خالد عرفان کے نعتیہ کلام اعزاز کی تعارفی تقریب

138

خالد عرفان طنز و مزاح گو ے طور پر اپنی شناخت رکھتے ہیں لیکن وہ نعتیہ ادب میں بھی شہرت کے حامل ہیں۔ جمعیت الفلاح کراچی نے ان کے نعتیہ کلام ’’اعزاز‘‘ کی تعارفی تقریب کا اہتمام کیا جس میں ڈاکٹر عزیز احسن نے صدارت کی۔ نسیم احمد صدیقی مہمان خصوصی تھے جنہوں نے اپنی تقریر میں مسلمانانِ ہند کو متحد ہونے کی دعوت دی کیوں کہ اس زمانے میں مسلمانوں کے لیے بے شمار مسائل موجود ہیں۔ ہمارے اندر جذبۂ ایمان موجود ہونا چاہیے‘ ہم اسلامی عقائد پر کاربند رہیں تاکہ ہماری نجات ممکن ہو۔ طاہر سلطانی نے تلاوت کلام مجید اور نعت رسولؐ کی سعادت حاصل کی۔ حنیف عابد نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔

سلمان صدیقی نے کہا کہ وہ خالد عرفان کی قادر الکلامی کے قائل ہیں‘ ان کی حیثیت طنز و مزاح کے شاعر سے ہے‘ اس صنفِ سخن میں ان کا کوئی مدمقابل نہیں لیکن ان کا پہلا مجموعہ نعت کا ہے۔ انہوں نے اپنے شعری سفر کا آغاز بہت شان دار طریقے سے کیا۔ 1986ء میں ان کا پہلا نعتیہ مجموعہ کلام ’’الہام‘‘ منظر عام پر آیا تھا ’’اعزاز‘‘ کے نام سے یہ ان کا 8 واں مجموعہ ہے۔ انہوں نے نعت گوئی میں وہ الفاظ استعمال کیے ہیں جو ہماری روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں تازہ کاری نظر آتی ہے۔ نعت گوئی ایک مشکل کام ہے لیکن وہ اس تجربے سے کامیاب گزرے ہیں۔ ان کی دیگر کتابوں میں لقمۂ تر‘ بڑے لوگ‘ نو پرابلم‘ ایکسکیوز می‘ چٹکی میں زعفران اور ناقابل اشاعت شامل ہیں۔ نعت کی شاعری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و صفات بیان کی جاتی ہیں لیکن جدید نعت کے حوالے سے اب مسائل دنیا بھی کہے جا رہے ہیں کیوں کہ دنیاوی مسائل کا حل بھی اسوۂ رسول کی پیروی میں مضمر ہے۔ ان کے ہاں جدیدیت کے ساتھ عشق رسول موجود ہے۔ ان کے ہاں عبد اور معبود کا فرق نظر آتا ہے۔

قمر محمد خان نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ جمعیت الفلاح کا ادارہ 1950ء سے علم و ادب کی ترقی کے لیے کام کر رہا ہے لیکن ہم انسانی خدمات کے حوالے سے بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں اس کے علاوہ دینِ اسلام کے اہم موضوعات پر بھی ہم تقریبات منعقد کراتے ہیں تاکہ اشاعت اسلام میں اپنا حصہ شامل کر سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اکثر و بیشتر قابل ستائش قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے محفلیں سجاتے ہیں آج ہم نے انتہائی معروف و مشہور شاعر خالد عرفان کے دوسرے نعتیہ مجموعہ ’’اعزاز‘‘ کے لیے یہ محفل ترتیب دی ہے اس کے ساتھ ساتھ ہم نعتیہ مشاعرے کا بھی اہتمام کیا ہے۔ آج کے صاحبِ اعزاز خالد عرفان کے لہجے میں تازگی‘ زبان و بیان میں پختگی ہے‘ ان کے تمام نعتیہ اشعار میں جب رسولؐ موجزن ہے۔ انہوں نے نعت گوئی میں سائنسی تجربات بھی کیے ہیں کہ تمام کائنات کا مرکز و محور ہمارے رسولؐ کی ذات اقدس ہے۔ جب تک ہم رسول اکرمؐ کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل نہیں کریں گے ہم دین و دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔

ڈاکٹر سہیل شفیق نے کہا کہ خالد عرفان نے آیاتِ قرآن کی تفاسیر اور اسلامی تعلیمات کو نہایت ہنر مندی سے نظم کیا ہے۔ ان کے لہجے میں چاشنی ہے‘ ان کے کلام میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل اور سیرت رسولؐ موجزن ہے‘ ان کے یہاں ندرت خیال پوری توانائی کے ساتھ جلوہ گر ہے۔

خالد عرفان نے کہا کہ وہ جمعیت الفلاح کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے اعزاز میں یہ محفل ترتیب دی۔ یہ لوگ بڑی جانفشانی سے پروگرام آرگنائز کرتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ادارے کو مزید ترقی عطا فرمائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نعت گوئی اللہ کی توفیق ہے کہ اللہ کے حکم کے بغیر پتّا بھی نہیں ہل سکتا۔ میرے والد اور ماموں بھی شاعر تھے اس طرح شاعری میرے لہو میں گردش کر رہی ہے۔ یہ فن مجھے ورثے میں ملا ہے۔ میری خواہش تھی کہ میں نعت گوئی میں شامل ہو جائوں لہٰذا میں نے نعتیہ اشعار کہے جب میں نے معروف عالم دین علامہ نسیم صدیقی کو ایک مصرع سنایا کہ ’’سائنس محمدؐ کا پتا پوچھ رہی ہے‘‘ تو انہوں نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ میں نعتوں میں سائنسی اصطلاحات اور استعارات کو شامل کروں لہٰذا میں نے یہ کام کیا ور خدا نے مجھے سرخ رو کیا۔ میں نے بے شمار مشاعرے پڑھے ہیں جن میں پاکستانی مشاعرے اور غیر ممالک کے مشاعرے شامل ہیں لیکن مجھے سب سے زیادہ لطف نعتیہ مشاعرے میں آتا ہے کہ نعت گوئی ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ نعت توئی بھی کارِ ثواب ہے۔

ڈاکٹر عزیز احسن نے صدارتی خطاب میں کہا کہ خالد عرفان سے میرا تعلق 1970ء سے ہے۔ ان کے اشعار علم و آگہی سے مربوط ہوتے ہیں‘ طنز و مزاح کے طور پر وہ ساری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔ وہ ہر مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت ہیں۔ نعت نگاری میں بھی انہیں دسترس حاصل ہے۔ خالد عرفان نے انتہائی ذمہ داری سے نعت نگاری کی ہے۔ انہوں نے عشق رسولؐ میں ڈوبے ہوئے اشعار کہے ہیں۔ انہوں نے سائنسی دور کی ایجادات‘ اختراعات اور بہت سے تجربات کو بڑی عمدگی سے تشبیہاتی اور استعاراتی انداز میں برتا ہے۔ ان کے اشعار میں معنویت اور غنائیت موجود ہے میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ وہ نعتیہ شاعروں کی صف میں بھی اہم مقام کے حامل ہیں۔

جمعیت الفلاح کے صدر قیصر خان نے تمام شعرائے کرام اور سامعین کا شکریہ ادا کیا کہ جن کی وجہ سے یہ پروگرام کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ انہوں نے پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے دعا کی اور امت محمدیہ کے مسائل کے لیے بھی کہا کہ جب تک ہم متحد نہیں ہوں گے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خالد عرفان قادرالکلام شاعر ہیں‘ انہوں نے جدید اسلوب میں شاعری کی ہے‘ ان کے یہاں موجودہ عہد کی سائنسی تجربات و ترقی کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

میرے سرکارؐ کی طرح سائنس
پتھروں کو زبان دے نہ سکی
تقریب کے دوسرے دور میں نعتیہ مشاعرہ ہوا جس میں ڈاکٹر عزیز احسن‘ خالد عرفان‘ سلمان صدیقی‘ انور انصاری‘ اختر سعیدی‘ یاسین وارثی‘ سلم فوز‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ قمر عاصی‘ حنیف عابد‘ اورنگ زیب‘ جمال احمد جمال‘ سلطان مسعود شیخ‘ نعیم انصاری‘ مرزا عاصی اختر‘ نورالدین نور (نعتیہ مشاعرے کے نظامت کار)‘ اکرم رازی اور شائق شہاب نے نعتیہ اشعار نذرِ سامعین کیے۔

حصہ