وقت کا دریا رواں

285

آج ذوالحج کی آٹھ تاریخ تھی جس کی وجہ سے شہر میں بڑی رونق تھی، جگہ جگہ چوڑیوں اور مہندی کے اسٹال لگے تھے اور قربانی کے جانور بندھے ہوئے تھے جس کی وجہ سے شہر کے اندرونی علاقوں اور بازاروں میں خاصی رونق تھی، لیکن اُس کا ان اسٹالز اور اس رونق سے کیا مطلب یا واسطہ تھا!

گھر میں داخل ہوئی تو ڈرائیور کی پیچھے سے آواز آئی ’’میڈم اگر آپ کو کل کہیں نہیں جانا تو میں چھٹی کرسکتا ہوں؟‘‘

واقعی اسے کہیں جانا تھا نہ ہی کسی کو آنا تھا، اس لیے اُس نے ڈرائیور کو چھٹی دے دی۔ زینت اُس کی پرانی ملازمہ تھی جو کہ برسوں سے اُس کے ساتھ تھی، وہ تو اب ایک ایسی ہستی تھی جو اُس کے لیے اپنوں سے بھی زیادہ قریب تھی۔

’’بی بی صاحبہ! آپ چینج کرلیں تو کھانا لگادوں؟‘‘

’’تم نے کھانا کھا لیا؟‘‘

’’آپ کے بغیر میں نے کبھی کھانا کھایا ہے؟ آپ کھا لیں تو میں بھی کھالوں گی۔‘‘

زینت رات کے برتن وغیرہ دھوکر فارغ ہوکر بی بی صاحبہ کے کمرے میں آئی تو سامنے ٹی وی چل رہا تھا، لیکن ڈاکٹر مہرین نہ جانے کن سوچوں میں گم تھی، اس کے چہرے سے اضطراب اور اداسی نمایاں تھی۔

زینت کے دو مرتبہ آواز دینے پر وہ چونک پڑی۔

’’بی بی صاحبہ! آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں؟ شاید آپ تھک گئی ہیں، میں آپ کے پائوں دبا دوں؟‘‘

’’ہاں شاید…دراصل آج دو آپریشن تھے اور کل سے عید کی چھٹیاں ہیں، اس لیے آج مریضوں کا رش بھی زیادہ تھا۔‘‘

زینت ڈاکٹر مہرین کے آہستہ آہستہ پائوں دبانے لگی۔ عموماً جب وہ ڈاکٹر صاحبہ کے پائوں دباتی تو دونوں باتیں بھی کرتی رہتیں، لیکن یوں لگ رہا تھا کہ آج ڈاکٹر صاحبہ کچھ بولنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

’’زینت! تم بھی جاکرسو جائو۔‘‘

’’اچھا بی بی صاحبہ! کوئی کام ہوتو مجھے بلا لیجیے گا۔‘‘

زینت کے جانے بعد وہ ٹیرس میں آگئی۔ نومبر کا اختتام تھا، اب رات کو ہلکی سی خنکی محسوس ہونے لگی تھی۔ شہر میں تو چاند رات کی وجہ سے خاصی رونق تھی لیکن یہاں آس پاس صرف بنگلے اور کوٹھیاں تھیں جہاں خاموشی کا راج تھا اور آسمان پر بادلوں کے جھرمٹ میں ستارے اور چاند آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ کبھی بادلوں کی اوٹ سے جھانکتے، پھر نظروں سے اوجھل ہوجاتے۔

نہ جانے وہ آسمان پر کیا ڈھونڈتی رہی اور نہ جانے کتنی دیر وہیں کھڑی رہتی، لیکن اب اسے ٹھنڈ سی محسوس ہونے لگی تھی، لہٰذا ٹیرس کا دروازہ بند کرکے وہ بیڈروم میں آگئی۔ سونے کی بہت کوشش کی لیکن نیند اس سے کوسوں دور تھی۔

آج بہت عرصے بعد اس نے جنید کو دیکھا تھا، ہاں یقینا وہی تھا۔ اتنے سال گزرنے کے باوجود انہوں نے اُسے پہچاننے میں دیر نہ لگائی، اگرچہ اس کے چہرے پر بھی اب بڑھاپے کے سائے منڈلارہے تھے، لیکن وہ پہلے سے زیادہ پُروقار لگ رہا تھا۔ وہ اس کی طرف بڑھنے لگیں، لیکن پھر اپنے بڑھتے قدموں کو وہیں روک لیا۔ ماضی کے صفحے پلٹتے پلٹتے وہ پیچھے بہت دور چلی گئیں۔

اماں: ’’مہرین کے ابا! آج نگہت آپا آئی تھیں، کب تک وہ انتظار کرتی رہیں گی؟‘‘

ابا: ’’تم نے کیا جواب دیا؟‘‘

مہرین: ’’اماں آپ انہیں منع کردیں۔‘‘

اماں: ’’منع کردوں؟ تم دونوں باپ بیٹی آخر چاہتے کیا ہو؟ یہ تو بچی ہے، آپ تو ہوش کے ناخن لیں،کب تک ہم بیٹی کو بٹھائے رکھیں گے؟‘‘

بھائی اور بھابھی کی طرف سے جواب نہ میں ملنے پر آخر آپا نے اپنے بیٹے کی شادی اپنی بھانجی سے کردی جس کا دکھ صرف مہریں کی امی کو ہی تھا۔

اب تو مہرین کی میڈیکل کی تعلیم بھی مکمل ہوچکی تھی۔ دونوں باپ بیٹی کا خواب پورا ہو گیا تھا۔ اب ابا بھی چاہتے تھے کہ مہرین شادی کرلے لیکن مہرین کا خواب اب بھی پورا نہیں ہوا تھا۔ وہ مزید تعلیم کے لیے لندن چلی گئی۔ اگرچہ ابا اپنے دوست کے بیٹے جنید سے اس کی شادی کے خواہش مند تھے لیکن ان کی خواہش بار آور نہ ہوسکی۔

اور پھر اماں اپنی بیٹی کے شادی کا خواب دل میں لیے دوسری دنیا کے سفر پر روانہ ہوگئیں۔ ماں کے مرنے کی خبر سن کر وہ پاکستان پہنچی تو اُسے ماں کی کمی کا شدت سے احساس ہوا، لیکن سوائے آنسوؤں کے کچھ بھی نہ تھا۔ اب بابا کی خوشی کے لیے اس کا جنید سے ملنا ضروری تھا، مگر وہاں مہرین کو خوش آمدید کہنے کے لیے جنید اور مسز جنید اپنے دوسالہ بیٹے کے ساتھ موجود تھے۔ لہٰذا اس نے خود کو انسانیت کی خدمت تک محدود کردیا۔

زندگی اسی ڈگر پر رواں دواں تھی کہ ایک حادثے نے اس سے بھائی اور بھابھی چھین لیے۔ سہیل بھائی اور ان کی بیوی کا روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا اور نو سالہ سیرتؔ کی تمام ذمے داری اس پر آگئی جو ایک لحاظ سے اس کی زندگی کو نئے راستے پر لے آئی۔ وہ بھتیجی کی تعلیم و تربیت میں ایسی مصروف ہوئی کہ اب اسے اپنی شادی کا خیال بھی نہ رہا۔ سیرتؔ اس کی زندگی میں رونق اور مقصدِ حیات بن کر داخل ہوئی تھی۔ وہ ایک طرف ملک کی نامور ڈاکٹر بن چکی تھی۔ اپنا اسپتال، دولت، اور سب سے بڑی دولت سیرتؔ اب اس کے ساتھ تھی۔ زندگی خوب صورتی سے رواں دواں تھی۔ سیرتؔ کی تعلیم مکمل ہوئی تو اس نے اُس کی شادی کے لیے سوچا۔ وہ جلد سے جلد اس فرض سے سبکدوش ہونا چاہتی تھی۔ شاید اس کے دل میں چھپی ہوئی کسک تھی کہ وہ اب ایک اور مہرین کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہتی تھی، گرچہ وہ دوسری طرف بھی اپنے دوسرے بھائی اور رشتے داروں کا خیال رکھ رہی تھی لیکن سیرتؔ تو اس کی جان تھی۔

سیرتؔ شادی کے بعد بہت خوش تھی، اس کو خوش دیکھ کر مہرین بھی خوش تھی، خصوصاً سیرت کے بیٹے کی پیدائش کے بعد تو اپنا زیادہ وقت اُس کے بچے کے ساتھ گزارتی۔ اس کے شب و روز مثلِ عید تھے۔

’’پھوپھو! آپ کو تو پتا ہے میرے لیے آپ ہی میری ماں اور باپ ہیں۔ لیکن عاصم کے مستقبل کا سوال ہے، میں آتی رہوں گی اور آپ بھی کینیڈا کا چکر لگاتی رہیے گا۔‘‘

سیرتؔ کے کینیڈا جانے کے بعد پھر سے اس کی زندگی میں جیسے سناٹا چھا گیا۔ شروع میں تو ایک دو مرتبہ سیرتؔ سے ملنے کینیڈا گئی لیکن داماد کی وجہ سے اسے بار بار وہاں جانا مناسب نہیں لگا، اور اب تو تین سال ہوگئے تھے سیرتؔ اور بچوں سے ملے ہوئے۔ شروع میں ہفتے میں دو، تین بار فون پر بات ہوتی تھی لیکن پھر وقفہ بڑھتا ہی گیا۔ وہ خود مہینے میں ایک آدھ بار ہی فون پر بات کرتی لیکن اکثر سیرتؔ کو مصروف پاتی۔ لہٰذا اب تو عید بھی اس کی بے رونق ہی گزرتی۔ وہ سوچتی اگر سیرتؔ میری اپنی بیٹی ہوتی تو شاید ایسے خوشی کے تہوار تو میرے ساتھ گزارنا پسند کرتی۔ بوڑھی ماں کو اس طرح تنہا نہ چھوڑتی۔ ویسے تو عام طور پر دن گزر ہی جاتے تھے لیکن خصوصاً تہواروں پر اسے اپنی تنہائی کا احساس شدت سے ہوتا۔ تنہائی کے احساس سے اس کی آنکھیں برس پڑیں۔ بھائی اعجاز اور بھابھی تو اپنے بچوں میں ہی مصروف ہوتے، بہت کم ان سے ملاقات ہو پاتی۔ نہ جانے کس پہر تانے بانے بُنتے بُنتے وہ نیند کی آغوش میں چلی گئی۔ فجر کی نماز کا الارم بجا تو بڑی مشکل سے اس نے اُٹھ کر نماز پڑھی۔ زینت نے اس کے کمرے میں جھانکا ’’بی بی جی! آپ چائے وغیرہ لیں گی؟‘‘

’’نہیں ابھی نہیں، میں تھوڑی دیر سونا چاہتی ہوں۔‘‘

اس نے سونے کی بہت کوشش کی لیکن پھر و ہی یادیں اور تنہائیاں تھیں، کروٹیں بدلتے بدلتے ایک گھنٹہ گزر گیا، ابھی وہ سونے کی تیاری کر ہی رہی تھی کہ اسے اپنے آس پاس ایک مانوس سی خوشبو کا احساس ہوا، یوں لگا جیسے کوئی کمرے میں موجود ہو، اندھیرے میں اس نے آنکھیں کھولیں… ’’سیرت…!‘‘ بے اختیار اس کے منہ سے نکلا ،پھر خود ہی مسکرا دی اور بڑبڑانے لگی ’’وہ اب کیوں آئے گی؟‘‘

’’پھپھو جانی!‘‘ سیرتؔ کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی، اب اس نے اٹھنے میں دیر نہیں لگائی۔ زینت نے بھی آگے بڑھ کر لائٹ آن کردی۔

سیرتؔ کو سامنے دیکھ کر مہرین کی آنکھیں خوشی سے برس پڑیں۔ دونوں گلے ملیں۔ پیچھے سے سیرتؔ کے دونوں بچے چیخے ’’نانو! آپ ہم سے نہیں ملیں گی؟‘‘

مہرین کے لیے بے شک آج عید کا دن تھا، جو حقیقی معنوں میں دگنی خوشیوں کے ساتھ آیا تھا۔

حصہ