قوموں کے زوال کے اسباب

318

روئے زمین پر پھیلے ہوئے کھنڈرات اُن قوموں کی داستان بیان کرتے ہیں جو اپنے وقت میں دُنیا کی تمام تر آسائشوں، دولت و ثروت، طاقت اور ہنر مندی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ لیکن اچانک دیکھتے ہی دیکھتے رات یا دن کے کسی پہر نہ مکین رہے نہ مکان۔ ’’قصص القرآن‘‘ میں ایسی تباہ شدہ اقوام کے قصے اور تباہی کی وجوہات موجود ہیں۔ تمام تر زوال کے اسباب اور تباہی کی علامات یکساں بیان ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام انسانوں کی رہنمائی کے لیے بھیجے، ان تمام انبیائے کرام کی دعوت کے مشترکات ایک ہی تھے یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور انبیائے کرام کو اللہ نے پیامبر بنا کر بھیجا ہے، سب کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا، دنیا کی زندگی میں کیے گئے اچھے اور برے اعمال کی جزا اور سزا جنت اور جہنم کی صورت میں ملے گی۔ سورہ الانعام کی آیت 11 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! لوگوں کو کہہ دیجیے کہ زمین پر چل پھر کر دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے انبیا کی دعوت کو جھٹلانے والوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔‘‘

سورہ الروم کی آیت 42 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’آپؐ لوگوں سے کہہ دیجیے کہ زمین پر چل پھر کر دیکھیں کہ اللہ نے جھٹلانے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جن میں اکثریت مشرکین کی تھی۔‘‘

قرآن مجید میں قوموں کی تباہی کی وجوہات میں یہ بات مشترک ہے کہ یہ تمام قومیں انبیائے کرام کی تکذیب کرنے والی، بتوں کی پرستش کرنے والی، ظالم اور اخلاقی زوال کا شکار تھیں۔ یہ تمام تباہ شدہ اقوام اپنے زمانے میں دنیوی اعتبار سے دیگر اقوام پر ہر اعتبار سے برتری رکھتی تھیں۔ اگر قومِ نوحؑ سے بات شروع کی جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ حضرت نوحؑ نے اپنی نو سو سالہ زندگی میں لوگوں کو توحید و رسالت، اخلاق و فکر اور آخرت کی دعوت دی۔ مگر ہر گام پر ان کی قوم اور رؤسا نے ان کی تکذیب کی جس کا ذکر سورۂ نوح میں نوح علیہ السلام کی فریاد کی صورت میں موجود ہے۔ پھر جب آپؑ اپنی قوم کی ریشہ دوانیوں سے تنگ آگئے تو آپؑ نے بددعا دی کہ اللہ ان کی نسلوں میں سے کسی کو نہ بخش۔ اور پھر سیلاب کی صورت میں قیامتِ صغریٰ نے سب کو ہلاک کردیا سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے تھے اور آپؑ کی کشتی پر سوار تھے۔

قومِ لوط کی بدبختی اور لواطت نے ان کو زمین میں دھنسا دیا اور وہ نشان زدہ پتھر سے ہلاک کردیے گئے۔ قومِ عاد جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ ’’ایسی زور آور قوم میں نے پیدا نہیں کیاور آئندہ بھی نہیں کروں گا۔‘‘ جنہوں نے پہاڑوں کو کاٹ کر اپنے عالیشان محلات بنائے ان کو گرم آندھیوں کے طوفان نے کھائے ہوئے بُھس کی مانند بنادیا۔ صالح علیہ السلام کی قوم جس میں بدمعاشوں کے نو گروہ تھے اور ان کا سربراہ طویل القامت زحاق تھا جس نے اللہ کی نشانی اونٹنی کو ذبح کیا، صرف ایک چیخ نے سب کو ہلاک کردیا۔ شعیب علیہ السلام کی قوم ناپ تول میں ڈنڈی مارتی تھی، اللہ نے راتوں رات ان کے تمام باغات کو ملیامیٹ کردیا۔ نمرود اور اس کی فوج کو مچھروں نے ہلاک کردیا۔ اصحابِ سبت کو اس بنا پر سور اور بندر بناکر ہلاک کردیا کہ وہ اللہ کو دھوکا دے رہے تھے۔

فراعنہ مصر کے اہرام، ابوالہول کا مجسمہ اور حنوط شدہ لاشوں کی تعمیراتی انجینئرنگ اور کیمیائی مسالہ جات کے بارے میں آج بھی دورِ جدید کے سائنس دان حیرت زدہ ہیں کہ کس طرح دریا کی تیز لہروں نے نام و نشان مٹا کر رکھ دیا۔ پامپائی کے پتھروں میں تبدیل شدہ لاشوں نے دنیا کو حیرت میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے کہ آتش فشاں کے لاوے نے ان بدبختوں کو خاک میں تبدیل کرنے کے بجائے پتھر کیوں بنا دیا؟ وہ اس لیے کہ دنیا دیکھے کہ اللہ اپنے باغیوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے۔

وادیِ مہران کے قلب میں موجود ساڑھے چار ہزار سال پرانا ترقی یافتہ شہر… اصحاب الرس والوں کی تباہی کی اصل وجوہات کا اب تک پتا ہی نہیں چل سکا کہ اس موئن جودڑو یعنی ’’مُردوں کے شہر‘‘ والوں کی تباہی کیسے ہوئی؟ دنیا کے ہر خطے میں تباہ شدہ اقوام کے کھنڈرات یہ پیغام دے رہے ہیں کہ لوگو! دیکھو ہماری دولت، طاقت، علم و فن کچھ کام نہیں آیا، قہار و جبار رب العالمین کا کوڑا ہم پر اس لیے برسا کہ ہم نے انبیائے کرام کی دعوت کی تکذیب کی۔ شرک اور ظلم کیا اور اخلاقی پستی میں گر گئے۔

ہر قوم کی تباہی کے پیچھے یہ کردار مشترک ہی ہے۔

مذکورہ بالا حوالوں کے بعد مسلم امہ کے عروج و زوال کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے کہ آج سے چودہ صدیاں قبل کس طرح عرب کے بادیہ نشینوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی امامت بخشی اور آج یہ امتِ محمدی کیوں ذلیل وخوار ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان و یقین، للہیت، توحید و رسالت اور فکرِ آخرت کی بھٹی میں مکہ اور مدینہ کے سنگ ریزوں (اصحاب)کو تراش کر ہیروں کی ایسی چمک عطا کی کہ چند سال میں شرق تا غرب، شمال تا جنوب اسلام کا بول بالا ہوگیا۔ کفر و شرک، ظلم و جبر کی سیاہ گھٹائیں چھٹ گئیں اور رحمت و شفقت، عدل و انصاف کا ایسا نظام قائم ہوگیا کہ ہر سو رحمت کی گھٹائیں جھوم جھوم کر برسنے لگیں۔

خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کبھی اس وادی میں جاتے جس میں ایمان لانے سے قبل اونٹ چرایا کرتے تھے تو آپؓ رونے لگتے۔ صحابہ نے پوچھا کہ ’’اے امیرالمومنین! آپ یہاں آکر کیوں روتے ہیں؟‘‘ تو آپؓ نے کہا کہ ’’یہ وہی وادی ہے جہاں مجھ سے ایک اونٹ گم ہوگیا تھا تو میرے باپ نے مجھے تھپڑ مارا تھا اور کہا تھا کہ تُو کتنا نااہل ہے کہ تجھ سے ایک اونٹ بھی سنبھالا نہیں جاتا۔ آج وہی عمر ہے کہ اس کے قدموں کے نیچے آج قیصر و کسریٰ کی سلطنت ہے۔ یہ سب ایمان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کی برکت ہے ورنہ عمر کی کیا حیثیت۔‘‘

خلافت کا روشن زمانہ اُس وقت سے گہنانا شروع ہوگیا جب پے در پے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادتیں ہوگئیں اور خلافت کی سمت بدل کر ملوکیت اور بادشاہت کی جانب مڑ گئی، اور سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ دورِ یزید میں حضرت امام حسینؓ اور اہل بیت کی کربلا میں شہادت کا خونچکاں واقعہ رونما ہوا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، یہ امت کبھی بنیان مرصوص نہ بن سکی۔ فتوحات اور عسکری بالادستی کا سلسلہ جاری رہا مگر دولت کی فراوانی، بادشاہت اور نام نہاد خلافت میں مسلمان تن آسانیوں کے ساتھ ساتھ جہاد کے فریضے سے غافل ہوتے گئے اور ہوسِ ملک گیری نے آپسی اتحاد کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا۔

اللہ نے مسلم امہ کو امام الامت بنایا ہے۔ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’تم کو خیرِ امت بناکر مبعوث کیا ہے تاکہ تم بھلائی کا حکم دوگے اور برائی سے روکو گے اور اللہ پر ایمان لاؤ گے۔‘‘ (سورہ آل عمران)

سورہ توبہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’تم بھلائی کا حکم دوگے اور برائی سے روکو گے اور حدود ا للہ کی حفاظت کرو گے۔‘‘

جب تک مسلمان اور ان کے حکمران اس فریضے کو ادا کرتے رہے، دنیا کی کوئی طاقت ان کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہ کرسکی۔ مگر جب دولت کی ریل پیل اور عیاشیوں میں گھر گئے تو اللہ تعالیٰ نے صحرائے گوبی سے ایک خوں آشام قوم تاتاریوں کی صورت میں چنگیز خان کی قیادت میں ان پر مسلط کی اور چند سال کے بعد 1258ء میں ہلاکوخان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، وسط ایشیا سے لے کر تمام عرب دنیا کو خاک و خون میں نہلا دیا۔ سقوطِ بغداد ایک ایسا المیہ تھا کہ مسلمان، تاتاریوں کے نام سے تھرتھر کانپنے لگے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مجھے تمہارے متعلق سب سے زیادہ ڈر جس کا ہے وہ مال کا فتنہ ہے۔‘‘ اور یہی ہوا، تاتاریوں کے حملے سے پہلے پوری مسلم دنیا میں دولت کی ایسی فراوانی تھی کہ لوگ مدہوش ہوچکے تھے۔

دوسرا عظیم سانحہ سقوطِ غرناطہ، مسلمانوں کی 800 سالہ حکمرانی کا خاتمہ اور عربوں اور بربروں کے آپسی اختلافات اور عیسائی دنیا کا اتحاد تھا جس کے نتیجے میں 1492ء میں ہسپانیہ میں مسلم اقتدار کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔

سورہ توبہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں نکلو تو تم زمین سے چمٹ جاتے ہو، تم نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی ہے، تو جان لو دنیا کا تمام مال و متاع آخرت میں تھوڑا نکلے گا، اگر تم نہیں نکلو گے تو اللہ تم کو عذابِ الیم میں مبتلا کردے گا اور تمہاری جگہ کسی اور کو مسلط کردے گا۔ تم اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘

یہی ہوا، عربوں سے قیادت چھن گئی، اور جب تاتاریوں کا برقہ خان مسلمان ہوا تو پھر اسلام کا بول بالا ہوگیا، جس پر علامہ اقبال نے کہا:

ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

ادھر ارتغل غازی کی سربراہی میں کائی قبیلے کے ایک چھوٹے سے گروہ نے تاتاریوں کو پے در پے شکست دے کر اور سلجوقی سلطنت کے زوال کے بعد عثمانی ترکوں کی عظیم الشان خلافت قائم کی جو تین براعظموں پر محیط تھی۔ آدھے یورپ اور ایشیا کے بڑے حصے اور افریقہ تک پھیلی ہوئی یہ سلطنت اُس وقت زوال پذیر ہونا شروع ہوئی جب اس کے حکمرانوں میں وہی تن آسانی اور عیاشیوں کے جراثیم داخل ہوگئے اور بالآخر 1923ء میں پہلی جنگِ عظیم میں شکست کے بعد ترک خلافت کے 63 ممالک کے اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی ہزار سالہ حکمرانی کے خاتمے کے پیچھے عیاشیوں کی یہی ہوش ربا داستانیں ہیں۔ سقوطِ بنگال، دکن اور دہلی کے پسِ پردہ انہی بداعمالیوں کے ساتھ ساتھ غدارانِ ملت کی سازشیں کارفرما رہی ہیں۔ بغداد میں یحییٰ علقمی، عربوں کے ساتھ لارنس آف عربیہ اور گورنر مکہ، دکن میں میر صادق اور بنگال میں میر جعفر اور سقوط ڈھاکہ میں مجیب الرحمن، یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کا کردار تاریخ کا سیاہ باب ہے۔

1857ء کے انقلاب کی ناکامی کے پیچھے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی تن آسانی اور بزدلی ہی تھی ورنہ مجاہدین انگریزوں کو شکست دے چکے تھے۔ اگر بہادر شاہ ظفر مجاہدین کی حمایت کردیتا تو ہندوستان 100 سال پہلے آزاد ہوچکا ہوتا اور ہندوستان پر دوبارہ مسلمانوں کی حکومت ہوتی۔ لیکن بہادر شاہ ظفر کی بزدلی کا الم ناک نتیجہ یہ نکلا کہ اسے قبر کے لیے وطن کی دوگز زمین بھی میسر نہ ہوئی اور رنگون کے جس گیراج میں قید تھا اسی میں دفن ہوا۔

سو سال کی جدوجہد کے بعد ملکِ خداداد پاکستان تو مل گیا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد مسلم دنیا کے تمام محکوم ممالک کو برطانوی سامراج سے آزادی تو مل گئی لیکن انگریز جاتے جاتے ان تمام ملکوں میں اپنے گماشتوں کو حکمرانی کے منصب پر فائز کر گیا اور 76 سال گزرنے کے بعد بھی یہ کالے اور رنگ دار انگریز مسلمانوں پر مسلط ہیں۔ اور اس ذہنی، تہذیبی، ثقافتی اور نظریاتی غلامی کا نتیجہ جو ہوتا ہے ابنِ خلدون 700 سال پہلے اپنی ایک تحریر ’’زوا ل پذیر معاشرے کے خواص‘‘میں لکھ چکا ہے جسے میں یہاں نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں:

’’محکوم معاشرہ اخلاقی اقدار سے دست بردار ہوجاتا ہے، ظلمت کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے، ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج کا انسان اتنا ہی جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے، ایک وقت آتا ہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتا ہے۔جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان میں نجومیوں، بھکاریوں، منافقوں، ڈھونگ رچانے والوں، چغل خوروں، کھجور کی گٹھلیوں کے قاریوں، درہم و دینار کے عوض فتویٰ فروش فقیہوں، جھوٹے راویوں، ناگوار آواز والے متکبر گلوکاروں، بھد اُڑانے والے شاعروں، غنڈوں، ڈھول بجانے والوں، خودساختہ حق سچ کے دعویداروں، زائچے بنانے والوں، خوشامدیوں، طنز اور ہجو کرنے والوں، موقع پرست سیاست دانوں اور افواہیں پھیلانے والے مسافروں کی بہتات ہوجاتی ہے۔

ہر روز جھوٹے روپ کے نقاب آشکار ہوتے ہیں مگر یقین کوئی نہیں کرتا، جس میں جو وصف سرے سے نہیں ہوتا وہ اس فن کا ماہر مانا جاتا ہے، اہلِ ہنر اپنی قدر کھو دیتے ہیں، نظم و نسق ناقص ہوجاتا ہے، گفتار سے معنویت کا عنصر غائب ہوجاتا ہے، ایمان داری کو جھوٹ کے ساتھ اور جہاد کو دہشت گردی کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔

جب ریاستیں برباد ہوتی ہیں تو ہر سو دہشت پھیلتی ہے اور لوگ گروہوں میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں، عجائبات ظاہر ہوتے ہیں اور افواہیں پھیلتی ہیں، بانجھ بحثیں طول پکڑتی ہیں، دوست دشمن اور دشمن دوست میں بدل جاتا ہے، باطل کی آواز بلند ہوتی ہے اور حق کی آواز دب جاتی ہے، مشکوک چہرے زیادہ نظر آتے ہیں اور ملنسار چہرے سطح سے غائب ہوجاتے ہیں، حوصلہ افزا خواب نایاب ہوجاتے ہیں اور امیدیں دَم توڑ جاتی ہیں، عقل مند کی بیگانگی بڑھ جاتی ہے، لوگوں کی ذاتی شناخت ختم ہوجاتی ہے اور جماعت، گروہ یا فرقہ ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔ مبلغین کے شور شرابے میں دانش وروں کی آواز گم ہوجاتی ہے۔ بازاروں میں ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے اور وابستگی کی بولیاں لگ جاتی ہیں۔ قوم پرستی، حب الوطنی، عقیدہ اور مذہب کی بنیادی باتیں ختم ہوجاتی ہیں اور ایک ہی خاندان کے لوگ خونیں رشتے داروں پر غداری کے الزامات لگاتے ہیں۔

بالآخر حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ لوگوں کے پاس نجات کا ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے ’’ہجرت‘‘۔ ہر کوئی ان حالات سے فرار اختیار کرنے کی باتیں کرتا ہے، تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے، وطن ایک سرائے میں بدل جاتا ہے، لوگوں کا کُل سازو سامان سفری تھیلوں تک سمٹ آتا ہے، چراگاہیں ویران ہونے لگتی ہیں، وطن یادوں میں، اور یادیں کہانیوں میں بدل جاتی ہیں۔‘‘

ابن خلدون کی سات سو سال قبل لکھی گئی اس تحریر کی روشنی میں ہم اپنے ملک پاکستان کا اصل چہرہ دیکھ سکتے ہیں، اور سرزمینِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بتوں کے داخلے کے ساتھ ساتھ فحش ومنکرات کا آغاز ہماری تباہی کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔ فلسطین اور غزہ کی بربادی ،کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام اور مسلم عوام و حکمرانوں کی بے غیرتی اور بے حسی اس تحریر کے آئینے میں آشکار ہے۔

حصہ