یہ کہانی ایک بہادر فلسطینی بچے کی ہے جس کا نام احمد ہے۔ جس کی عمر صرف دس سال ہے، لیکن اس کی زندگی میں دکھوں اور مصیبتوں کا سمندر بسا ہوا ہے۔ احمد کے والدین کچھ سال پہلے ایک فضائی حملے میں شہید ہو چکے ہیں، اور اب وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ اپنے دادا دادی کے پاس رہتا ہے۔
احمد کے والدین کی شہادت نے اس کے دل میں ایک چنگاری بھڑکا دی ہے۔ وہ ہر وقت اپنے وطن کی آزادی کے خواب دیکھتا ہے اور اپنے والدین کے قاتلوں سے بدلہ لینے کی تمنّا رکھتا ہے۔ احمدکو اپنی زمین سے بے پناہ محبت ہے اور وہ اپنے دادا دادی کی کہانیوں سے فلسطین کی تاریخ اور جدوجہد سے آگاہ ہو چکا ہے۔
ایک دن احمد اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک ایک فوجی گاڑی ان کے قریب آ کر رک گئی۔ فوجیوںنے گاؤں کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ احمد نے یہ سب دیکھ کر دل میں ایک فیصلہ کیا۔ وہ اپنے چھوٹے سے جسم میں بڑی سی ہمت جمع کر کے دوستوں کے ساتھ مل کر منصوبہ بنانے لگا۔
احمد نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر گاؤں کے باہر ایک چھپنے کی جگہ بنائی۔ وہ سب وہاں چھپ کر دشمن فوجیوں کی حرکات و سکنات کو دیکھتے رہے۔ ایک رات حسن اور اس کے دوستوں نے فوجی کیمپ پر چھاپا مارنے کا منصوبہ بنایا۔ انہوں نے گھروں سے پتھر جمع کیے اور اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے بڑی بڑی ہمت کی۔
احمد اور اس کے دوست رات کے اندھیرے میں کیمپ کے قریب پہنچے اور چپکے سے اندر داخل ہو گئے۔ انہوں نے پتھروں سے فوجیوں کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا اور ان کے خیموں کو نقصان پہنچایا۔ فوجی بوکھلا گئے اور حسن اور اس کے دوستوں نے موقع کا فائدہ اٹھا کر وہاں سے فرار ہونے میں کامیابی حاصل کی۔
یہ واقعہ گاؤں کے لوگوں کے لیے ایک بڑی امید بن گیا۔ حسن کی بہادری نے سب کے دلوں میں نیا حوصلہ پیدا کیا اور لوگوں نے اس کی تعریف کی۔ احمد جانتا تھا کہ ابھی اس کا سفر ختم نہیں ہوا، لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کی قوم کی آزادی کے لیے ہر ایک قدم اہم ہے۔
احمد کی یہ کہانی آج بھی فلسطین کے لوگوں کے لیے ایک مثال ہے۔ اس کی بہادری اور جذبے نے ثابت کر دیا کہ چھوٹے سے چھوٹا قدم بھی بڑی تبدیلی لا سکتا ہے۔ حسن اپنے والدین کی قربانی کو ہمیشہ یاد رکھتا ہے اور ان کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔