فرمانبردار بیٹے کی عظیم قربانی

103

ذی الحج کا مہینہ شروع ہوتے ہی مسلمان قربانی کے جانور کے حصول کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔ سب کی خواہش ہوتی ہے کہ جانور بہت ہی خوبصورت پیارا صحت مند ہو ایسا جانور مہنگا بھی ہو تا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق قربانی کا جانور بے عیب ہو نا چاہیے۔ ‘‘

ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی ایک شور اٹھا سعد کعب بھاگتے ہوئے اندر آئے۔ دادی جلدی چلیں بابا بکرے لے کر آئے ہیں۔ جب باہر دیکھا تو بچے بکروں سے چھیڑ چھاڑ کررہےتھے اور ان کی ریس لگانے کی باتیں کررہے تھے۔ دادی نے کہا بچو! قربانی کے جانوروں کو پیار و محبت سے رکھنا ہے۔ بالکل تنگ نہیں کرنا اور ان کے کھانے پینے کے لیے گھاس اور چارے کا بھی انتظام کرنا ہے۔ بچوں کو اپنے گھر کے فرد کی طرح انکی کی دیکھ بھال بھی کرنا ہے ۔ اللہ رب العالمین کے پاس نہ تو ان کا خون پہنچتا ہے اور نہ گوشت صرف ” تقوی ” پہنچتا ہے۔ اور قربانی ہوتے ہی گوشت اصل حقداروں تک پہنچا دینا ہے۔

کعب نے پوچھا گوشت کیسے بانٹتے ہیں۔ معاذ نے کہا بھائی قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ غریبوں ، رشتہ داروں پڑوسیوں اور اپنے گھر والوں کا حصہ ۔ دادی نے بتایا کہ قربانی کے ذریعے اللہ رب العالمین اپنے بندوں کو دو بڑے اور بہترین سبق سکھاتا ہیں ۔ سعد نے کہا کون سے سبق دادی اسکول والے ؟ دادی نے بتایا نہیں بیٹا ! پہلا تو یہ کہ اپنی پیاری چیزوں کو اللہ کے راہ میں قربان کرنے کے لیے ہر دم تیار رہنا ۔ اور دوسرا۔اللہ رب العالمین کا حکم سن کر بلا چوں چراں عمل کرنا۔ سعد سبحان اللہ ! یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔ معاذ نے کہا آج مدرسے میں استاد صاحب نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بتایا تھا کہ حضرت ابرہیم علیہ السلام اللہ کے بہت فرمان بردار تھے ایک مرتبہ اللہ نے انہیں حکم دیا کہ ’’ اپنے پیارے بیٹے کو میری رضا کے خاطر قربانی کر دو ۔ بیٹا بھی وہ تھا جو بڑھاپے کی عمر میں رب العالمین نے انہیں عطاکیا تھا ۔ دادی بولیں بالکل ٹھیک بتا یا شاباش ! معاذ

دادی نے کہا پیارے بچو! ذرا سوچیے اور غور کیجیے کہ حضرت ابرہیم علیہ السلام نےتمام جوانی اولاد کے بغیر زندگی گزاری اور اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے کا سہارا ، آنکھوں کی ٹھنڈک ان کی امیدوں کا مرکز بیٹا جو ان کو دیا تھا۔ اسی کی قربانی مانگی اور حضرت ابرہیم علیہ السلام انہیں قربان کرنے کو تیار ہوگئے۔ ’’ اب یہ بتائیں بچو! مجھے یا آپ کو ایسا حکم دیا جائے تو ہمارا کیسا ردعمل ہوگا؟ بچے بولے دادی یہ تو بہت مشکل بات ہے ۔ لیکن سبحان اللہ ابراہیم علیہ السلام رب کا حکم سنا اور اطاعت کی… رب العالمین کے فرماں بردار باپ کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام بھی فوری ذبح یعنی قربان ہونے کے لیے تیار ہوگئے۔ اس عظیم قربانی کے قصے نے ساری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ’’ہماری جانیں اللہ رب العالمین کی ملکیت ہے اور اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں ہمیں اللہ کی رضا حاصل کرنی ہے۔کی ماشاء اللہ اسماعیل علیہ السلام نے ہماری نوجوان نسلوں کے لیے بہترین پیغام دیا ہے‘‘ کہ رب کی رضا کے ساتھ ساتھ والدین کی فرماں برداری بھی لازمی ہے۔

بچے یک زبان ہوکر جی ہاں بالکل ٹھیک۔ دادی نے کہااب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کی رضامندی کے خاطر ہم کون کون سی پیاری پیاری چیزوں کو قربان کر سکتے ہیں۔ اگر انسان چاہے تو بہت کچھ قربان کر سکتے ہیں۔ اپنا قیمتی وقت ، اپنی صلاحیتیں ، مال و دولت ، وغیرہ اللہ رب العالمین کے راہ میں استعمال کر سکتے ہیں۔ہمیں اللہ تعالیٰ کو راضی کر کے آخرت کو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے ان شاءاللہ

سعد نے کہا دادی میں سمجھ گیا قربانی سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ تمام مسلمان اللہ کی رضا کے لیے قربانیاں دینے کے لیے کمر بستہ رہیں۔ اللہ رب العالمین کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے لیے قربانی دینا دیانت داری بھی ہے۔ ہم اس وقت قربانی وہاں بھی کرسکتے ہیں کہ جو غربت اور فاقہ کشی میں مبتلا ہیں ۔ اس موقع پر غزہ کے مسلمانوں کو ضرور یاد رکھنا ہے کعب ہم ان کو بھولے کب ہیں وہ ہمارے مسلم بھائی ہیں۔ اب ماشاءاللہ الحمد للہ الخدمت کے ذریعے ہراس جگہ قربانی کا گوشت پہنچا سکتے ہیں ۔ معاذ نے کیا چلو سب دعا مانگتے ہیں کہ اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ فلسطین کو اسرائیلی جارحیت سے آزادی عطاء فرمائے آمین۔ یاالٰہی ثم آمین یا رب العالمین۔

حصہ