تھیلے سیمیا سے متعلق قانون سازی

207

تھیلے سیمیا خون کی بیماری ہے جو کہ والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ اس میں خون بننے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا فرد کی زندگی کا انحصار انتقالِ خون پر ہوتا ہے۔ اس بیماری کے متعلق آگاہی نہ ہونے اور مائنر تھیلے سیمیا کے شکار افراد کی آپس میں مسلسل شادیوں کے باعث میجر تھیلے سیمیا کا مرض بڑھتا جارہا ہے۔

میجر تھیلے سیمیا چوں کہ لاعلاج مرض ہے جو کہ تمام تر شدت سے اپنی علامات کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے اور اس کے علاج پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ علاج کے باوجود اس مرض کا شکار بچے بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہی وفات پاجاتے ہیں۔ دوسری طرف مائنر تھیلے سیمیا ایک خاموش بیماری ہے، جس میں علامات اکثر ظاہر نہیں ہوتیں مگر ایسا فرد اگر آگے کسی بھی دوسرے مائنر تھیلے سیمیا کے حامل فرد سے شادی کرے گا تو پیدا ہونے والی اولاد میجر تھیلے سیمیا کا شکار ہوگی۔ اس لیے ماہرین کے مطابق دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اگر شادی سے قبل جوڑے تھیلے سیمیا کا تشخیصی ٹیسٹ کروا لیں تو اس مرض سے بچا جاسکتا ہے۔

پاکستان کے کئی حصوں میں مضبوط خاندانی اور برادری سسٹم ہے جس میں لوگ رشتے ناتے آپس میں ہی طے کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے مسلسل کزنز میرجز (شادیاں) ہوتی ہیں۔ اکثر ایسی شادیوں میں کئی اہم امور کی طرح اس بات کو بھی نظرانداز کیا جاتا ہے کہ دلہا دلہن کسی بیماری کا شکار تو نہیں!

مزید یہ کہ اگر جوڑوں میں مائنر تھیلے سیمیا کی تشخیص ہو جائے یا ایسی ہسٹری موجود ہو کہ دونوں میں تھیلے سیمیا کا مرض ہونے کے امکانات موجود ہوں تب بھی پاکستان میں شادی سے قبل کسی قسم کا تشخیصی ٹیسٹ کروانے کا کوئی رجحان نہیں، نہ شادی بیاہ کے موقع پر اس بات کو پسند کیا جاتا ہے کہ وہ ایسا کوئی ٹیسٹ کروائیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس معاملے میں سخت قانون سازی کی جائے اور ایسے برداری سسٹم کی بندشوں کے شکار افراد کو قانوناً مجبور کیا جائے کہ وہ ٹیسٹ لازمی کروائیں۔

پاکستان کے کئی صوبوں میں تھیلے سیمیا ایکٹ لاگو کرنے کے لیے کئی قانونی بل متعارف کرائے گئے کہ لوگوں کو اس ٹیسٹ پر مجبور کیا جائے تاکہ اس مرض پر کنٹرول کیا جاسکے۔ قومی اسمبلی، سندھ، خیبرپختون خوا کی اسمبلیوں میں پیش کردہ قوانین کے تحت شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ شادی سے قبل اس مرض کا ایک تشخیصی ٹیسٹ کروالیں، مگر بدقسمتی سے ملک میں کئی دیگر قوانین کی طرح یہ قواعد بھی کاغذات کا پلندہ ثابت ہوئے اور کسی قسم کے قوانین کے نفاذ اور ان کی پابندی دیکھنے کو نہیں ملی، جس کی وجہ سے آج پاکستان میں یہ مرض بڑھتا جارہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ درج ذیل اقدامات سرکاری و نجی سطح پر فوری طور پر کیے جائیں:

صوبائی اور وفاقی وزارتِ صحت کے مرتب کردہ ریکارڈ کی روشنی میں ایسے علاقوں میں نکاح نامہ فارم میں قانونی طور پر ایک کالم کا اضافہ کیا جائے۔ یہ کالم تھیلے سیمیا ٹیسٹ کی تصدیق کے متعلق ہو، جس میں دلہا دلہن کے ٹیسٹ منفی ہونے کی تصدیق ہو۔ نکاح رجسٹرار نکاح کو رجسٹرڈ نہ کرے جب تک تھیلے سمیا ٹیسٹ نہ کروالیا جائے۔

کسی بھی معاشرے میں قوانین کی پابندی سے نہ صرف حقوق وفرائض کو لاگو کیا جاسکتا ہے بلکہ ایسی خطرناک بیماریوں کو بھی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہوگا جب آگاہی پروگرام کے ذریعے بڑے پیمانے پر بیماری کے نقصانات کے متعلق بتایا جائے۔

حصہ