گلے لگائے ہوئے کیوں نہیں جی پاتے؟ یا ایسا کرنے سے اس قدر کتراتے کیوں ہیں؟ بات کچھ یوں ہے کہ ہم ایک طویل مدت تک، بلکہ بعض حالات میں تو عمر بھر خرابیوں کو نفسی ساخت اور مزاج کا حصہ بنائے رہتے ہیں اور جب اُن کا خمیازہ بھگتنے کا وقت آتا ہے تو چاہتے ہیں کہ راتوں رات سبھی کچھ درست ہوجائے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ اِس کائنات کا اصول ہی نہیں ہے۔ بویا ہوا کاٹنا پڑتا ہے، کھایا ہوا ہضم کرنا ہی پڑتا ہے۔ دو، تین یا چار ذاتی عشروں کے دوران پروان چڑھنے والی نفسی الجھنوں سے ہم راتوں رات کیونکر نجات پاسکتے ہیں؟ ایک مدت کی پنپی ہوئی بُری عادتیں محض سوچ لینے سے پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ اِس کے لیے جو عزم و استقلال درکار ہے، جو استحکامِ فکر و نظر لازم ہوا کرتا ہے وہ ہم اپنے اندر پیدا نہیں کرتے، اور محض اِس خواہش کو پروان چڑھاتے رہتے ہیں کہ کہیں سے جادو کی چھڑی مل جائے، ہم اُسے گھمائیں اور سب کچھ درست ہوجائے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ حقیقت سے دوری ہم سے وہ بھی چھین لیتی ہے جو ہمارا ہوتا ہے ؎
خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی
لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی
یہ دنیا صرف اُن کے لیے ہے جو حقیقت پسندی کی چادر اوڑھے رہتے ہیں۔ جس نے یہ چادر اتاری وہ توازن کھو بیٹھا۔ پھر وہ ایسے کام کرتا ہے جس کے نتیجے میں اُسے ’’نفسیاتی‘‘ سمجھنا اور قرار دینا لازم ہوجاتا ہے۔ ہاتھ میں موجود ایک پرندہ جھاڑیوں میں یا درخت کی اونچی شاخ پر بیٹھے ہوئے آٹھ دس پرندوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے کیونکہ ہاتھ میں موجود پرندہ حقیقت ہوتا ہے اور باقی تمام پرندے خیال و خواب۔ ہم میں سے بیشتر زندگی بھر یہی تو کرتے ہیں، یعنی جو کچھ دسترس میں ہے اُس کی قدر کرنے کے بجائے وہ سب کچھ پانے کی تمنا کرتے رہتے ہیں جو ہمارے بس میں ہوتا ہے نہ اختیار میں۔ انسان جوکچھ بھی پاسکتا ہے وہ دراصل اُس کی لیاقت یعنی صلاحیت اور سکت یعنی کام کرنے کی استعداد و توانائی کے دائرے میں ہوتا ہے۔ ایک وقت میں کوئی ایک کام ہی ڈھنگ سے ہوپاتا ہے۔ انسان بیک وقت دو، تین یا چار کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ایک کام بھی ڈھنگ سے نہیں کر پاتا جو وہ ڈھنگ سے کرسکتا ہے۔
آج ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے جنہیں ’’نفسیاتی‘‘ قرار دیتے جھجھک محسوس ہوتی ہے نہ شرم۔ سبب اس کا یہ ہے کہ لوگ اپنی زمینی حقیقتوں کو بالکل بھول کر خیال و خواب کی دنیا میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو پھول اُنہیں آرزوؤں کے آنگن میں بہار دکھا رہے ہیں وہ حقیقت کی دنیا میں بھی دکھائی دیں۔ ایسا ہو تو سکتا ہے مگر اِس کے لیے تگ و دَو کے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے کم ہی لوگ تیار ہوپاتے ہیں۔
کسی بھی انسان کو ’’نفسیاتی‘‘ قرار دیے جانے سے محفوظ رکھنے میں خود اُس سے بڑھ کر اُس کے والدین اور خاندان کے بزرگوں کا کردار کلیدی نوعیت کا ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ اپنے معاشرے میں ہمیں ایسے بہت سے گھرانے دکھائی دیتے ہیں جو سب سے ہٹ کر ہوتے ہیں اور ہمیں خاصے odd لگتے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے کے ہر مقبول چلن کو ترک کرتے ہوئے حقیقت پسندی کی راہ پر گامزن رہتے ہیں اور جو کچھ بھی اپنی صلاحیت و سکت کے مطابق پاسکتے ہیں اُسی کو پانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ ایسے لوگ چونکہ اپنی تمام حدود کو اچھی طرح جانتے ہیں اس لیے ایسے کسی بھی انسان سے اِن کی نہیں نِبھتی جو حقیقت کی دنیا میں سانس لینے کے لیے تیار نہ ہو۔ یوں ایسے لوگ اپنی الگ دنیا بساتے ہیں، اِسی دنیا میں وہ کسی اور دنیا کے دکھائی دیتے ہیں اور کچھ نہ کچھ پانے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔
یہ سَودا سب کے بس کا نہیں ہوتا۔ چکبستؔ لکھنوی نے خوب کہا ہے ؎
یہ سَودا زندگی کا ہے کہ غم انسان سہتا ہے
وگرنہ ہے بہت آسان اِس جینے سے مر جانا
حقیقت پسندی کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے انسان اپنی صلاحیت و سکت کے مطابق پانے میں کامیاب رہتا ہے۔ خیال و خواب کی وادیوں میں بھٹکنے والے اپنے جائز حصے سے بھی محروم رہتے ہیں یا خود کو محروم رکھتے ہیں۔
ڈپریشن اس دور کی ایک بنیادی حقیقت ہے۔ کوئی بھی انسان دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ ڈپریشن سے مکمل طور پر آزاد یا پاک ہے۔ ہاں، ڈپریشن کو ایک حد سے آگے نہ بڑھنے دینا فن ہے جو سیکھنا پڑتا ہے۔ جو یہ فن سیکھ پاتا ہے وہی ’’نفسیاتی‘‘ کے ٹیگ سے محفوظ رہ پاتا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، یہ فن ہمیں سیکھنا ہی پڑتا ہے اور سیکھنا ہی پڑے گا۔ زمینی حقیقتوں کو تسلیم و قبول کرنے ہی پر ہم اپنے وجود کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے قابل ہوسکتے ہیں۔
دو باتیں ذہن نشین رکھنی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اِس دنیا میں قیام ایک بار ملاہے، اور دوسرے یہ کہ اس قیام کو بامقصد بنانا ہے۔ محض خیال و خواب کی دنیا میں بھٹکتے رہنے سے کچھ نہ ہوگا۔ حقیقت کی دنیا میں جینا ہے تاکہ اپنی صلاحیت و سکت کو کماحقہٗ بروئے کار لایا جاسکے اور ’’نفسیاتی‘‘ کے ٹیگ سے بچا جاسکے۔