گزشتہ 6 ماہ سے شہناز باجی کے برابر والا گھر خالی تھا۔ آج یہاں کوئی فیملی آگئی تھی۔ وہ خوش تھیں کہ کچھ رونق ہوجائے گی۔ ویسے تو وہ لیے دیے رہنے والی کم گو خاتون تھیں۔ بیٹا لندن پڑھنے گیا تو وہیں ایک پاکستانی لڑکی سے شادی کرلی۔ اب اس کی ایک بیٹی تھی۔ اس نے کئی مرتبہ ماں کو بھی وہاں بلانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنا وطن چھوڑنے پر راضی نہیں تھیں۔
پڑوس والی فیملی میں میاں بیوی اور ان کی 7 سالہ بیٹی سارہ، یہ کُل 3 افراد تھے۔ اگلے دن دوپہر میں پڑوسن ہاتھ میں حلوے کی پلیٹ لیے چلی آئیں، ساتھ ہی چھوٹی سارہ بھی تھی۔
’’آج سے باورچی خانے میں کام شروع کیا ہے… اور افتتاح حلوے سے کیا۔ سوچا آپ کو بھی چکھا دوں۔‘‘
’’دادی جانی! آپ کو حلوہ پسند ہے نا؟ مجھے تو بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘ سارہ چہکی ۔
سارہ نے اتنی محبت سے دادی جانی کہا کہ ان کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔
’’آپ اتنی خاموش کیوں رہتی ہیں؟آپ کو ہنسی نہیں آتی؟ میں آپ کو جوکس سناؤں؟‘‘
’’سارہ! بہت بری بات ہے…چلو اب دادی جانی کا دماغ نہ کھاؤ، ان کو کچھ کام ہوگا۔‘‘
’’نہیں نہیں… رہنے دو اسے کچھ دیر میرے پاس۔‘‘
بس اس کے بعد سے ان کی سارہ سے خوب گاڑھی دوستی ہوگئی۔ سارہ اپنی دن بھر کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات ان کو بتاتی اور انہیں بھی اُس میں اپنی پوتی کی جھلک نظر آتی۔ شہناز باجی جو بہت کم گو ہوگئی تھیں، اب خوب باتیں کرتیں، کھلکھلا کر ہنس دیتیں… ان کی ویران زندگی میں جیسے بہار آگئی تھی۔ چلبلی سارہ نے زندگی کو بہت خوب صورت بنادیا تھا۔ سارہ کے امی ابو بھی بالکل اپنی ماں کی طرح ہی ان کا خیال رکھتے۔ ان کی بیماری ہو، سودا سلف لانا ہو یا کہیں گھومنے جانا ہو، سب ساتھ ہی جاتے۔ وہ جیسے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کے رشتے میں بندھ گئے تھے۔
سارہ کی فیملی کے آنے سے پہلے شہناز باجی کی ہر عید روتے ہوئے بیٹے کو خوب یاد کرتے گزرتی… مگر اب ان کو عید میں خوب مزا آتا۔ سارہ اپنی دادی جانی کے لیے اپنی پسند کا جوڑا لاتی اور شہناز باجی بھی ان سب کے لیے تحائف خرید کر لاتیں۔
بقرعید پر گھر میں آنے والا بکرا دادی کے نام کا آتا۔ ہر دفعہ سارہ اس کا خیال رکھتی، خود اس کو ٹہلاتی، اس کے کھانے پینے کا خیال رکھتی۔
پہلی عید کے دن جب قربانی کے لیے بکرے کی رسّی کھولی تھی، تب سارہ زار و قطار روئی، لیکن زبان سے کہا کہ ’’اللہ حافظ پیارے بکرے! جائو تم تو اللہ کی راہ میں قربان ہورہے ہو نا! میں رو تھوڑی رہی ہوں… میں تو خوشی سے رخصت کررہی ہوں… ہے نا دادی جانی!‘‘
اس کی معصومیت پر بے ساختہ انہوں نے اس کو لپٹا لیا تھا۔
ایسے ہی چھوٹے چھوٹے خوب صورت واقعات گزرتے رہے اور ان کی تنہائی کا احساس مٹتا گیا۔ اس دوران شہناز باجی ہر سال لندن کا چکر لگا کر آتیں کیوں کہ پوتی اور پوتے میں بھی دل اٹکا ہوتا۔ لیکن سارہ سے محبت کے رشتے میں کوئی خلل نہیں آیا بلکہ یہ مزید مضبوط ہوتا گیا۔ اب ان کا سگے بیٹے کے گھر دل نہ لگتا۔ وہاں وہ بس مہمانوں کی طرح رہتیں اور واپسی کی جلدی مچاتیں۔
دیکھتے ہی دیکھتے ماہ و سال بیتے اور سارہ بڑی ہوگئی۔ اس کی پڑھائی مکمل ہوچکی تھی۔ یہاں تک کہ عید کے بعد سارہ کی شادی طے ہوگئی۔ اتفاق سے لندن میں ان کی پوتی کی اعلیٰ تعلیم مکمل ہونے کی تقریب بھی اسی تاریخ کو تھی۔
عید کے قریب بیٹے نے ان کو اطلاع دی کہ فلاں تاریخ کی سیٹ بک ہوگئی ہے… بس آپ تیاری کرلیں۔
ہر بار پوتی سے ملنے کے لیے خوشی سے تیار ہونے والی شہناز باجی اِس مرتبہ اداس تھیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سارہ کی شادی کے لیے رکیں یا پوتی کی خوشی میں شرکت کریں۔ دونوں ضروری لگ رہے تھے اور کسی کی تاریخ تبدیل نہیں ہوسکتی تھی۔ وہ اسی ادھیڑبن میں اپنی آرام کرسی پر آنکھیں موند کر لیٹی ہوئی تھیں اور بیتے ماہ و سال ان کی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چل رہے تھے۔
سارہ اور اس کے والدین کی وجہ سے ان کی تنہائی بھری زندگی بہت آسان اور پُررونق ہوگئی تھی۔ بیٹے کا فون تو کبھی کبھار آٹھ دس دن میں آجاتا، مگر یہ تو رات دن ساتھ رہتے۔ اکثر سارہ ان کے ہی گھر آکر پڑھائی کرتی۔ کبھی دوپہر میں سو بھی جاتی۔ ان لوگوں کی وجہ سے ان کو اپنے بیٹے کی کمی کا احساس بہت کم ہوتا۔
’’اب کیا کیا جائے…؟‘‘ ان سے فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ کبھی کبھی کچھ بے نام رشتے خون کے رشتے سے بڑھ کر اہم ہوجاتے ہیں۔
اتنے میں سارہ نے آ کر ان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
’’دادی جانی! یہ میں کیا سن رہی ہوں؟ کیا آپ میری شادی میں شریک نہیں ہوں گی؟ آپ لندن جارہی ہیں؟‘‘ یہ سوال ایک کڑا امتحان تھا۔ ایک طرف عیدِ قربان اور سارہ کی شادی، دوسری طرف پوتی کی گریجویشن تقریب، کیا کریں؟
انہوں نے سارہ کو قریب کرکے ماتھے پر پیار کیا۔ اور فیصلہ اس کے حق میں کردیا۔